شاہ زیب قتل کیس: شاہ رُخ جتوئی کی سزا کالعدم، سندھ ہائیکورٹ نے مقدمہ دوبارہ سماعت کیلئے سیشن عدات بھجوادیا
کراچی (این این آئی+ صباح نیوز) کراچی کے علاقے ڈیفنس میں چارسال قبل قتل ہونے والے طالب علم شاہ زیب قتل کیس میں سندھ ہائیکورٹ نے شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور، سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے مقدمے کی ازسرنو سماعت کیلئے معاملہ سیشن عدالت بھیج دیا ہے۔ ہائیکورٹ نے سزائے موت کے خلاف شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی اپیل منظور کرتے ہوئے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات بھی ختم کردیں۔ ملزموں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کے سزا کے وقت شاہ رخ جتوئی کی عمر 18 سال سے کم تھی، مقدمہ بچوں کے مقدمات کے زمرے میں آتاتھا۔ تفتیشی افسر نے ہسپتال کا جو برتھ سرٹیفکیٹ پیش کیا اس پر شاہ رخ جتوئی کے والد کا غلط نام درج ہے اور انسدادہشت گردی عدالت نے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ملزموں کو سزاسنائی، ذاتی نوعیت کا جھگڑا تھا مقدمے کا اے ٹی سی ٹرائل بنتا ہی نہیں۔پراسیکیوٹر جنرل سندھ شہادت اعوان نے کہا کے مقتول شاہ زیب اور شاہ رخ کی فیملی کے ساتھ صلح ہوچکی اور صلح نامے کی درخواست ہائیکورٹ میں دائر کی گئی تھی ۔ معاملہ زیر التوا ہے۔ہائی پروفائل کیس میں فریقین کے درمیان صلح ہونے پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے حیرت کا اظہار کیا۔جسٹس صلاح الدین نے کہا کے شاہ زیب قتل کیس میں دہشت گردی کی دفعات درج ہیں،فریقین کے درمیان صلح کیسے ہوسکتی ہے‘شاہ رخ جتوئی کے وکیل نے تجویز دی کہ پہلے اے ٹی سی ٹرائل کے دائرہ کار پر بحث کرلی جائے بعد میں صلح نامہ دیکھا جائے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کے مقدمہ اے ٹی سی کے دائرہ اختیار پر کارروائی کے لیے واپس ٹرائل کورٹ بھیجا جا سکتا ہے،فریقین کے درمیان صلح نامے کے معاملے کو بعد میں دیکھا جائے گا۔ صباح نیوز کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کی جانب سے 6 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مقتول شاہ زیب کو ذاتی عناد کی بناء پر قتل کیا گیا انسداد دہشت گردی کی سیکشن کا غلط استعمال کیا گیا ماتحت عدالت نے ملزموں پر غلط طور پر فرد جرم عائد کی لہذا ماتحت عدالت درخواست قانون کے مطابق دوبارہ سن کر فییصلہ کرے۔ خیال رہے کہ 20 سالہ نوجوان شاہ زیب خان کو دسمبر 2012ء میں ڈیفنس کے علاقے میں شاہ رخ جتوئی اور اس کے دوستوں نے معمولی جھگڑے کے بعد مبینہ طور پر گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔