• news
  • image

کشمیری تین انتہائو ں کی زد میں

کئی ماہ کی نظر بندی کے بعد بالآخر عدالت عالیہ لاہور نے حافظ سعیدکو عدم ثبوت کی بناپر رہا کرنے کا حکم صادر کیا۔ یاد رہے کہ جناب حافظ سعید مظلوم و مجبور کشمیری بھائیوں کی آزادی کے داعی ہیں ۔ انہیں اقوام متحدہ میں بھارت کے بے ہنگم واویلا کے باعث حکو مت پاکستان نے نظر بند کر رکھا تھا ۔ ان کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے محکوم و مظلوم بھائیوں کا دل میں درد رکھتے ہیں ۔ ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں جو بھارتی فوج نے برپا کر رکھے ہیں ۔ کشمیری مسلمانوں پر ظلم کی کہانی ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ پر محیط داستانوں پر مشتمل ہے ۔1849ء میں جب انگریز بہادر نے ریاست جموں کشمیر کو مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھوں پچاس لاکھ روپے کے عوض فروخت کیا ۔برطانوی سامراج کے اس اقدام پر کشمیریوں نے احتجاج کیا تو ڈوگرا راج نے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑڈھانے شروع کر دیے جو سلسلہ ایک صدی تک جاری رہا ۔ اسی دوران ڈوگرا افواج کے ستم و بربریت اور مجاہدین کی حریت آفریں ہزار داستانیں منظر عام پر آئیں۔ تقسیم ہند منصوبے کے مطابق تمام ریاستوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ کثرت رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں لہذا کشمیرکومسلم اکثریتی ریاست ہونے کی حیثیت سے پاکستان کے ساتھ آنا تھا ۔ واضح رہے کہ ریاست جموں کشمیر محل وقوع کے اعتبار سے بھی پاکستان سے منسلک ہے ۔ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت کشمیر کا بھارت سے کوئی زمینی راستہ واسطہ نہ تھا مگر ایک سازش کے تحت سرحدی تقسیم کار ادارے کے سربراہ ریڈ کیلف نے پنجاب کا مسلم اکثریتی علاقہ گروداس پور کو زبردستی بھارت کے سپر د کر دیا تاکہ بھارت کشمیر تک رسائی حاصل کر سکے ۔ سامراجی قوتوں کی بدنیتی پر مبنی ظالمانہ فیصلے کو اہل کشمیر نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ بلند کرتے ہوئے سڑکوں اور بازاروں میں نکل آئے ۔ ایک طرف ڈوگرا حکمران نے بھارت سے الحاق کا اعلان کیا اور بھارتی فوج سری نگرتک داخل ہوئی تو دوسری جانب کشمیریوں نے گلگت بلتستان سمیت موجودہ کشمیر پر آزاد حکومت کا اعلان کرتے ہوئے اسے الحاق پاکستان کے لئے بیس کیمپ قرار دیا ۔اس کے بعد آزاد کشمیر والوں کو تو سکھ کا سانس آیا مگر بھارتی مقبوضہ حصے میں رہنے والے ظلم مسلسل کی چکی میں پستے رہے ۔ ایک جانب ستم و استبدار کے نئے نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں تو دوسری جانب برہان وانی کی شہادت نے جوانان کشمیر میں شوق شہادت کی نئی ترنگ و آہنگ کو برپا کیا ۔پوری مقبوضہ وادی کے مردو زن ، پیرو جواں شمشیر برہاں دکھائی دینے لگے ۔ تازہ خبر کے مطابق ضلع بڈگام میں بھارتی فوج نے سرچ آپریشن کے دوران اندھا دھند فائرنگ کی جس میں چار کشمیری نوجوان شہید اور متعدد زخمی ہوئے ۔ ساگی پورہ میں بھی کریک ڈائون کے نتیجے میں ایک جوان شہید ہوا ۔ آنسو گیس اور بیلٹ گن کے استعمال کے باعث درجنوں زخمی ہوئے ۔ ایک بار پھر نیٹ سروس جام کر دی ۔ بھارت کے فوجی اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں سے تربیت لے کر ان کی طرز پر کشمیریوں کی نسل کشی کر رہے ہیں ۔ اسرائیلیوں کی طرح جس گھرمیں مجاہدین کا شبہ ہو اتو اسے فاسفورس بم سے بھسم کر دینا روز کا معمول بن چکا ہے مگر کشمیریوں کا جذبہ حریت ماند نہیں پڑا ۔ ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے بھارتی خفیہ اداروں اور فوجی افسران فقط ترقیوں اور جھوٹے میڈل حاصل کرنے کی غرض سے مسلمان نوجوانوں کو گھرسے اٹھا کر عقوبت خانوں میں تشدد کرتے اورایک مقابلے کا منظر بنا کر گولیوں سے بھون ڈالتے پھر بڑی ڈھٹائی سے ترقیاں حاصل کرتے ، میڈل وصول کرتے ہیں ۔ روہنگیا مسلمانوں کو برما کی فوج اور بوسنیا کے مسلمانوں کو سرب مسلح گروہوں نے قتل کرکے اجتماعی قبروں میں جیسے دفن کیا مقبوضہ وادی میں ایسے ہی آثار پائے گئے ۔ معاملہ تب منظر عام پر آیا جب بھارت کہ ایک فوجی کیمپ کے کسی کونے میں بڑی تعداد میں جوتے اور کپڑے برآمد ہوئے تو اندازہ لگانا مشکل نہ رہا کہ ان کپڑوں اور جوتوں والے افراد کو کیسے اجتماعی قبروں میں چھپایا گیا ہے جس کا پاکستانی اور بھارتی میڈیا پر بڑا واویلا ہوا ۔ بھارتی حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لئے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بھی تشکیل دی مگر بات ٹال دی گئی ۔ یہ حرکت بھارتی فوج کی بجائے کسی مسلم افواج سے سرزد ہوتی تو پوری دنیا چیخ اٹھتی اور اینٹ سے اینٹ بجادی جاتی جس کی تازہ مثال عراق اور لیبیا ہے جن پر لگائے الزامات بعد میں ثابت بھی نہ ہو سکے ۔ان چیرہ دستیوں کے حوالے سے حریت رہنما سید علی گیلانی ، سید شبیر شاہ ، ، میر واعظ عمر فاروق ، آسیہ اندرابی اور یاسین ملک نے متعدد مرتبہ انسانی حقوق کی تنظیموں سول سوسائٹی اوراقوام عالم کے سامنے مطالبہ رکھ چکے ہیں کہ کشمیرکے بارہ ہزار لا پتہ بیٹوں کا کھوج لگایا جائے جنہیں بھارتی فوج نے مختلف اوقات میں گھروں سے اٹھایا تھا ۔ مقبوضہ وادی کے بارہ ہزار خاندان جس اذیت ناک کیفیت سے گزر رہے ہیں اس کے تصور سے روح کانپ اٹھتی ہے ۔ وہ بچے کس سے سوال کریں جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے باپ اور بھائیوں کو بھارتی فوج لے گئی اور بوڑھے والدین کس سے مدد طلب کریں جو اپنے جوان بیٹے کے انتظار میں آنکھوں کا نور کھو چکے ۔ ان سہاگنوں کا کون پرسان حال ہے جو نیم بیوگی کی زندگی جیتی ہیں نہ مرتی ہیں ۔ ان خاندانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ ان کے بیٹے باپ اور شوہر پاکستان کے ساتھ الحاق کا نعرہ بلند کرتے تھے ۔چوہدری غلام اعباس ، سردار عبدالقیوم اور ان کے رفقاء نے حاصل شدہ قطعہ زمین کو حریت کا بیس کیمپ کیا اس لئے بنایا تھا کہ یہاں موجود لوگ آسائش و عشرت کی زندگی گزاریں۔ غور فرمائیے کہ بیس کیمپ کس قماش لوگوں کی زد میں ہے ۔ پاکستان کی پارلیمانی کشمیر کمیٹی چند ووٹو ں کے عوض ایک ایسی جماعت کے سربراہ کی گود میں ڈال دی گئی ہے جو قیام پاکستان کی سب سے بڑی مخالف تھی ۔ مولوی فضل الرحمن کے والد گرامی مفتی محمود نے ایک مرتبہ بڑے تکبر سے کہا کہ میں پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں ۔ دوسرے صاحب موجودہ وزیر اعظم آزاد کشمیر ہیں جنہوں نے پچھلے دنوں نواز شریف کی برطرفی کے ردعمل میں یہ تک کہہ دیا کہ اب ہم کو دوبارہ سوچنا ہوگا کہ ہم الحاق دونوں ملکوںمیں سے کس کے ساتھ کریں ۔بیس کیمپ کے موجودہ صدر کے حوالے سے تمام قومی اخبار ات میں خبریں چھپی ہیں کہ موصوف کشمیر کے مسائل پر عالمی رائے عامہ ہموار کرنے برطانیہ گئے مگر عالمی رہنمائوں سے ملاقاتیں کرنے کے بجائے ایک نجی ہوٹل میں رنگ رلیاں مناتے دکھائی دیے ۔ 

قارئین کرام ۔ حدیث نبوی ﷺہے کہ تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔کسی ایک حصے میں تکلیف سے پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے مگر آج ہم اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہم آئے روز فلسطین ، روہنگیااور کشمیر کے مسلمان بھائیوں پر رواں مظالم کی خبریں سنتے ہیں کبھی ان کے درد میں ہمارے حلق میں جاتا لقمہ رکا لہذا ہمیں اپنے ایمان کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا ۔ جہاں تک کشمیریوں کا تعلق ہے تو وہ تین انتہائوں کی زد میں ہیں ۔ بھارتی فوج کے انسانیت سوز مظالم کی انتہا اقوام متحدہ کی اپنے چارٹر اور اصولوں کو نظر انداز کرنے کی انتہا مسئلہ کشمیرکے فریق اول اوروکیل اعظم پاکستان اور حریت کشمیر بیس کیمپ پر برجمان آسائش شدہ اشرافیہ کی بے حسی او ربے وفائی کی انتہا ء قابل ندامت ہے مگر مقبوضہ وادی کے سرفروشوں کے ایمان افروز جذبوں اور عزم و وفا کی انتہا جو ہر آزمائش اور سختیوں سے سرخروجانب منزل گامزن ہے ۔
دلیل ہے کہ آزادی کشمیریوں کا مقدر او ربربادی بھارت کا نصیب ہے ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن