• news
  • image

لندن میں بانی پاکستان کو خراج عقیدت

یہ کون نہیں جانتا کہ قیام پاکستان کے عمل میں ہزاروں لاکھوں انسانوں کا خون بہایا گیا وہ محض دیوبندی، بریلوی، سنی، شیعہ یا وہابی نہیں بلکہ اس نظریہ اسلام کے داعی تھے جن کی جان، پہچان اور ایمان صرف اور صرف پاکستان تھا۔ یہ الگ بات کہ اس نظریاتی مملکت اسلامیہ میں وہ حقیقی اسلامی معاشرہ قائم نہ ہو سکا جو اس خداداد مملکت کی اساس تھی۔ 

آج ایک مرتبہ پھر س مملکت اسلامیہ کو مذہبی مسائل سے دوچار کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ ہفتے فیض آباد میں اور لاہور میں جو دھرنے، توڑ پھوڑ، بے گناہ افراد کی ہلاکتیں، مظاہروں میں شامل افراد کی گرفتاریاں اور قومی اور سرکاری املاک کو جس طرح نقصان پہنچایا اور نذر آتش کیا گیا اس سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ کریڈٹ دینا ہو گا افواج پاکستان کے چیف جنرل قمر باجوہ کو جنہوں نے اس انتہائی خوفناک صورتحال پر قابو پاتے ہوئے ملک و قوم کو مزید بحران سے بچا لیا۔ جو کچھ ہوا وہ کسی بھی صورت ہرگز نہیں ہونا چاہئے تھا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ ایسے حساس موضوع پر متفق ’’حلف نامے‘‘ کی تحریر میں ردوبدل کر کے اہل پاکستان کے جذبات سے کھیلنے کی کوشش آخر کیوں کی گئی۔ ملت اسلامیہ کے اس بنیادی عقیدۂ ختم نبوت کے حلف نامے کی تحریر یا اسکی ترتیب میں اونچ نیچ تو بہت دور کی بات تھی اس میں تو ایک نقطے تک کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا، پھر یہ سب کیسے ہو گیا۔ ملک جو پہلے ہی درجنوں مسائل کا شکار تھا اسے مزید مذہبی بحران سے دوچار کر دیا گیا۔ وہ لوگ پینے کے صاف پانی، سستے انصاف اور حصول روزگار کے مارے مارے پھر رہے تھے۔
پی آئی اے اور ریلوے کی بدترین حالت پر قوم ماتم جاری رکھے ہوئے تھی۔ گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ، کمرتوڑ مہنگائی اور ملکی معیشت کا جنازہ نکل چکا تھا جو کہ سابق وزیراعظم کی نااہلی، پانامہ کیس اور علیل وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی لندن میں مہنگے علاج پر غیرملکی میڈیا سیاسی منافقت کے حوالے سے اداروں اور حکومت کے مابین پائے گئے عدم اعتماد کو پہلے ہی پاکستان کی کمزور معیشت کا شاخسانہ قرار دے رہا تھا کہ اچانک ختم نبوت کے مسئلے کو اسمبلی میں اٹھا دیا گیا اور یہ اقدام یقیناً کسی طے شدہ گھنائونی سازش کا حصہ معلوم ہوتا ہے جسے حکومت اور وزیر داخلہ احسن اقبال بروقت ناکام کرنے میں کامیاب ہو سکے۔
وزیر داخلہ کے بھی کیا کہنے، انہیں بھلا یہ اعلان کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ بطور وزیر داخلہ 3 گھنٹے کے اندر دھرنا ختم کروا سکتے ہیں، یہ کہنے کی بھی کیا ضرورت تھی کہ مظاہرین کے خلاف کئے گئے آپریشن کا فیصلہ انکا نہیں بلکہ اسلام آباد انتظامیہ کا تھا۔ پھر یہ کہنا بھی کیوں ضروری تھا کہ دھرنے میں شامل بعض مظاہرین کے تعلقات بھارت سے جڑے ہیں۔
یہ ایک ایسا حساس نوعیت کا معاملہ تا جس کو سلجھانے کیلئے یقیناً رواداری، دوطرفہ مذاکرات اور ملکی اور قومی مفافدات کے تحفظ کو کسی بھی طور پر متاثر نہیں ہونا چاہئے تھا مگر افسوس حکومت کی تمام تر کوششیں بے سود رہیں۔ بالاخر آرمی چیف جنرل قمر جھاوید کو جو یو اے ای کے دورہ پر تھے۔ ان حالات میں اپنا دورہ مختصر کر کے پاکستان واپس آنا پڑا۔ اسلام آباد پہنچتے ہی انہوں نے حکومت کے بلوائے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جس میں وزیراعظم خاقان عباسی، وزیر داخلہ احسن اقبال اور خادم اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت قومی سلامتی، آئی بی اور دیگر سکیورٹی اداروں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ واضح کر دیا کہ عوام کے خلاف فوجی طاقت ہرگز استعمال نہیں کی جائے گی تاہم حکومت کا یہ فرض ہے کہ مظاہرین سے وہ ایسے جامع مذاکرات کرے جس سے مظاہرین کے مطالبات کا موزوں حل نکالا جا سکے۔ آرمی چیف کی یہ حکمت عملی کام آ گئی ایک باہمی معاہدے پر کئے دستخطوں کے بعد مظاہرین نے فیض آباد اور راولپنڈی اسلام آباد حدود میں دیئے دیگر دھرنوں سے اٹھنے کا اعلان کر دیا اور یوں ملک کو ایک بڑے نقصان سے بچا لیا گیا۔
معاہدے میں وزیر خانون زاہد حامد کا فی الفور استعفی، گرفتار کئے جانے والے مظاہرین کی رہائی، زخمی ہو کر ہلاک ہونے والے افراد کو معاوضہ، توڑ پھوڑ، املاک کو نقصان پہنچانے اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے سے ہونے والے تمام تر نقصان کو پورا کرنے کا مبینہ طور پر ذمہ دار حکومت کو ٹھہرا دیا گیا جبکہ ان دھرنوں سے پاکستان کو 547 ارب روپے کی خطیر رقم کا نقصان اٹھانا پڑا جس سے ملکی معیشت کو شدید دھچکا لگا ہے۔
سوال جب یہ اٹھتا ہے کہ ملک میں پھیلائی گئی افراتفری، توڑ پھوڑ اور بے گناہ افراد کی موت کے بعد وزیر قانون کو مستعفی بھی ہونا تھا تو یہ کام انہوں نے پہلے کیوں نہ کیا اور آخر وہ کونسی ایسی طاقت تھی جس نے جانوں کے ضیاع اور کروڑوں روپے کے نقصان کے بعد وزیر قانون کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا۔ دوسری جانب دھرنے کی صورتحال نے اب ایک نیا رخ اختیار کر لیا فیض آباد کا دھرنا تو ختم ہو گیا مگر ایک اور دھرنا لاہور میں شروع ہو گیا جو تادم تحریر جاری ہے۔ اس دھرنے کے قائدین کا استدلال ہے کہ فیض آباد ھونے سے انکا تعلق نہیں۔ انکا مطالبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا فوری طور پر غیرمشروط استعفیٰ ہے جس پر کوئی سودے بازی نہیں ہو گی۔
یہ صورتحال اب آئندہ چند روز میں کیا رخ اختیار کرتی ہے کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ کسی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے جو ملک کے لئے ایک اور بڑا چینلج ہو گا۔
ادھر لندن میں برطانوی پاکستانیوں میں جہاں گہری تشویش پائی جا رہی ہے وہاں اگلے روز یہاں کے تاریخی عجائب گھر برٹش میوزیم میں بانی پاکستان محمد علی جناح کے مجسمے کی تقریب رونمائی میں شرکت کر کے خوشی اور مسرت کے چند لمحات بھی میسر آئے۔ قائداعظم محمد علی جناح کے مجسمے کی یہ رونمائی بنیادی طور پر پاکستان کی 70 سالہ جشن سالگرہ کا ایک حصہ تھی جس کا انعقاد میوزیم کے چائنہ اور سائوتھ ایشیا گیلری کے وسیع ہال میں کیا گیا تھا۔ بلاشبہ اس حیثیت سے انکار ممکن نہیں کہ برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر سید ابن عباس اور انکے سفارتی عملے نے اس تقریب کے انعقاد کیلئے بھرپور محنت کی۔
تقریب کے مہمان خصوصی لندن کے پہلے مسلمان پاکستانی میئر صادق خان تھے جنہوں نے سید ابن عباس کے ہمراہ کانسی سے تیار کئے اس مجسمے کی نقاب کشائی کی۔ ہائی کمشنر سید ابن عباس نے بین الاقوامی شہرت کے حامل برطانوی مجسمہ ساز کو جنہوں نے قائداعظم کا یہ مجسمہ تیار کیا اور خود اس تقریب میں شامل تھے بھرپور خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے ممتاز پروفیسر، محقق اور برطانوی تاریخ دان سٹینلے والپرٹ کی اس تحریر کا بھی حوالہ دیا جو انہوں نے قائداعظم کی وطن کیلئے دی گئی قربانیوں کے بارے میں تحریر کی تھی۔
میئر صادق خان نے کہا کہ انہیں یہ اعزاز حاصل ہو رہا ہے کہ انہوں نے بانی پاکستان کے مجسمے کے حوالہ سے منعقدہ آج کی تقریب میں شرکت کی۔ میری خواہش ہے کہ لندن اور پاکستان کے درمیان مضبوط تعلقات قائم رہیں تاکہ ہر شخص جناح کی طرح یہاں آ کر تعلیم حاصل کرے اور اپنا بہتر مستقبل بنائے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ ہفتے پاکستان کے دورہ کے دوران قائداعظم کے گھر کراچی بھی جائیں گے۔ تقریب میں پاکستانیوں سمیت کونسلروں، ارکان اسمبلی، ممبران ہائوس آف لارڈز اور بزنس کمیونٹی کی بھاری تعداد نے شرکت کی۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن