قومی کھیل ہاکی کو تنقید نہیں تعمیر کی ضرورت
سپورٹس رپورٹر
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے جس کا تابناک ماضی راتوں رات واپس حاصل نہیں کیا جا سکتا ہے دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے ماضی کو یاد رکھ کر ان غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے کا سوچتی ہیں۔
آج ہر کوئی قومی ٹیم کی کارکردگی کو دیکھ کر تنقید کے نشتر چلا رہا ہے ہر کسی کا نشانہ فیڈریشن ہے۔ شاید ایسا اقتدار اور عہدوں کے حصول کے لئے کیا جا رہا ہے۔ جو لوگ اسے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں انہیں حکومت اور قوم پہلے آزما چکی ہے۔ اگر وہ اتنے ہی اچھے اور باصلاحیت ہوتے تو شاید آج قومی کھیل پستی کی انتہا کو نہ پہنچ چکا ہوتا پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری اولمپئن شہباز احمد سینئر جدید ہاکی کا بڑا نام، جس نے آخری بار پاکستان کو ورلڈ کپ کا ٹائٹل جتوایا تھا۔ آج کل فیڈریشن کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہے۔ گراس روٹ لیول پر ہاکی کی ترقی ان کا مقصد ہے ۔ فوری طور پر نتائج کی انہیں کوئی لالچ نہیں ہے جس کے بارے میں وہ سینٹ اور قومی اسبملی کی قائمہ کمیٹیوں میں بھی برملا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا کافی حد تک درست بھی ہے کہ ہمارے ہاں جب تک لڑکے پرفارم نہیں کریں گے ہاکی اوپر نہیں آ سکے گی۔ لڑکے پرفارم کیوں نہیں کرتے کیونکہ انہیں سٹار بننے کا شوق ہی نہیں ہے۔ جب تک کھلاڑی میں سیلف کمٹنٹ نہیں ہوگی وہ بڑا کھلاڑی نہیں بن سکے گا۔ سابق کپتان کی اس بات درست ہے جس کو کسی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں تبدیلیوں سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں جب تک ہمارے پاس اچھا پلان اور اس پر عمل کرنے کی تمام سہولیات نہیں ہونگی۔اس وقت تک قومی کھیل کو دنیا ہاکی میں اوپر لے جانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ سابق کپتان اور سیکرٹری پی ایچ ایف کی مثبت سوچ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انہیں اچھے اور مخلص ساتھیوں کی ضرورت ہے۔ موجودہ وقت میں ان کے ساتھ کام کرنے والے افراد کی اکثریت عہدوں کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ ٹیم کی کارکردگی کی شاید ان افراد کو اتنی فکر نہیں ہوگی جتنا انہیں عہدے حاصل کرنے کی ہے۔ شہباز احمد سینئر ایسے افراد سے باخبر بھی ہیں کیونکہ آخری ملاقات میں وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ جس گھر یا ملک میں میر جعفر اور میر صادق موجود ہوں انہیں بیرونی دشمنوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ سیکرٹری پی ایچ ایف نے یہ بات بھی سب پر واضح کر دی ہے کہ انہیں سیر سپاٹوں کا شوق نہیں ہے دنیا کی بہترین سیٹوں پر اپنے ادارے میں خدمات انجام دے چکا ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیشنل اور ایشین ہاکی فیڈریشن کا جہاں کہیں بھی اجلاس ہوگا اس میں شرکت کے لیے جانا پڑتا ہے۔ حالیہ میرا دورہ نیوزی لینڈ بھی اسی بات کی کڑی تھی کہ پرو ہاکی لیگ شروع ہونے جا رہی ہے لیکن لوگوں نے اس اجلاس کو بھی سیر سپاٹوں کا نام دیدیا۔ سابق کپتان نے سب پر واضح کر دیا کہ دو سال تک قومی ہاکی اوپر نہیں آ سکتی تاہم انہوں نے یہ وعدہ کیا کہ گراس روٹ لیول پر جس طرح کام کیا جا رہا ہے امید ہے کہ جونیئر کھلاڑی چار پانچ سالوں میں رزلٹ حاصل کرنا شروع کر دیں۔
سابق سیکرٹری پنجاب ہاکی ایسوسی ایشن اجمل خان لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہاکی کو اوپر لانے کے لیے تنقید کی نہیں بلکہ تعمیر کی ضرورت ہے جس کے لیے عہدیداران ہمیشہ سے ہی کوشش کرتے چلے آئے ہیں۔ لاہور میں سابق اولمپیئن اور 1964ء ٹوکیو اولمپک کے سلور میڈلسٹ افضل منا کے انتقال پر ان سے ملاقات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہاکی کو سپورٹ کی اشد ضرورت ہے، گراس روٹ لیول پر کام ہو رہے ہیں جن کے نتائج فوراً نہیں ملیں گے تاہم امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستان ہاکی کا مستقبل روشن ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ذمہ داری اپنی جگہ پر لیکن فیڈریشن کو ان سنٹرز پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے جہاں پر ہاکی زیادہ کھیلی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گوجرہ، فیصل آباد، سیالکوٹ، بہاولپور، شیخوپورہ، صادق آباد، بنوں، حیدر آباد سمیت کراچی کے سنٹرز کو آباد کرنا ہوگا یہاں موجود نوجوان کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ انہیں بہترین تربیت فراہم کرنا ہوگی۔
سابق انٹرنیشنل کھلاڑی محمد علی نے بھی سیکرٹری پی ایچ ایف شہباز سینئر کی باتوں سے اتفاق کیا ان کا کہنا تھا کو جونیئر لیول پر جس طرح ہاکی پرموشن کے لئے کام ہو رہا ہے۔ تین چار سالوں میں نتائج آنا شروع ہو جائیں گے۔ محمد علی کا کہنا تھا کہ قومی کھیل کو اس وقت سخت تنقید کا نشانہغ بنایا جا رہا ہے۔ فیڈریشن بہتر جانتی ہے کہ اس نے اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے کیا کرنا ہے۔ فیڈریشن کو ایسے استاد ڈھونڈنے پڑیں گے جو گراس روٹ لیول پر ہاکی سیکھاتے ہیں۔ آج ان لوگوں کی شدید کمی ہے ہر کوئی سینئر ٹیم کی کوچنگ اور سلیکشن کمیٹی کا حصہ بننا چاہتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب گراس روٹ لیول پر بہت زیادہ کام ہو رہا ہے ایسے میں غیر ملکی کوچ یا ایڈوئزر کی خدمات حاصل کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ غیر ملکی تجربہ کار کوچ گراس روٹ پر ہمارے کھلاڑی کی خامیوں کی نشاندہی اور ان کی درستگی پر کام کرے گا تو ہمارے فائدہ ہوگا۔ حیدر آباد میں انڈر 16ٹورنامنٹ سے سامنے آنے والے نوجوان کھلاڑیوں کی غیر ملکی کوچ سے گرومنگ کرائی جائے۔ جونیئر لیول پر ٹورنامنٹس کی تعداد میں مزید اضافہ کیا جانا چاہیے۔ مجھے پتہ ہے کہ کوئی کام پیسے کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حکومت پاکستان کو قومی کھیل کو جتنا زیادہ ہو سکے سپورٹ کرئے تاکہ ماضی کی گلوری کو واپس حاصل کیا جا سکے۔ آل پاکستان ٹورنامنٹس جو ماضی میں بہت زیادہ ہوتے تھے ان کا سلسلہ بحال کیا جائے اور ان کی تعداد بڑھا کر ٹیموں کی اس میں شرکت کو یقینی بنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگ فیڈریشن کی آڑ میں اپنی دشمنیاں نکال رہے ہیں جو کھیل کی ترقی کی بجائے اس کی تنزلی کا باعث بنے گی۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بریگیڈئیر (ر) خالد سجاد کھوکھر کو اس بارے میں غور کرنا ہوگا۔
2018ء پاکستان ہاکی کا اہم سال ہے جس میں کامن ویلتھ گیمز اور ایشین گیمز میں قومی ٹیم نے شرکت کرنی ہے ان ٹورنامنٹس کو ہدف بنا کر لانگ ٹرم تربیتی کیمپ لگایا جائے اس کیمپ کے لئے ایف آئی ایچ اور ایشین ہاکی فیڈریشن کی مدد لے کر غیر ملکی کوچ کی بھی خدمات حاصل کی جائیں۔ کھلاڑیوں کو اچھی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ اچھی خوراک کی ضرورت ہے۔ جس سے کھلاڑی فزیکل فٹ اور صحت مند ہوگا۔ سیکرٹری پی ایچ ایف کی طرح میں بھی کیمپوں میں ملنے والی خوراک سے مطمئن نہیں ہوں۔ آج کے جدید دور میں ان خوراکوں سے انٹرنیشنل تو دور قومی سطح کے مقابلوں میں بھی حصہ نہیں لیا جا سکتا ہے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو چائیے کہ وہ اپنا ایک آٹھ دس رکنی تھنک ٹینک بنائے جو ٹیم کی خامیوں اور ان کے تدارک کے لئے کام کرے تاکہ شکستوں کے بوجھ تلے سے نکل کر کامیابیوں کی سیڑھی پر چڑھا جا سکے۔