لاہور ہائی کورٹ اور کالا باغ ڈیم
لاہور ہائی کورٹ نے ’’کالا باغ ڈیم‘‘ نہ بنانے پر برطرف وزیراعظم اور چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ درخواست گزار اے کے ڈوگر نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت نے 2012ء میں حکم دیا تھا کہ ’’مشترکہ مفادات کونسل‘‘ کے فیصلے کی روشنی میں ’’کالا باغ ڈیم‘‘ بنایا جائے لیکن پانچ سال گزرنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا گیا جو توہین عدالت کے زُمرے میں آتا ہے۔ عدالتی حکم کی عدم تعمیل پر میاں نواز شریف سمیت فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے اور عدالت، ڈیم بنانے کے حکم پر فوری طور پر عمل درآمد کا حکم دے۔
عدالت نے درخواست کی سماعت کے بعد میاں نواز شریف سمیت فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے، 11 دسمبر کو جواب طلب کر لیا۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اس ضمن میں ہماری صرف اتنی سی گزارش ہے کہ ’’کالا باغ ڈیم‘‘ کا تعمیر کیا جانا، اتنا ہی ضروری ہے، جتنا کہ ہر روز سورج کا طلوع ہونا۔ جس سے تمام کائنات روشن ہوتی ہے۔ اور کاروبارِ حیات رواں دواں ہوتا ہے۔
اگر خدانخواستہ کسی دن سورج طلوع نہ ہو تو آپ آسانی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ساری دنیا اندھیرے میں ڈوب جائے گی اور زندگی کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ جائے گا۔ اِس ’’ڈیم‘‘ کی اہمیت اور حیثیت ایسے ہی ہے جیسے جسم میں رُوح کی۔ جسم میں سے، اگر رُوح نکال لی جائے تو باوجود انسانی اعضاء کے، ہم اسے مُردہ کہتے ہیں کیونکہ اعضاء کی موجودگی بھی کسی کام کی نہیں رہتی۔ ہاتھ ہوتے ہوئے بھی پکڑتے نہیں، پاؤں ہوتے ہوئے بھی چلتے نہیں، کان ہوتے ہوئے بھی سنتے نہیں، آنکھیں ہوتی ہوئی بھی، دیکھتی نہیں، دل ہوتے ہوئے بھی، دھڑکتا نہیں۔ گویا بغیر روح کے جسم کی کیفیت ایک مُردہ کی سی ہوتی ہے۔
ہم جانتے ہیں پانی تو ہے ہی زندگی۔ تمام زندگی کا دارومدار پانی پر ہے۔ یہ ان چار عناصر کا حصہ ہے جن پر زندگی کا دارومدار ہے۔ یعنی آگ، ہوا، مٹی اور پانی۔ پانی ہو تو فصلیں سیراب ہوں گی، خوشحالی آئے گی۔ اِسی سے انرجی پیدا ہو گی۔ جو زندگی کو روشن بنانے میں ممد و معاون ثابت ہو گی۔ انڈسٹری چلے گی۔ برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ عدالتِ عالیہ سے گزارش ہے اب اگر انہوں نے ’’کالا باغ ڈیم‘‘ بنانے کے کیس کو شروع کیا ہی ہے تو اِسے کسی نہ کسی انجام تک ضرور پہنچائیں تاکہ قومی معیشت میں استحکام آ سکے۔
یاد رہے! ’’کالا باغ ڈیم‘‘ کی تعمیر کے حوالے سے، ماہرین اور انجینئرز میں سے ایک انجینئر جناب شمس الملک سابق چیئرمین واپڈا اس کی تعمیر کو ناگزیر قرار دے چکے ہیں۔ اُن کے مطابق ایک ڈیم کے لئے، یہ موزوں ترین سائٹ ہے۔ بہرحال اس کی تعمیر کا آغاز جلد از جلد ہونا چاہیے تاکہ معقول عرصہ کے اندر اندر اس کی تکمیل ہو سکے۔
اب دیکھئے! انتظامیہ کیا کرتی ہے؟ اور اونٹ کِس کروٹ بیٹھتا ہے!