• news

دھرنا : آئی ایس آئی‘ آئی بی سنجیدگی دکھائیں‘ لگتا ہے سب شرارت کے لیے کیا جا رہا ہے : سپریم کورٹ

اسلام آباد (بی بی سی+نوائے وقت رپورٹ) عدالت عظمیٰ نے فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دھرنے والوں کے پیچھے کون ہے؟ انہیں کون لیکر آیا اور اسکا فائدہ کس کو مل رہا ہے؟ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے فیض آباد میں دھرنا دینے والے افراد کے بارے میں خفیہ اداروں، انٹرسروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو یعنی آئی بی کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس معاملے میں کچھ تو سنجیدگی دکھائیں اور یہ کہ اس سے اچھی رپورٹ تو میڈیا تیار کرسکتا ہے۔ رپورٹ لیکر وزارت دفاع اور آئی بی کے حکام عدالت میں پیش ہوئے تھے۔ دو رکنی بنچ میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سب کچھ شرارت کیلئے کیا جا رہا ہے تاکہ مظاہرین پر گولیاں برسائی جائیں اور ملک میں امن وامان کے حالات خراب کئے جائیں۔ سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کے حکام کو کہا کہ وہ ان سوالات کو سامنے رکھتے ہوئے رپورٹ دیں کہ دھرنے والوں کے پیچھے کون ہے؟ انہیں کون لیکر آیا اور اس کا فائدہ کس کو مل رہا ہے؟ عدالت کا کہنا تھا کہ چند سو افراد نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے جڑواں شہروں کے لوگوں کا جینا مشکل کررکھا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی سکون میں ہے تو وہ لوگ جو گذشتہ دو ہفتوں سے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیض آباد کے قریبی علاقوں میں فرد واحد کی رٹ قائم ہے جبکہ وہاں پر ریاست کی عملداری نظر نہیں آرہی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جس جگہ پر مظاہرین دھرنا دیے ہوئے ہیں وہاں سے کچھ فاصلے پر حساس تنصیبات بھی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزارت دفاع کے حکام سے استفسار کیا کہ فوج کا ہیڈکوراٹر بھی کچھ فاصلے پر واقع ہے لیکن انہیں اٹھانے کیلئے اقدامات کیوں نہیں کئے جا رہے۔ عدالت نے وزارت دفاع کے حکام سے کہا کہ جو رپورٹ میں کہا گیا ہے وہ پہلے ہی میڈیا میں چھپ چکا ہے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے وزارت دفاع کے حکام سے استفسار کیا کہ کیا انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ لوگ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ عدالت نے آئندہ سماعت پر جمعرات کو حساس اداروں کے افسران کو پیش ہونے اور جامع رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ بنچ میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے حیرانی کا اظہار کیا کہ دھرنا دینے والی جماعت لبیک یا رسول اللہ نے انتخابات میں حصہ لیا اور یہ جماعت اسی نام سے کیسے رجسٹر ہو گئی۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا حکومت نے دھرنا دینے والے افراد کے بنک اکاﺅنٹس بند کئے ہیں اور کیا انکی سپلائی لائن کو کاٹا گیا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ بنک اکاونٹس کے بارے میں تفصیلات اکٹھی کی جارہی ہیں۔ اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مظاہرین کیخلاف 18 مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ 169 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ دھرنے میں مسلح لوگ بھی ہیں مذاکرات کر رہے ہیں طاقت استعمال کر کے حالات خراب نہیں کرنا چاہتے‘ جلد پیشرفت کا امکان ہے ۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ لگتا ہے مسلمانوں کا اسلامی ریاست میں رہنامشکل ہوتاجارہاہے، اسلام میں کہیں ایسا نہیں لکھا کہ راستہ بند کردیا جائے، دھرنا پر خرچ ہونے والے خزانے کے ایک ایک پیسے کا حساب دینا ہے۔ کیا عدالتیں بند ہوگئی ہیں ،کل کوئی اور مسئلہ آئے گا تو کیا پھر شہر بند ہو جائیں گے۔ پاکستان کو دلائل کی بنیاد پر بنایا گیا، جب دلیل کی بنیاد ہی ختم ہوجائے ،ڈنڈے کے زور پر صحیح بات اچھی نہیں لگتی، اپنی شہرت کیلئے سب ہورہا ہے تاکہ نام آجائے، لوگوں کو تکلیف ہورہی ہے، ایک حوالہ دے دیں کہ راستہ بند کردیا جائے، اسلام میں کہیں ایسا نہیں لکھا، جب ریاست ختم ہوگی تو فیصلے سڑکوں پر ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ درخت لگانا بھی نیکی کا کام ہے وہ کوئی نہیں کرتا، میڈیا والے ایسے لوگوں کو بلاتے کیوں ہیں جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، احکام الٰہی پر عمل نہیں ہو رہا اور ریاست کا سرجھکا ہوا ہے، ہم بھی پریشان ہوتے ہیں مگر گالم گلوچ نہیں کرتے ، یہ سب انا کیلئے ہو رہا ہے۔ جسٹس فائز عیسی نے کہا کنٹینر عوام کے پیسے سے لگائے گئے ہیں ، کتنا خرچہ آرہاہے۔ پبلک ٹرانسپرنسی کیلئے بتایا جائے کتنا خرچہ ہو رہا ہے، رحمت کا سلام کسی کے منہ سے کیوں نہیں نکل رہا، سب کے منہ سے گالم گلوچ نکل رہی ہے، سمجھ نہیں آرہی یہ ملک کیسے چلے گا، کل ایسا کرتے ہیں مقدمہ سڑک پر لے جاتے ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل اور عدالت میں موجود وزارت داخلہ و دفاع کے حکام کے استفسار کیا دھرنے والوں کوکھانا پینا کیسے جارہاہے؟ ہم نہیں چاہتے کہ ان پر گولیاں برسائی جائیں، دھرنے والوں کو سہولیات بھی فراہم نہ کی جائیں۔ انہوں نے میڈیا نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا بھی آئین کے آرٹیکل 19کا خیال کرے۔ ایسے لوگوں کو دعوت نہ دے جو انکے حامی ہیں۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا پر دھرنے کی خبروں کوبلاک کیوں نہیں کیا گیا؟ ہماری ذمے داری قانون کی تشریح ہے، بتائیں کیا حکم دیں؟ ذمہ داری ریاست اور انتظامیہ کی ہے، ہم آپ کا کام نہیں کریں گے پھر آپ ہی شکوہ کریںگے کہ ہمارے کام میں مداخلت ہوئی۔ دھرنے سے متعلق حکومت سے 30 نومبر تک رپورٹ طلب کر لی گئی۔ انہوں نے کہا سب انا کیلئے ہو رہا ہے۔ ایجنسیوں پر اتنا پیسہ خرچ کرتے ہیں ان کا کردار کہاں ہے‘ وہ کیوں خاموش ہیں اگر کوئی خفیہ بات ہے تو بند لفافے میں دے دیں‘ رسول اکرم نے فرمایا تھا مسکرانا بھی صدقہ ہے آج مجھے کوئی مسکراتی شخصیت نظر نہیں آ رہی۔
دھرنا/ سپریم کورٹ


اسلام آباد/ حاصل پور (نوائے وقت رپورٹ+ نامہ نگار) پنڈی اسلام آباد کے سنگم فیض آباد کی سڑک 18 روز بعد بھی نہ کھل سکی۔ اپنے کام‘ سکول‘ کالج دفتر جانے کےلئے گھروں سے نکلنے والوں کو بدستور پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ روز لاکھوں شہری ، جن میں بچے بوڑھے اور مریض بھی شامل ہیں۔ راستوں میں گھنٹوں خوار ہو رہے ہیں مگر ان کے حال پر ترس کھانے والا کوئی نہیں۔ گزشتہ روز حکومت نے لوگوں کی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے میٹرو بس سروس کو دوبارہ چلانے کا فیصلہ کیا جبکہ دھرنے والوں کو ایک علاقے تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس حوالے سے فیض آباد کے ارد گرد سڑکوں پر سٹریٹ لائٹس بند کر دی گئیں جبکہ مری روڈپر بھی رکاوٹیں لگا دی گئیں۔ حاصل پور سے نامہ نگار کے مطابق ختم نبوت احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ رہنماﺅں کا کہنا تھا حکمرانوں نے قادیانیوں کو خوش کرنے کے لیے اللہ کے رسولﷺ سے دشمنی مول لی۔ ختم نبوت قانون میں ترمیم کرنے کی جسارت کرنے والے اسحاق ڈار، مریم نواز، زاہد حامد کو جب تک عہدوں سے ہٹایا نہیں جاتا اور سزا نہیں دی جاتی عاشقان رسول احتجاج کرتے رہیں گے۔ وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری احسن اقبال نے دو ٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ حکومت کسی صورت دھرنے والوں کے ناجائز مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گی۔ حکومت کے پاس دھرنے والوں کے سامنے سرنڈر کرنے کا کوئی آپشن نہیں۔ آج ان کے مطالبات مان لیے تو مزید لوگ اسلام آباد میں دھرنے دینا شروع ہو جائیں گے۔ ختم نبوت کا قانون مزید مضبوط اور سنگین ہو گیا ہے۔ دھرنے قائد ختم نبوت پر سیاست کر رہے ہیں۔ ہم مذاکرات کا راستہ بھی اپنا رہے ہیں، دھرنے والے پاکستان کے امیج کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ دھونس دھاندلی سے وکٹ گرانے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ دھرنے کا مقصد مسلم لیگ ن کا ووٹ بنک متاثر کرنا ہے۔ کسی کی ضد اور انا کیلئے وزیر قانون استعفیٰ نہیں دے سکتے۔ ان بدعتوں کا سامنا کر رہے ہیں جو طاہر القادری اور عمران نے متعارف کروائیں۔ یہ لال مسجد اور ماڈل ٹاﺅن جیسا واقعہ ڈھونڈ رہے ہیں۔ دھرنے والوں کو سیاست نہیں چمکانے دیں گے۔ اپیل کرتا ہوں کہ ہم سے جائز مطالبہ کریں۔ وزیر قانون کے استعفے کا مطالبہ ایک ضد ہے، اگلے 24 گھنٹوں میں اہم اعلانات ممکن ہیں۔ وزیر قانون سے صرف پارلیمنٹ استعفیٰ لے سکتی ہے، میں فیض آباد چوک کا نہیں پورے ملک کا وزیر داخلہ ہوں۔ گلی گلی محلے میں یہ لڑائی نہیں پھیلانا چاہتے، چاہیں تو 3 گھنٹے میں آپریشن کر کے یہ جگہ خالی کرا لیں۔
دھرنا

ای پیپر-دی نیشن