• news

اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ اداروں کے درمیان محاذ آرائی وفاق کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی ریاست کو اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں چیئرمین سینٹ

اسلام آباد ( وقائع نگار خصوصی + نامہ نگار+نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ ریاست کو اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں۔ جاوید ہاشمی کی کتاب ”زندہ تاریخ“ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جاویدہاشمی مسلسل جدوجہد میں رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ سچ کی سیاست کی۔ انہیں جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ جنہوں نے دور طالب علمی میں سیاست میں حصہ لیا وہ اپنے نظرئیے پر قائم رہے۔ ضیاءدور میں منصوبے کے تحت طلبا تنظیموں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ مارشل لاءکیخلاف کھڑے ہونے والے کلچر کو ختم کر دیا گیا۔ تعلیمی اداروں میں ترقی پسند تنظیموں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ریاست نے ایسے حالات پیدا کئے کہ آج انتہا پسندی نظر آتی ہے۔ طلبا تنظیموں پر سے فوری پابندی ہٹائی جائے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی کا کہنا ہے کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا ہو گا۔ اداروں کے درمیان محاذ آرائی وفاق کے لئے نقصان دہ ثابت ہو گی۔ ضیاءالحق دور میں منصوبے کے تحت طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی گئی تھی۔ اس دور میں انتہا پسند تنظیموں کو کالجز اور سکولز میں کھلی چھوٹ حاصل تھی۔ رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے، جب ملک اسلام کے لئے بنا تو پھر اسلام کو خطرہ کیسے ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ایک بار پھر مذہب کو سیاسی ایجنڈا بڑھانے کےلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ فیض آباد دھرنے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 256 کہتا ہے پرائیویٹ لشکر نہیں بن سکتے جس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔ کیا ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا گیا؟ چیلنج تو چھوٹا لفظ ہے، رٹ کو ہی مکمل طور پر ختم کیا گیا۔ جب ریاست کی رٹ کو ختم کر رہے ہیں تو کس چیز کو جنم دے رہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ رینجرز اور پولیس کے مطابق دھرنے والوں کے پاس جدید ترین اسلحہ تھا، ان پر آرٹیکل 256 لاگو نہیں ہوتا تھا؟ سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ میری کتاب کے صفحے پر آپ کے لیے بریکنگ نیوز ہے،میں نے جیل میں پرسنل ڈائری کے طور پر لکھنا شروع کیا،جو دوست مجھ سے ملنے آتے تھے سب کا ذکر اس کتاب میں موجود ہے،پاکستان کے عوام اپنے فوج سے محبت کرتے ہیں مگر انہیں حق حکمرانی دینے کے لیے تیار نہیں،فوجی حکمرانوں کو گولی کے سوا کوئی زبان نہیں آتی ،فوجی حکمرانوں کو مذاکرات کرنے نہیں آتے،فوجی حکمران اطاعت کرنے والوں کو محب وطن اور اختلاف کرنے والوں کو غدار سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے کتاب کی سب باتیں جیل میں لکھی ہیں ،میں نے اور سعد رفیق نے اکٹھے تکالیف برداشت کیں۔انہوں نے کہا کہ فوج پر تنقید کرنے والے ناقابل معافی ہوتے ہیں،دور جلاوطنی میں ممنون حسین کو سندھ کے قائمقام صدر لگانے کا میرا فیصلہ نواز شریف کو پسند نہیں آیا تھا،نواز شریف نے مجھے مشاہداللہ اور سعد رفیق کو عہدوں سے ہٹانے کا کہا لیکن میں نے مخالفت کی،میری مخالفت کو میاں نواز شریف نے گستاخی سمجھا۔انہوں نے کہا کہ ایک لیفٹننٹ جنرل کا ہزار ہزار روپے تقسیم کرنا سمجھ سے باہر ہے۔انہوں نے کہا کہ چار کمانڈر انچیف ملک سے باہر بیٹھے ہیں،جنرلز ملک سے باہر کیوں بیٹھے ہیں،شجاع پاشا ہو یا کوئی اور، باہر نوکریاں کررہے ہیں۔کیا اس ملک نے ان کو سب کچھ نہیں دیا ،یہ فیصلہ کن مرحلہ ہے،اب باتیں سامنے آگئی ہیں ۔حکمرانی کا حق یا پارلیمان کو ملے گا یا پھر کسی کو نہیں ملے گا ۔ جاوید ہاشمی نے مزید کہا کہ سیاستدان آج گرداب کے خود بھی ذمہ دار ہیں۔ بھٹو کی پھانسی پر ہم کوئی احتجاج نہیں کر سکے۔ آئی این پی کے مطابق جاوید ہاشمی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کا نام پانامہ لیکس میں ہے۔ اسے کون پوچھے گا۔ پوچھا صرف سیاستدانوں سے جائے گا۔ سعد رفیق کو کہا تھا کہ ریلوے کی وزارت خطرناک ہے۔ سعد رفیق نے کہا کہ بس دعا کریں۔ انہوں نے معجزاتی کام کیا۔ میری ہر دفعہ سپریم کورٹ میں درخواست جاتی تھی۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری نے 5 سال تک درخواست نہیں سنی۔ یہ کتاب 11 سال پہلے لکھی جو میری روزانہ ڈائری پر مشتمل ہے۔ سعد رفیق نے کہا کہ ملک میں آج بھی مکمل جمہوریت نہیں‘ وفاداریاں بدلوانے سے جمہوریت کیسے مضبوط ہوگی؟ چند لوگ قوم کی قسمت کے فیصلے کریں یہ قبول نہیں۔ جھوٹ بولنے والے عوام کو کیوں گمراہ کرتے ہیں۔ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ نوازشریف کو پارٹی صدر بنایا‘ اس پر فخر ہے۔ یہ فیصلہ سیاسی کارکنوں کو کرنا ہے کہ ان کا لیڈر کون ہوگا۔ ایسے فیصلوں کیلئے عدلیہ بحالی کی تحریک نہیں چلائی تھی۔ بینظیر بھٹو کے قتل سے سیاست میں خلا آیا۔ اب مصنوعی سیاستدان بنائے جاتے ہیں۔ پرویزمشرف کو اتنی دیر ہی رکھا جتنا رکھ سکے۔ اس کا احتساب نہیں کر سکے۔ سیاست آزادی سے کرنے دی جائے۔ اب بھی وقت ہے مل کر اداروں کو سنبھال سکتے ہیں۔ بیرونی سازشیں زوروں پر ہیں۔ نظریہ ضرورت دفن نہیں ہوا‘ اس کو دفن کرنا ہوگا۔ کوئی مصنوعی سیاسی جماعت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ پی ایس پی کا کچھ نہیں بننے والا جو مرضی کر لیں۔ بہتر ہوتا ایم کیو ایم کے لوگوں کو خود فیصلہ کرنے دیا جاتا۔ بینظیر بھٹو کی شہادت نہ ہوتی تو آج پاکستان مختلف ہوتا۔ ہم نہیں چاہتے کسی اور کو نااہل کیا جائے۔ ہماری بھی غلطیاں ہیں‘ سیاسی لڑائیاں کیوں عدالت لیکر جاتے ہیں۔ 16 وزراءاعظم پر بدترین الزامات لگا کر نکالا گیا۔ کیا ہر بار وزیراعظم ہی غلط تھا‘ کیا چیف جسٹس اور چیف آف سٹاف غلط نہیں ہو سکتے۔ ہم نے کسی کے ساتھ جھگڑا نہیں کرنا۔ جماعتوں کے اندر جمہوری رویوں کو پروان نہیں چڑھایا گیا۔ پاکستان میں کوئی ایسا شخص نہیں جو فوج سے پیار نہیں کرتا۔ ایک دھول اڑائی جاتی ہے کہ سب سیاستدان چور ہیں۔ سعد رفیق نے کہا ہے کہ سیاسی جدوجہد کرنے والے لوگوں کو سینے سے لگا کر رکھنا چاہئے۔ جاوید ہاشمی کی سیاسی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کیوں پرویزمشرف کا احتساب نہیں ہوا؟ کیا کبھی کسی دوسرے ادارے کے سربراہ کو نکالا گیا؟ کیوں افتخار چودھری کے بیٹے کا احتساب نہیں ہوا؟ نظریہ ضرورت دفن نہیں ہوا‘ اس کو دفن کرنا ہوگا۔ فوج کا کردار ملک کی سلامتی کیلئے ہونا چاہئے سیاست میں نہیں۔ سیاست آزادی سے کرنے دی جائے۔ ملک میں آج بھی جمہوریت مکمل طورپر نہیں ہے۔ چند لوگ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ نہیں کریں گے۔کب تک ایسا نظام چلے گا؟ پاکستان اداروں کی باہمی لڑائی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ افراسیاب خٹک نے کہا کہ کچھ لوگ باہر بیٹھ کر فیصلے کرکے پارلیمنٹ پر تھوپتے ہیں۔ پاکستانی سیاست کی باگ ڈور عدلیہ کے ہاتھ میں دیدی گئی ہے۔ اسلام آباد میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا‘ وہ ریاست کے خلاف کھلی بغاوت تھی۔ یہ وقت ہے کہ سب کو بولنا چاہئے۔ آئین کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے کو سزا ملنی چاہئے۔ تقریب سے جماعت اسلامی کی رکن قومی اسمبلی عائشہ سید‘ معروف صحافی و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی اور معروف صحافی مرتضیٰ سولنگی نے بھی خطاب کیا۔ ادبی تنظیم آئینہ کے سربراہ ملک فدالرحمن نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیئے۔ تقریب سے وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ دھرنے کرانے والوں نے پاکستان کا مثبت تشخص مسخ کیا۔ پاکستان میں سیاستدانوں نے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ سیاستدانوں کو لوڈشیڈنگ کے خاتمے‘ ملک میں بھاری سرمایہ کاری‘ پاک چین اقتصادی راہداری اور دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کی سزادی جا رہی ہے۔ مشاہد اللہ خان نے کہا کہ مخدوم جاوید ہاشمی نے ہمیشہ سچ بولا ہے۔ مشاہد اللہ نے کہا کہ پہلے بھی شب خون ماراگیا مگر کامیابی نہیں ملی۔آئندہ بھی شب خون مارنے کی کوشش ناکام ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملکہ برطانیہ کا نام بھی پانامہ لیکس میں آیا ہے مگر عمران خان اور ان کی سابق اہلیہ جمائما ملکہ کی کرپشن پر چپ ہیں۔ طاقت والے کسی کو 10 تھپڑ بھی ماریں کمزور کا ایک تھپڑ ہی کافی ہوتا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن