• news

.لاہور:تحریک لبیک کا دھرنا جاری سنی اتحاد کونسل نے بھی حمایت کردی

لاہور/ وزیر آباد/ گجرات/ گوجرانوالہ (خصوصی نامہ نگار + خصوصی رپورٹر + نامہ نگاران)تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے زیر اہتمام پنجاب اسمبلی کے سامنے ختم نبوت قصاص دھرنا چوتھے دن بھی جاری رہا۔ دھرنا میں تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا شہداء ختم نبوت کی ایف آئی آر کے انداج کیلئے 30دن کا انتظار نہیں کرسکتے، حلف نامہ ختم نبوت میں تبدیلی کے ذمہ داروں کے تعین کیلئے3نومبر کو حکومت نے20 دن لئے اور اب فیض آباد مذاکرات والوں سے نئے سرے سے 30دن لے لئے۔ یہ سراسر حکومت کی بدنیتی ہے۔ یہ صرف اصل مجرموں کو چھپانے کی کوشش ہے۔ حکومت فوری طور پر حلف نامہ ختم نبوت کی ترمیم کے ذمہ داروں کا فوراً تعین کرے۔ رانا ثناء کی وضاحتیں کافی نہیں ہیں۔ مطالبات کی منظوری تک ہمارا دھرنا جاری رہے گا۔ پریس کانفرنس میں مفتی محمد عابد جلالی،صاحبزادہ محمد امین اللہ سیالوی، مفتی محمد طاہر نواز قادری، مولانا محمد رضائے مصطفی و دیگر علماء و مشائخ نے شرکت کی۔ علاوہ ازیں سنی اتحاد کونسل نے ڈاکٹر اشرف آصف جلالی کے دھرنے کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ چیئرمین سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا پنجاب اسمبلی کے سامنے مال روڈ پر جاری دھرنے میں شامل ہو گئے۔ انھوں نے تحریک لبیک یارسول اللہ کے سربراہ ڈاکٹر اشرف آصف جلالی سے ملاقات کے بعد دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رانا ثناء اللہ کے استعفیٰ تک مال روڈ کا دھرنا جاری رہے گا۔ شہدائے ختم نبوت کا قصاص لینے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ سات شہادتوں کے بعد وزیر قانون کا استعفیٰ بے معنی ہے۔ شہادتوں کے ذمہ داران کے تعین کے لئے جے آئی ٹی بنائی جائے۔ پاک فوج نے قابل تعریف کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ فوج ثالثی نہ کرتی تو ملک کسی بڑے حادثے سے دوچار ہو سکتا تھا۔ علاوہ ازیں راولپنڈی سے لاہور جانے کے لئے سربراہ تحریک لبیک یارسول اللہ ؐ علامہ خادم حسین رضوی کا قافلہ وزیرآباد پہنچا تو سینکڑوں علماء ، مشائخ اورکارکنوں نے پرتپاک استقبال کیا۔ اللہ والا چوک میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد دھرنا کے دوران حکومت نے نہتے اور بیگناہ کارکنوں اور بزرگ علماء کرام پر بدترین ریاستی تشدد کیا۔ شہادتوں کی تعداد بھی کم بتائی جارہی ہے انتظامیہ اور پولیس نے شہداء کی نعشیں غائب کردی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کارکنان تحریک لبیک یارسول اللہ ؐ اور انکے لواحقین کی مکمل دادرسی تک ہرگز چین سے نہیںبیٹھیں گے۔ علامہ خادم حسین رضوی نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات میں ووٹ نبی کریم ؐ کے نام پر دیا جائے۔ سرپرست اعلیٰ تحریک لبیک یارسول اللہ ؐ پیر محمدافضل قادری نے کہا کہ تمام تر جبرواستبد ادکے باوجود ہمارے حوصلے پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہیں اورجب تک ملک پاکستان میں شریعت محمدی ؐ نافذ نہیں ہوجاتی ہماری جدوجہدجاری رہے گی۔ مزید برآں علامہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں اسلام آباد دھرنے کے شرکاء نے گجرات میں مراڑیاں شریف پہنچ کر مختصر قیام کیا۔ بعد ازاں قافلہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں جی ٹی ایس چوک پہنچا اور پھر لاہور کی طرف روانہ ہوگئے۔ دوسری طرف وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ ضلعی انتظامیہ لاہور اور دھرنا مظاہرین میں بات چیت جاری ہے اور انہیں امید ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں میں دھرنا ختم ہوجائے گا۔ نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ راولپنڈی کے مظاہروں میں 6 افراد جاں بحق ہوئے۔ تاہم آپریشنل ایریا میں کوئی ایک شخص نہ تو مرا نہ ہی شدید زخمی ہوا۔ مسلم لیگ ن تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے کسی استعفے کے حق میں نہیں تھی۔ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ دھرنے میں ثالثی کسی اور نے نہیں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کی۔ مسلم لیگ ن کا مؤقف تھا کہ تحقیقات کے بغیر استعفیٰ نہیں لینا چاہئے۔ مسلم لیگ ن افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے۔ آرمی چیف نے بھی معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کا مشورہ دیا۔ عدالتی حکم کے بعد وفاقی انتظامیہ نے مشاورت سے آپریشن شروع کیا۔ دھرنا سیاست کی برائی عمران نے متعارف کروائی۔ رانا ثناء اللہ نے لاہور میں دھرنا ختم کرانے کے لئے اسلام آباد کی کمیٹی کو معاملات طے کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں دھرنا دینے والوں نے ان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی وہ استعفیٰ دیں گے۔ دھرنا ختم کرانے والے لاہور کا دھرنا ختم کرانے کیلئے بھی معاملات طے کریں۔ مزید برآں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے اور کشیدہ صورتحال کے خاتمے کے بعد 23 روز سے تعطل کا شکار معمولات زندگی بحال ہوتے ہی 4 دن سے گھروں میں محبوس شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھا امڈ آنے سے راولپنڈی میں بدترین ٹریفک جام رہا جبکہ ٹریفک پولیس مکمل طور پر بے بس نظر آئی۔ تحریک لبیک پاکستان کا قافلہ علامہ خادم حسین رضوی کی قیادت میں گوجرانوالہ پہنچا تو مقامی کارکنو ں اور علماء کی طرف سے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں استقبال کیلئے آنے والے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائدین علامہ حافظ خادم حسین رضوی‘ پیر محمد افضل قادری‘ سید ظہیر الحسن شاہ‘ صاحبزادہ پیر محمد دائود رضوی‘ میاں محمدانیس الرحمن‘ مولانا محمد اکرم اللہ جیلانی‘ مولانا محمد فاروق الحسن ودیگر نے کہا کہ ہم نبی کریمؐ کی عزت و ناموس اور ختم نبوت پر پہرہ دیتے رہیں گے۔ سکیورٹی کے بھی انتہائی سخت انتظامات تھے۔قافلے کے شرکاء نماز مغرب شیرانوالہ باغ میں ادا کرنے کے بعد لاہور کی طرف بڑھ روانہ ہوگئے۔علاوہ ازیں فیض آباد فلائی اوور پر تحریک لبیک پاکستان کا دھرنا ختم ہونے کے بعد بھی راولپنڈی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی فیض آباد سے شمس آباد کا ایکفرلانگ پر مشتمل شورش زدہ علاقہ صاف نہ کر سکی جبکہ سی ڈی اے کے600اہلکاروں نے 24گھنٹے کی مسلسل کارروائی کے دوران کئی من کوڑا کرکٹ اور گندگی ٹرکوں و ٹرالیوں میں لاد کر منتقل کر دیا۔ ہفتہ کے روز دھرنا پر ہونے والے حکومتی کریک ڈائون کے دوران جلائی گئی گاڑیوں، املاک اور ٹائروں سے سیاہ ہونے والا علاقہ منگل کی رات گئے تک اپنی اصل حالت میں بحال نہ ہو سکا نذر آتش کی گئی اشیا سے پیدا ہونے والی ’’کالک‘‘سے پیدا ہونے والا سفوف اورپائوڈر شہریوں کے منہ اور کپڑوں کے علاوہ قریبی دکانوں، ہوٹلوں اور گھروں میں داخل ہونے لگا جبکہ نذر آتش کی گئی پولیس اور عام شہریوں کی گاڑیوںکے کھوکھے بھی منگل کے روز تمام دن مری روڈ پر پڑے رہے۔ صادق آباد پولیس نے تشدد کے واقعہ میں جاں بحق ہونیوالے7افراد کے قتل کا مقدمہ نامعلوم افراد کیخلاف درج کر لیا۔ نجی ٹی وی کے مطابق صادق آباد پولیس نے تشدد کے واقعے میں سات افراد کے قتل اور مختلف زخمیوں سے متعلق مقدمہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کرلیا۔ ایس ایچ او انسپکٹر ذوالفقارعلی کی مدعیت میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں قتل، اقدام قتل، اغوا، تشدد اور دیگر آٹھ دفعات شامل کی گئیں تاہم دہشت گردی کے الزامات نہیں لگائے گئے۔ ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین نے مشتعل ہو کر دکانوں، پولیس اور نجی گاڑیوں کو آگ لگائی، اس کے علاوہ فائرنگ کے نتیجے میں متعدد لوگوں کی اموات ہوئیں اور کافی زخمی بھی ہوئے۔ جواب میں مشتعل مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔ ایف آئی آر کے مطابق پر تشدد واقعات میں 15 سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ کانسٹیبل وقاص احمد کو مظاہرین نے اغوا کیا تھا۔ ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ کچھ لوگ شرپسندوں کی طرف سے پولیس پر کی گئی فائرنگ سے ہلاک ہوئے تاہم پولیس کی طرف سے مذہبی جماعت کے کسی اہم رہنما یا کارکن کو مقدمات میں نامزد نہیں کیا گیا۔

ای پیپر-دی نیشن