چوکور پہیے اور روشنی کا منبع
مجھے برادرم محمد اسلم خان کے کالم سے معلوم ہوا اور پھر میں نے میانوالی میں معروف شاعر اور نثر نگار مظہر نیازی کے ساتھ فون پر بات کی۔ البیلا انوکھا مختلف اور ممتاز شاعر ظفر خان نیازی فوت ہو گیا۔ دو چار دن بھی گزر گئے ہیں اور ہم بے خبر ہیں۔ محمد اسلم خان نے ظفر خان نیازی کو فلسفی شاعر کہا ہے۔ اسلم کے کالم سے دوستی کی خوشبو آتی ہے۔ وہ نثر نگار بھی بہت طرح دار اور نادر و یادگار تھا۔
کوئی ہے جو چوکور پہیے چلا کے دکھا دے۔ یہ معرکہ آرائی بھی ظفر خان نیازی نے کی۔ اس نے گوشہ نشینی کو گوشہ¿ عافیت بنا لیا تھا۔ میرے ساتھ ظفر کا ایک اچھا تعلق تھا۔ وہ بہت اچھا دوست تھا مگر شاید تعلق اور لاتعلقی میں فرق نہ سمجھتا تھا۔ اس نے عمر عزیز کے کئی بیش بہا سال بلوچستان کے حوالے کر دیے۔ میں اب تک سمجھتا تھا کہ وہ کوئٹہ میں ہے۔ وہ محفلوں کا آدمی بھی تھا مگر اصل میں اکیلگیوں کا آدمی تھا۔ شاید اکیلگی اور تنہائی میں کچھ فرق ہے؟ ظفر خان ہوتا تو میں اس سے پوچھتا محمد اسلم خان بھی شاید نہ بتائے۔ ظفر خان ڈوبا ہوا کھویا ہوا آدمی تھا۔ وہ جو باتیں کرتا تھا کوئی اور نہیں کر سکتا۔ اس نے نثر میں جو کچھ لکھا اپنی طرف سے لکھا۔ کوئی اور اس طرح نہ لکھ سکا۔
میں میانوالی سے اس کے تعلق کو ایک اعلیٰ مرتبہ دیتا تھا۔ مگر وہ اسلام آباد ہی میں اپنا آخری ٹھکانہ بنا کے بیٹھ گیا۔ محمد اسلم خان نے اپنے زبردست کالم میں ظفر خان کی آخری غزل بھی درج کر دی ہے اور اسے الوداعی غزل کہا ہے۔ سب اشعار بہت پگھلا دینے والے ہیں۔ لفظ الوداعی لمحے بنتے جا رہے ہیں۔
کھچا جاتا ہوں یوں اگلے پڑاﺅ کی کشش میں
تھکن سے چور ہوں میں پھر بھی چلتا جا رہا ہوں
ظفر خان نیازی بے پناہ آدمی تھا۔ اس کے لیے محمد اسلم خان کا یہ جملہ دیکھیں ”جناب ظفر نیازی نے اردو ادب اور فلسفے کی دنیا میں اختصار نویسی اور فلسفیانہ دانش کی معجون مرکب سے ”چوکور پہیے“ کا ایسا مزے دار آمیزہ تیار کیا کہ دھوم مچ گئی۔“
اختصاریے کا اپنا ایک لطف ہے جس نے یہ لطف ضائع کر دیا وہ مختصر نویسی کا اہل ہی نہیں۔ جن لوگوں نے اختصاریے لکھے وہ اہل بھی تھے اہل دل بھی تھے۔ خلیل جبران، واصف علی واصف اور ظفر خان نیازی وہ ایک سرمست آدمی تھا۔ میں اسے اپنے دل کے قریب سمجھتا تھا مگر وہ جب سے اسلام آباد شفٹ ہوا تھا اس سے رابطہ نہ رہا میں بے شمار مرتبہ پنڈی اسلام آباد گیا مگر اس سے ملاقات نہ ہو سکی نہ میں نے خیال کیا نہ اس نے توجہ دی برادرم اسلم خان نے بھی کوئی موقعہ نہ بنایا۔
میں نے میانوالی کے شعراءکا تذکرہ لکھا تھا ”بازگشت“ جس میں تلوک چند مرحوم سے لے کے میاں محمود تک سب معروف شاعروں کو شامل کیا ہے۔
ظفر خان نیازی کے بارے میں کچھ لکھنے کے لیے مجھے انتظار کرنا پڑا۔ ظفر خان نیازی تو انتظار کو اعتبار بنا دیتا تھا۔
میری حالت زار دیکھیں کہ میں ابھی تک سمجھتا تھا وہ بلوچستان میں ہے اور بلوچستان سے کہیں گیا تو میانوالی جائے گا اس کے ساتھ جتنی ملاقاتیں ہوئیں میانوالی ہوئیں۔ محمد اسلم خان نے صحیح لکھا ہے کہ وہ بے مثال شاعر اور بے مثل افسانہ نگار تھا وہ بڑا آدمی تھا، سچا آدمی تھا۔ یہ کہنا کہ کئی دوسرے کمتر شاعر اور افسانہ نگار آگے نکل گئے یہی تو ظفر خان نیازی کا اعزاز ہے اور اس میں کوئی راز ہے۔ رازوں کا ایک ڈھیر اس کے اندر تھا مگر زمانہ رازوں سے خالی ہو رہا ہے۔
اس نے انوکھی زندگی گزاری اور شاعری زندگی کی طرح بسر کی۔ وہ مختلف آدمی تھا۔ واقعی مختلف آدمی۔ بے ضرر آدمی تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس نے کسی کو کوئی دکھ پہنچایا ہو۔
مجھے آج ہی ایک شفاف شاعرہ منزہ سحر کا شعری مجموعہ برادرم اقبال راہی اور پرویز عاشق رحیل نے دیا۔ منزہ کا مطلب صاف شفاف اور سحر تو ہوتی ہی بے داغ ہے۔ منرہ بہت اجلی شاعرہ ہے اس نے اپنے شعری مجموعے کا نام بھی روشنی رکھا ہے۔ روشنی کا اس کی ذات سے گہرا تعلق ہے۔ سچ کہا ہے منزہ نے کہ روشنی ایک طاقت ہے یہ طاقت ایک تخلیقی کیفیت بن کر اس کے لفظوں میں رازوں کی طرح سما گئی ہے اور ایک ایسی روشنی پیدا ہوئی ہے جو عام روشنی ہے کسی خاص روشنی کی طرف اشارہ ہے۔ عاشق رحیل نے اسے روشنی کا منبع قرار دیا ہے تو یہ بالکل برحق ہے اور یہ بر محل بھی ہے اگر منزہ نے اپنے شعری مجموعہ کا نام روشنی رکھا ہے تو کسی روشنی کے جذبے کے سائے میں اس شاعری کو پڑھیں تو لطیف دوبالا ہو جائے گا۔
منزہ نے اپنی کتاب کے سروق پر اپنا ایک شعر لکھا ہے یہ بہت خاص روایت ہے۔ اکثر ایسا نہیں ہوتا مجموعے کا نام روشنی ہے اور اس کے اوپر یہ شعر درج ہے۔
جھلملاتا ہے یوں مرے اندر
شخص وہ جیسے اک ستارہ ہو
ایک غزل بھی منزہ سحر کی پیش خدمت ہے:
ایک گہری خامشی ہے اور میں ہوں
دل پہ مہر دلبری ہے اور میں ہوں
بڑھ رہے ہیں شبنمی راتوں کے سائے
یاد تمہاری آ رہی ہے اور میں ہوں
طے نہیں ہے اور کوئی اب نظر میں
بس تمہاری روشنی ہے اور میں ہوں
حال دل کا کیسے کوئی اب کہے
اک سکوت آگہی ہے اور میں ہوں
٭٭٭٭٭