واقعہ فیل اور ولادت مصطفی
شاہ نوازتارڑ
chshahnawaztarar@yahoo.com
اسباب وعلل سے واقعات وحوادث وقوع پذیر ہوتے ہیں جوکبھی عبرت، کبھی عزت و ہمت کا سامان مہیاکرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ولادت مصطفیؐ سے قبل پیش آیاجو کائنات ارض وسماوی پر رب ذوالجلال کی عظمت وقدرت کے ایسے نقوش چھوڑگیا کہ گردش لیل ونہار کبھی اس کی اہمیت کو کم کر پائی نہ انسانی ذہنوں سے اس کو محو کرسکی۔ تاریخ اس واقعہ کو ’’اصحاب الفیل‘‘ کے نام سے جانتی اور پکارتی ہے۔ واقعہ کے غیر معمولی ہونے کیلئے کتاب لاریب میں مذکور ہونے سے بڑی دلیل کوئی نہیں ہوسکتی۔ ہوا یوں کہ حبشہ کے حکمران نجاشی کے یمن میں گورنر ابرہہ نے نعوذباللہ بیت اللہ کے مقابلے میں کلیسا بنوایا۔ ناپاک دل میں پلید خواہش پیدا ہوئی کہ بیت اللہ پر (نعوذ باللہ) حملہ کردیں تاکہ یمن کے کلیسا کودنیا کے دلوں کا مرکز و محور بنایا جا سکے۔اسی دوران ایک عرب سردار ابوثمامہ بن عوف نے گرجے کے اندر جاکر پاخانہ کردیا۔ ابرہہ کو خبر ہوئی تعصب ، بغض و عناد اور عداوت کی آگ سے ابرہہ کا کلیجہ کباب ہوگیا اور ایک لشکرجرار کے ہمراہ مکہ کی طرف چل پڑا۔ یمن کے ایک سردار ذونفر نے راستے میں مزاحمت کی‘ لیکن شکست کھائی اور گرفتار ہوگیا۔ ابرہہ نے ذونفرکے قتل کا حکم دیا تو اس نے کہا کہ بادشاہ مجھے قتل نہ کریں‘ ممکن ہے موت کی بجائے میری زندگی آپ کے لئے فائدہ مند ہو۔ آگے بڑھا تونفیل نامی ایک شخص اپنے دو قبیلوں کے ساتھ مقابلے کے لئے آیا۔ شکست کھائی اور گرفتارہوا۔ ابرہہ نے قتل کا حکم دیا۔ معافی کی درخواست اور اطاعت کے وعدے پر ذونفرکی طرح نفیل کی سزائے موت کو بھی قید میں بدل دیا۔ پھر ابرہہ طائف پہنچا تو بنو ثقیف پہلے مقابلے کے لئے نکلے، پھر لات کو بچانے کے لئے ہاتھ باندھ دیئے اور کہنے لگے ہم آپ کے غلام ہیں۔ یہ وادی طائف اور یہ عبادت گاہ ’’لات‘‘ ہے۔ آپ جس گھر پر حملہ کرنا چاہتے ہیں وہ بیت اللہ مکہ میں ہے۔ ہم ایک آدمی آپ کے ساتھ بھیجتے ہیں جو آپ کو مکہ اور بیت اللہ کا پتہ بتائے گا۔ انہوں نے ابورغال نامی شخص کو ابرہہ کے قافلے میں شامل کردیا جو مکہ معظمہ کے قریب مغمس کے مقام پر پہنچ کرمرگیا۔ تاہم ابرہہ نے وہیں ڈیرے ڈال دئیے اور اسودبن مقصود نامی حبشی کو حالات کاجائزہ لینے کے لئے بھیجا ۔وہ گھوڑے پر مکہ پہنچا اور قریش و دیگر عرب قبائل کے اموال واسباب لوٹ کر ابرہہ کے پاس لے گیا۔ جن میں سیدنا حضرت عبدالمطلب کے بھی دو اونٹ تھے۔ قریش‘ کنانہ، ہذیل اور دیگر قبائلِ عرب نے پہلے مقابلہ کرنا چاہا پھر ارادہ ترک کردیا۔ اسی دوران ابرہہ کا قاصد ’’حناطہ حمیری‘‘ مکہ پہنچا اور اس کے مذموم ناپاک ارادے سے اہل مکہ کو مطلع کیا کہ ’’میں صرف کعبہ کوگرانے آیا ہوں‘ لڑائی مقصود نہیں۔ مزاحمت نہ کرو گے تو خونریزی نہیں کروں گا۔‘‘ حناطہ سردار مکہ سیدنا حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچا‘ رعونت و نخوت کے زہر سے مسموم الفاظ پر مشتمل ابرہہ کا پیغام پہنچایا۔ کائنات میں سے زیادہ صلح جو امن پسند شخصیت کے دادا جان نے جواب دیا ’’ہم بھی لڑائی نہیں چاہتے‘ کعبہ‘ بیت اللہ ہے، ہمارا اس میں کچھ عمل دخل نہیں۔ سردار عبدالمطلب قاصد ابرہہ حناطہ کے ساتھ چل پڑے‘ وہاں پہنچ کر ذونفرکا پوچھا جو سردار عبدالمطلب کا دوست اور ابرہہ کے ہاں قیدی تھا۔ سردار عبدالمطلب نے حالات کی نزاکت سے آگاہ کیا تواس نے کہا میں تو قیدی ہوں۔ صبح وشام سرپر تلوار لٹکتی ہے۔ ہاں ہاتھی کا سائیس ’’انیس‘‘ میرا دوست ہے۔ اس کے پاس بھیجتا ہوں وہ بادشاہ کے ہاں آپ کی سفارش کردے گا۔ ’’ انیس سردار عبدالمطلب کو ابرہہ ملعون کے پاس لے گیا‘ وہ سردار عبدالمطلب کی وجاہت سے بڑا مرعوب ہوا اور تخت سے اترکر سردار عبدالمطلب کے ساتھ ہی زمین پر بیٹھ گیا اور ترجمان کے ذریعے سردار عبدالمطلب سے گویا ہوا۔ سردار عبدالمطلب نے گفتگو کرتے ہی دوسو اونٹوں کا معاملہ اٹھایا تو ابرہہ نے ناپاک زبان سے ناپاک دل کا ارادہ بتایا کہ میں توکعبے کی اینٹ سے اینٹ بجانے آیا ہوں اور آپ کو صرف اپنے اونٹوں کی پڑی ہے۔ تکبر و نخوت کی زہریلی سانسوں نے تواس وقت مکہ کی ساری فضا کو مسموم کردیا ہوگا‘ لیکن سردار عبدالمطلب کے توکل علی اللہ پر قربان جائیں جن کے تاریخی الفاظ رہتی دنیا تک نشان عزت وعظمت بن گئے۔ میں اونٹوں کا مالک ہوں ‘مجھے اونٹوں کی فکرہے‘ کعبہ جانے اور کعبے کا مالک جانے۔‘‘
سردار عبدالمطلب اونٹ لے کر واپس آئے لوگوں کو غاروں پہاڑوں میں چھپ جانے کا مشورہ دیا اور خود چند افراد قریش کو لے کر کعبے کی دہلیز پکڑ کر اللہ ذوالجلال کو پکارا۔ پھرخود بھی پہاڑوں پر چلے گئے۔ دوسری طرف ابرہہ نے بھی صبح سویرے مکہ پر چڑھائی کردی۔ محمود نامی ہاتھی بھی لشکرمیں شامل تھا۔ یمن سردار نفیل (جوابرہہ کے لشکرمیں قیدی تھا) نے ہاتھی کے کان میں کہا کہ تو بلدحرام میں ہے بیٹھ جا، یاجہاں سے آیا ہے واپس لوٹ جا۔ تفیل خود توپہاڑ پر جا بیٹھا‘ ہاتھی بیٹھ گیا‘ مہاوت نے مارنا شروع کیا‘ لیکن اس پر کوئی اثر نہ ہوا‘ وہ یمن‘ شام‘ مشرق کی طرف منہ کرتا تو ہاتھی اٹھ کر دوڑنے لگتا، جب مکہ کی طرف کرتا ہاتھی پھر بیٹھ جاتا ۔سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ اس دوران یکایک آسمان پر پرندوں کا شور ہوا اور ابابیلوں نے کنکروں کی بارش کردی‘ چنے کے برابر دو، دوسنگریزے ان کے پنجوں اور ایک ایک چونچ میں تھا۔ نفیل نے تباہی و بربادی کے منظرکو پہاڑ سے دیکھتے ہوئے کہا کہ اے بدکردار بھاگ کہاں بھاگے گا‘ اللہ کا قہر تمہاری تلاش میں ہے۔ ابرہہ مغلوب ہوچکا۔‘‘ لشکر کے ساتھ ہلاک ہوگیا۔ اس کا سینہ پھٹ گیا، اسی حالت میں اس کو اٹھا کر صنعا تک لے گئے۔ پھراللہ ذوالجلال نے سورۃ القریش میں اسی واقعہ کا تذکرہ کرکے اپنی شان وعظمت کو بیان کیا اور سیرت نگاروں کے مطابق واقعہ فیل کے چھ ماہ بعد سیدنا رسول اللہ ؐ کی ولادت باسعادت ہوئی۔