عشق نبی کے تقاضے
قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے ”تم ان قوموں کی طرح ہرگز نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئیں اور کھلی نشانیاں پانے کے بعد اختلافات میں مبتلا ہو گئیں اور جنہوں نے یہ روش اختیار کی وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔“
قارئین کرام! آج کے حالات کٹھن اور آزمائش کے ہیں۔ مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کے ایمان پہ شک کرنے لگے ہیں۔ دین اور ایمان کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ذاتی اغراض کو پورا کرنے کیلئے ہم دین کا سہارا بھی لیتے ہیں۔ یہ صورتحال خطرناک اور قابل مذمت ہے۔ قرآن فرماتا ہے ”اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا اور جھوٹوں پہ اللہ کی لعنت ہے“۔ یعنی دین کو سیاست کی بھینٹ چڑھانا بذات خود ایک بہت بڑا گناہ ہے اور ہمیں گناہ سے بچنے کیلئے انفرادی ہی نہیں بلکہ اجتماعی طور پر کوشش کرنا چاہئے۔ مگر ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسکی مسلمانی کا اصل یہی ہے کہ دین محمدی کا صحیح معنوں میں احاطہ کرے۔ قرآن فرماتا ہے ”دین میں سمجھ بوجھ حاصل کرو“ اور سمجھ بوجھ وہی ہے جو مسلمان کو کلمہ اللہ کی روح سے روشناس کر دے۔ مسلمان چاہے کتنا ہی گنہگار ہو، سیاست و دینی تقاضوں کو بھی نہ جاننے والا ہو لیکن محمد کا لب پہ نام آتے ہی اپنی آنکھوں کو ادب و احترام سے جھکا لیتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریم کا عشق ہمارا سرمایہ حیات و آخرت ہے۔ عشق رسول کا تقاضہ نبی آخرالزماں کی تعلیمات پر عمل ہے۔ جو حضور چاہتے ہیں وہ کرنا اصل عشق نبی ہے۔ پیغمبر علیہ السلام محمد مصطفیٰ کی اطاعت مسلمانوں کی زندگی اور اخروی زندگی کا حاصل اصل ایمان کی بنیاد ہے۔
ہمیں دین کی بنیادی تعلیمات کی طرف رخ عمل کرنا ہے تو ہی ہم سچے مسلمان ہو سکتے ہیں۔ جزئیات و سطحی عوامل جن سے کہ فساد و فتنے برپا ہونے کے حالات پیدا ہوں۔ ہمیں ان حالات کو پیدا کرنے سے بچنا ہے۔ ہمارے نبی صبر و استقامت‘ عفو و درگزر اور امن کی ترویج کو پسند فرماتے اور آپ کی ذات بابرکات ایسے ہی عالیشان اوصاف کا منبع تھی۔ آپ کی زندگی میں توازن اور میانہ روی تھی اور آپ کی زندگی‘ آپ کی حیات طیبہ کو مشعل راہ بنانا ہی ہمارے عشق محمد کا تقاضا ہے۔ حضور پُرنور انتہا پسندی کو سخت ناپسند فرماتے اور نہ ہی اپنی امت کو انتہا پسندی کے کوڑھ سے مرتا دیکھنا پسند فرماتے ہیں۔ انتہا پسندی جو انسانی خونریزی پہ آمادگی کا باعث ہو۔ ایسی انتہا پسندی جس سے مسلمان، مسلمان کا گریبان پکڑنے لگے۔ ایسی انتہا پسندی جو امن کو تہہ و بالا کر دے اور ایسی انتہا پسندی جس سے شر کی چنگاریاں بھڑکیں اور ریاستوں کو آگ لگا دیں۔ کیا یہ انتہا پسندی ہمارے نبی کے نزدیک پسندیدہ ہو سکتی ہے۔ غلط فہمیاں‘ بدگمانیاں ہر شے کا علاج ڈائیلاگ ہے‘ افہام و تفہیم کے لئے بات چیت کا راستہ بہترین راستہ ہے۔ اللہ فرماتا ہے ”اے نبی اگر آپ کے مزاج میں نرمی نہ ہوتی تو لوگ آپ کی بات نہ سنتے اور بلکہ آپ کے قریب بھی نہ آتے“۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنا اور اپنے آپ کو ہر وقت تلوار اٹھانے کے لئے تیار رکھنا اور یہ سمجھنا کہ ہر معاملے کا حل خونریزی ہے مناسب نہیں۔ ایمان کامل والا تو لہجے کی نرمی اور محبت و اخوت پہ کاربند رہ کر اپنی پہچان بنتا ہے۔ قرآن ایک اور مقام پر فرماتا ہے اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات کرنا اور اکڑ کر چلنا اور خود پرستی میں مبتلا ہونا اللہ کو ہر گز پسند نہیں،، نبی کریم فرماتے ہیں کہ ”تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔،،
نیت میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت بڑی تکریم والی بات ہے۔ مگر اللہ ہی ہے جو نیتوں سے واقف ہے۔ لوگ تو محض عمل اور معاملات دیکھتے ہیں۔ اس لئے عرض ہے کہ سرکاری و غیر سرکاری معاملات خواہ کتنے بھی نیک نیتی سے نبٹائے جائیں بحرحال احتیاط لازم ہے کہ ہم نہیں پوری دنیا جانتی ہے کہ محمد ہمارے نبی آخرالزماں کی ہستی سے محبت بلکہ عشق ہماری دیوانگی ہے.... ہر شے سے پیاری ہماری محبت.... محبت نبی آخر الزماں کی ماننا اصل اظہار عشق ہے۔
دیکھئے امت محمدیہ کو آپس میں لڑا کر .... اسے اس کے اصل مقصد سے ہٹا کر .... کوئی سازشی اپنا الو تو سیدھا نہیں کر رہا!