دھرنا : حکومتی فیصلے پر عمل کریں گے : تصادم چاہتے ہیں نہ فوج‘ عدلیہ کا کمزور ہونا ملک کیلئے اچھا ہے : فوجی ترجمان
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ دھرنے سے متعلق حکومت کے فیصلے پر عمل ہو گا، حکومت نے جب بھی بلایا وہ کام کرنا فوج کا فرض ہے، پاکستان کے تحفظ کے لئے فوجی اور سویلین لیڈرشپ ایک ہیں۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ شہید ہمارے لئے اور خاندان کا فخر ہیں۔ ملک کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔ جنازوں میں سیاسی قیادت اور وزیر بھی شریک ہوتے ہیں۔ قومی حمایت کے بغیر کوئی فوج کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ہماری کامیابی قوم کی حمایت کی وجہ سے ہے۔ افسر یا جوان کی شہادت سے ہماری زندگی کا ایک حصہ چلا جاتا ہے۔ سول و عسکری قیادت ملکی تحفظ کیلئے ایک ہے۔ ہمیں ملکی تحفظ کیلئے ایک ہی رہنا ہے۔ فوج ریاستی ادارہ ہے، حکومت کے احکامات پر چلتا ہے، فیض آباد دھرنے کا افہام و تفہیم سے حل ہی بہتر ہے، دہشت گردی کیخلاف جنگ آسان نہیں۔ پاک افواج نے بہت لمبا اور مشکل سفر طے کیا۔ پاک فوج نے بہت سے علاقوں میں امن بحال کیا۔ پاکستان میں اب کوئی منظم دہشت گرد تنظیم نہیں، دہشت گردوں کے سلیپرز سیل ہو سکتے ہیں۔ انٹیلی جنس آپریشن ہوتے ہیں۔ انٹیلی جنس بیس آپریشنز سے دہشت گردوں کے رابطے توڑ رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں امن مزید بہتر ہو گا۔ افغان افواج کی صلاحیت پاکستان جیسی نہیں۔ افغانستان میں سکیورٹی خلا بڑا مسئلہ ہے۔ افغان سرحدی علاقوں میں افغان فوج کی رٹ نہیں۔ سرحد پر باڑ لگانے سے دراندازی کے واقعات کم ہو گئے۔ جب ساتھی شہید ہوتا ہے تو دردناک لمحہ ہوتا ہے۔ اپنے پیاروں کو خون میں دیکھنا آسان کام نہیں۔ سکیورٹی ادارے امن کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں‘ عوام کی حمایت سے دہشتگردی کیخلاف کامیاب ہو رہے ہیں‘ پاکستان دشمن قوتیں ہمیں ناکام بنانا چاہتی ہیں‘ ملک میں کسی صورت امن کو خراب نہیں ہونے دیں گے‘ ملک میں امن کیلئے کچھ بھی کرنا پڑا کریں گے‘ عدلیہ اور فوج کمزور ہو جائیں تو یہ ملک کیلئے اچھا نہیں ہے۔ ملکی تحفظ کیلئے کام کرتے رہیں گے‘ جوان جانوں کی قربانیاں دے کر امن قائم کر رہے ہیں‘ آئین کی سربلندی کیلئے اپنا کام کرتے رہیں گے۔ پاک افغان سرحد پر دہشت گردی سے دشمنوں کو بلوچستان میں موقع ملا۔ خواہش ہے پاکستان کے تمام ادارے مل کر کام کریں۔ افواج پاکستان کوئی تصادم چاہتی ہے اور نہ ہی کرے گی‘ تمام ادارے مل کر کام کریں گے تو پاکستان آگے بڑھے گا۔ فاٹا سے دہشت گردوں کا صفایا کیا ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی سے فاٹا کے حالات خراب رہے۔ اب ہماری توجہ بلوچستان کی ترقی پر ہوگی‘ سوئس حکومت نے براہمداغ بگٹی کی سیاسی پناہ کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔ وزیراعظم نے خوشحال پاکستان کے نام سے پروگرام متعارف کروایا۔ خوشحال پاکستان پراجیکٹ کیلئے 60ارب روپے مختص کئے گئے ہیں‘ باہر بیٹھ کر پاکستان کو غیرمستحکم نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت حکومت سے تعلقات بہترین سطح پر ہیں‘ افواج پاکستان ملک کیخلاف کوئی اقدام نہیں کرے گی‘ اسلام آباد دھرنے کا مسئلہ حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ خواہش ہے دھرنے کا مسئلہ افہام و تفہیم سے حل ہو‘ حکومت فوج بلائے تو طریقہ کار کے تحت ہی آگے آتی ہے۔ دھرنے سے متعلق حکومت نے فیصلہ لینا ہے۔ ادارے اہم ضرور ہوتے ہیں لیکن ریاست سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ دھرنے سے متعلق حکومت کے فیصلے پر عمل ہو گا۔ ادارے شخصیات سے زیادہ اور ملک اداروں سے زیادہ اہم ہے۔ سیاست کی اپنی ڈومین ہے‘ سیاسی سرگرمی چلتے رہنی چاہئے۔ علاوہ ازیں پاکستان نے سرحد پار افغانستان سے اس کے ہاں حملہ کرنے والے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کی امریکی فوج کی پیشکش کا خیرمقدم کیا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ انسدادِ دہشت گردی کے علاقائی تعاون کے لئے "اچھا اقدام" ہے۔ یاد رہے افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے کابل میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ اس پیشکش کا مقصد پاکستانی فوج کی طرف سے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کے دوران کی جانے والی گولہ باری میں سرحد پار افغانستان میں عام شہریوں کو اس کی زد میں آنے سے بچانا ہے۔پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جنرل نکولسن کے بیان پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ ان کے ملک نے ہمیشہ سرحدی سلامتی کو مضبوط بنانے کے لیے پیشکش اور تعاون کی خواہش کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یکطرفہ طور پر پاکستان نے اپنی جانب تمام علاقوں کو دہشت گردوں سے صاف کر دیا ہے، ریاست کی عمل داری بحال کی ہے۔ غیر قانونی طور پر لوگوں کی نقل و حرکت اور دہشت گردوں کی آمدو رفت کو روکنے کے لئے افغانستان کے ساتھ سرحد پراپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئی چوکیاں اور قلعے بنائے ہیں اور باڑ لگانے کا کام بھی جاری ہے۔مشاہد حسین کہتے ہیں کہ جنرل نکولسن کے خیالات پاک افغان سرحد کی سلامتی سے متعلق اسلام آباد کے "درست اور جائز" تحفظات کا ایک طرح سے اعتراف ہے۔ ان بنیادی تحفظات پر توجہ دینے کا امریکی عزم نہ صرف پاک افغان سرحد کے انتظام کے ضمن میں بلکہ انسدادِ دہشت گردی کے لئے پاک امریکہ تعاون کے لئے بھی اچھا قدم ہے۔ ادھر افغانستان کے ایک بڑے علاقے پر طالبان کے کنٹرول کے حوالے سے ایک امریکی جنرل نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ طالبان کو شکست دینے کی کوششوں میں افغان دستوں کے لیے کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ جنرل نکولسن نے انسداد دہشت گردی کے اعداد و شمار پر مشتمل ایک دستاویز کے حوالے سے بتایاکہ افغانستان کے اسی فیصد علاقے پر قبضہ اس سولہ سالہ پرانے تنازعے کا ایک اہم موڑ ہے۔ ہمارے خیال میں دشمن کو پیچھے دھکیلنے کا یہ بہترین موقع ہے۔
ترجمان پاک فوج