دور فتن میں بقاء کا راز
محمد امین خالد
اللہ تعالی اپنی عظیم ترین کتاب قرآن پاک میں انسان کو خصوصاً مسلمانوں کو دنیا اور کائنات کے بارے غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ غوروفکر کی یہ دعوت ایک مومن کی اصل میراث ہے۔ قرآن لوگوں کو دو حصوں میں تبدیل کرتاہے۔ ایک جاننے والے اور دوسرے نا جاننے والے۔ یہ جاننا اور نا جاننا دراصل غوروفکر کرنے یا نہ کرنے کا منطقی نتیجہ ہوتاہے۔ مسلمانوں میں جب تک اس قرآنی دعوت پر عمل کی روایت برقرار رہی امامت، عدالت، شجاعت اور صداقت ان کے سروں کا تاج بنی رہیں۔ بدقسمتی سے جب سے مسلمانوںنے اس روایت سے منہ موڑا ذلت وضلالت اور ان کا مقدر ٹھہریں۔ یہ دردناک داستان اب تک جاری ہے۔
اسی قرآن پاک میں اللہ تعالی نے وعدہ فرمایا ہے کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا جب وہ دین (نظام) یعنی اسلام کو دنیا میں سر بلند اور سرخرو کرے گا۔ تمام مسالک کے علماء اکرام میں صدیوںسے یہ اتفاق چلاآ رہا ہے کہ ایسا قرب قیامت کے زمانے میں ہوگا اور قرآن کی آیات اور حضور ؐ کی لاتعداد احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں۔ترجمہ: وہ ( یہود، ہنود، نصاری )چاہتے ہیں کہ اللہ کے نُور کو اپنی افواہوں (یعنی منفی اور مذموم پیگنڈا) سے بجھا دیں اور اللہ اپنے نور(دین اسلام) کو پورا کرکے چھوڑے گا (پوری دنیا اسلامی شرعی قوانین کے تحت آجائے گی)۔ اگرچہ کافروں کو بُرا ہی لگے ۔۳۲۔ وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں۔ (۳۳)ان آیات مبارکہ کی تفسیر میں امام ابن کثیر نے حضورؐ کی احادیث سے واضح کیا ہے کہ اللہ کا یہ نظام کس طرح پوری دنیا میں نافذ ہو گا۔
آنحضرت ؐ فرماتے ہیں میرے لیے مشرق و مغرب کی زمین لپیٹ دی گئی، میری امت کا ملک ان تمام علاقوں تک پہنچے گا ۔ آپؐ فرماتے ہیں تمہارے ہاتھوں پر مشرق ومغرب فتح ہوگا۔ تمہارے سردار جہنمی نونگے بجز ان کے جو متقی، پرہیزگار اور امین ہونگے۔ ( مسلم، کتاب الفتن)
آپ ؐنے فرمایا: یہ دین تمام اس جگہ پہنچے گا جہاں دن رات پہنچیں۔ کوئی گھر کچا یا پکا ایسا نہ رہے گا جہاں اللہ عزوجل اسلام کو نہ پہنچا دے۔ ( احمد، ۵/۷، ۳۶۶)
اسی طرح قرآن پا ک کی بے شمار آیات اور نبی کریم ؐ کی لاتعداد احادیث اسی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
سورہ یوسف میں اللہ نے فرمایا ۔ترجمہ: اللہ اپنے امر ( حکم یا دین) کو غالب کر کے رہے گا مگر اکثر لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہے۔(21)
اس آیت مبارکہ کی تفصیل میں امام ابن کثیر نے لکھا ہے: اللہ کا ارادہ سب پر غالب ہے۔ سب اس کے سامنے عاجز ہیں جو ارادہ وہ کر لیتا ہے۔ لیکن اکثر لوگ علم سے خالی ہوتے ہیں نہ اس کی حکمت کو جانتے ہیںنہ اس کی حکمت کو مانتے ہیں اور نہ ہی اس کی باریکیوں پر انکی نگاہ ہوتی ہے۔ نہ وہ اس کی حکمتوں کو سمجھتے ہیں۔
حضورؐ نے اپنی احادیث مبارکہ میں اس زمانے کی آمد کے بارے میں ہماری رہ نمائی فرمائی ہے۔ امام بخاری اور امام مسلم کی نقل کردہ روایات کے مطابق اس دور کو حضور ؐ نے دور فتن قرار دیا ہے کیونکہ اس دور بس سے بڑی پہچان اس دو ر میں اٹھنے والے پے در پے فتنے ہونگے۔ پچھلے ۳۸ سالوں میں ان فتنوں کی ایک کثیر تعداد ظاہر ہو چکی ہے۔
اگر ہم قرآن کی اس دعوت فکر کو اپناتے ہوئے دور حاضر میں ہونے والے واقعات کا احادیث کی روشنی میں مطالعہ کریں تو اس میں کوئی شک باقی نہیں وہ جاتا کہ یہ دراصل وہی دور فتن ہے جس کا تذکرہ تمام محدثین نے دور فتن کے طورپر کیا اور اللہ اور اس کے حبیب پاک ؐ نے امت کو ان فتنوں سے بچنے کی بار بار ہدایت کی ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز امر ہے کہ جہاں یہ دور مسلمانوں کیلیے شدید آزمائش اور امتحان کی گھڑی ہے وہیں اسی دور میں اللہ نے اپنے دین کے غالب ہونے کا بھی وعدہ کیا ہے ۔ مطلب کہ دور فتن کے فوراََ بعد غلبہء دین کا زمانہ ہے۔مسلم امہ کی جو حالت آج ہے وہ حضورؐ کی اس حدیث شریف کی عملی تصویر پیش کر رہی ہے جس میں آپؐ نے فرمایا تھا کہ ایک دور ایسا آئے گا کہ مسلمان سمندر کی جھاگ کی طرح تعداد میں بہت زیادہ ہونگے مگر مغلوب ہونگے اور دشمنان اسلام ان پر ایسے جھپٹیں گے جیسے بھوکے دسترخوان پر ٹوٹتے ہیں۔
ٓآج آپ برما سے شروع ہو جائیں جنوبی ایشیا، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ اور بحر اوقیانوس پر نظر ڈالیں تو آج دنیا کی سچائی یہی ہے کہ مسلمان اپنے گھروں میں بھی غلاموں سے بد تر حالت میں ہیں۔ کہنے کو تو آزاد ہیں مگر آپس میں دست و گریباں یا بیرونی جارحیت کا شکار۔ سوال یہ ہے کہ آخر کیوں؟ اس کا جواب وہی ہے جو اس تحریر کے شروع میں مسلمانوں کے زوال کی وجہ بیان کیاگیا ہے یعنی غوروفکر کی دعوت سے انکار۔
اللہ کے محبوب نبیؐ نے یہ بات امت کو بتا دی تھی کہ اس دور فتن میں واحد سہارا اللہ کی کتاب کو تھامنا ہوگا ، یعنی اس مین ہمارے لئے غور و فکر پر واپسی کی دعوت دی گئی ہے۔اب اس اصول کی بنیاد پر اس دور سے متعلق احادیث کا مطالعہ یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ پندرھویں صدی ہجری دراصل زمین پر قرب قیامت کی صدی ہے کیونکہ احادیث سے ہی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس دور فتن کا خاتمہ اللہ تعالی اپنے نبی ؐ کے اہل بیت میں سے ایک شخص جس کا نام حضورؐ کے نام پر محمد جبکہ لقب مہدی ہوگا، کے ذریعے فرمائے گا۔ اس کے بعد وہ واقعات تیزی سے رونما ہونگے جن کو قیامت کی علامات کبریٰ قرار دیا گیا ہے۔ غزوہ ہند، غلبہء دین، حضرت عیسیؑ کا نزول، دجال کا خروج، انسانوں کا زمین میں دھسنا، دابتہ الارض کا ظہور اور لوگوں کے چہروں کا مسخ ہو جانا وغیرہ یہ سب وہی علامات ہیں۔دعوت قرآنی کی روشنی میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر دور فتن کا خاتمہ کب ہو گا ۔ اس سوال کا جواب بھی قرآن و حدیث میں ہی موجود ہے۔ اللہ کے نبیؐ نے فرمایا کہ ظہور امام مہدیؑ سے پہلے امت شدید تکلیف و کرب میں مبتلا ہو گی اور کسی کے پاس ان فتنوں کا کوئی علاج نہیں ہوگا۔ آج دجالی نظام پوری اسلامی دنیا پر اپنے پنجے گاڑھ چکا ہے۔ مسلمانوں کو نہ صرف بیرونی جارحیت کا سامنا ہے بلکہ یہ آپس میں بھی دست و گریبان ہیں۔ آج کوئی ایک بھی ایسا اسلامی ملک نہیں کہ جو پوری طرح آزاد اور پرامن بھی ہو۔ ترکی، سعودی عرب، شام ، عراق، لبنان، افغانستان، بنگلہ دیش، پاکستان، نائیجریا، وغیرہ غرض ہر جگہ فساد برپا ہے۔ یقینا یہی دور فتن ہے۔
اللہ کے نبیؐ نے احادیث شریف میں فرمایا ہے کہ مہدی کا ظہور ۱۴۰۰ ھ ہجری کے لگ بھگ ہوگا مگر وہ منظر عام پر نہیں آئیں گے مگر روحانی اصلاح فرمائیں گے۔ ۱۴۰۰ ھ ہجری مروجہ شمسی سال کے حساب سے ۱۹۷۹ء عیسوی بنتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں غلبہء دین کے آغاز کی نشاندہی خراسان کے علاقے سے کی گئی ہے۔ قرآن و حدیث سے بے شمار اشارے بھی ملتے ہیں جن کے مطابق ۱۴۴۰ئ ہجری نہایت اہم دور ہے۔ اس سے مراد یہی مخصوص سال نہیں بلکہ اس کے لگ بھگ کا عرصہ بھی شامل ہے ۔جس میںغلبہء دین
کے اس وعدے کی تکمیل کاآغاز ہو گا جس کا ذکر اس تحریر کے آغاز میں کیا گیا تھا ۔