باغی سے جپھی اور خالی بٹوا
نواز شریف نے جاوید ہاشمی کو ملتان میں اپنے پاس بلا لیا۔ انہیں چند منٹ کے لیے سہی پہلے جاوید ہاشمی کے پاس جانا چاہیے تھا۔ مریم نواز ہی ہاشمی صاحب کے گھر چلی جاتیں اور وہ نواز شریف کے پاس آ جاتے۔ کچھ عزت رہ جاتی۔ اس کی دلجوئی ہو جاتی۔ اس کا تحریک انصاف میں جانا اور پھر ن لیگ میں لوٹ آنا ایک اہم سیاسی واقعہ ہے۔ کیا ایسا تو نہیں کہ ”لوٹا“ بھی لوٹ آئے۔
میری ایک دوستی جاوید ہاشمی سے ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی یونین کا صدر بنا تھا۔ اس کو ووٹ ہم نے دیا تھا۔ اس کے لیے کمپین بھی چلائی تھی۔ وہ خوبصورت آدمی ہیں۔ اب بوڑھے ہو گئے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں تھے تو اس کے عاشقوں کا کوئی شمار نہ تھا۔ اس کی ساری زندگی میں کوئی سکینڈل نہیں۔ نہ معاشرتی نہ معاشی نہ جنسی نہ کوئی اور؟ وہ عملی سیاست میں آئے تو بھی پارٹیاں تبدیل کرنے کے علاوہ کوئی تبدیلی نہ آئی۔ اسے کسی نے ”لوٹا“ نہیں کہا ہے۔ یوٹرن کہا ہے۔ اس کے ساتھ میری دوستی بہت خالص ہے۔
اس نے سیاسی زندگی میں جتنی قربانیاں دیں جتنی سختیاں جھیلیں۔ وہ اتنے قابل اعتماد ساتھی ہیں کہ انہیں نواز شریف نے جلاوطنی کے دوران ایک بار مسلم لیگ ن کا صدر بھی بنا دیا۔ ایک شخص ہے مسلم لیگ میں چودھری نثار جو صبح کی ہوا کی طرح شفاف ہے۔ مجھے کسی عام دوست کی طرح کوئی امید بھی نہیں۔ میں نے امیدیں کبھی کسی کے بھی ساتھ نہیں رکھیں۔ دوستی اور محبت میں شرطیں نہیں ہوتیں۔
نجانے جاوید ہاشمی کے دوبارہ ن لیگ میں آنے پر چودھری صاحب کا کیا ردعمل ہے۔ چودھری صاحب بے نیاز ہیں۔ نواز شریف کے ساتھ وفا حیا کا رشتہ ہے۔ مگر کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ وزیر خارجہ بھی خواجہ آصف کو نواز شریف نے بنایا۔ شاہد خاقان عباسی کو نواز شریف نے وزیراعظم بنایا تو چودھری نثار نے ان کی کابینہ میں شامل ہونے سے معذرت کر لی۔ مسلم لیگ میں کوئی آدمی وزیراعظم بننے کا پوری طرح اہل ہے تو وہ چودھری نثار ہیں۔ میرا خیال ہے کہ مسلم لیگ کے ساتھ (ن) کا اضافہ اضافی ہے۔ لوگوں نے اب اسے ن لیگ کہنا شروع کر دیا ہے۔ یہ پاکستان مسلم لیگ کیسے ہے پاکستان مسلم لیگ ہے تو یہ ن لیگ کیا ہے۔ پرانے اچھے لوگ پریشان ہیں۔ مسلم لیگیں بہت ہیں مگر پاکستان مسلم لیگ ایک ہے۔ مسلم لیگی سیاستدانوں کا رویہ عجیب ہے۔ ایک ذرا حکومت سے مسلم لیگ ہٹے تو پھر دیکھئے۔
اگر ن لیگ کے چھوڑنے پر ہاشمی صاحب تحریک انصاف میں نہ جاتے تو انہیں لوٹا نہ کہا جاتا۔ انہوں نے اسمبلی سے استعفیٰ دیا یہ ایک غیرضروری فیصلہ تھا۔ اس دوران صدر محمد رفیق تارڑ اور میں جاوید ہاشمی کے گاﺅں گئے تھے مگر وہاں کوئی سیاسی بات نہیں ہوئی۔ میں نے تب کلثوم نواز سے گزارش کی تھی کہ وہ ہاشمی صاحب کے پاس چلی جاتیں تو وہ ن لیگ نہ چھوڑتے مگر انہیں جانے نہ دیا گیا۔
مریم نواز نے جاوید ہاشمی کو نواز شریف سے بغلگیر ہونے کے بعد ویلکم کہا مگر اسے ”سی آف“ کسی نے نہ کیا تھا۔ بڑی سیاستدان مریم نواز ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ مریم ٹو ان ون ہیں۔ میں نے بہادر آدمی جاوید ہاشمی سے کہا تھا کہ وہ ن لیگ نہ چھوڑے۔ پارٹی کے اندر رہ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ میں نے اسے منع کیا تھا کہ تحریک انصاف میں نہ جاﺅ۔ وہاں قیادت ن لیگ کی قیادت سے بھی بڑھ کر آمرانہ ہے۔ وہ تحریک انصاف میں چلا گیا میں نے اسے کہا تھا کہ وہاں شاہ محمود قریشی تمہیں رہنے نہ دے گا۔ چنانچہ چند ماہ بھی وہاں جاوید ہاشمی نے نہ گزارے اور تحریک انصاف بھی چھوڑ دی اور گھر بیٹھ گئے۔ قومی اسمبلی سے استعفیٰ دینے کے بعد پھر اپنی خالی کی ہوئی نشست پر الیکشن لڑا۔ کاش وہ ایسا نہ کرتا وہ اسی آدمی سے بری طرح ہار گیا تھا جس کو اس نے الیکشن میں ہرایا تھا۔
یہ بھی پریشانی کی بات ہے کہ چودھری نثار بالکل خاموش ہیں۔ خاموش تو وہ رہتے ہیں مگر آج کل خاموش نہیں ”خموش“ ہیں۔ نجانے جاوید ہاشمی کی واپسی پر چودھری نثار کا کیا تاثر ہے؟ ایک ٹی وی چینل نے خبر نکالی۔ ”باغی سے جپھی“ اب جاوید ہاشمی اور نوازشریف میں سے ”باغی“ کون ہے۔
پنجاب ہاﺅس اسلام آباد میں یا عدالت کے احاطے میں حمزہ شہباز آئے تو ان کا بڑا استقبال کیا گیا۔ ماحول میں حمزہ حمزہ کی آوازوں نے کئی مناظر پھیلا دیئے کوئی مجھے بتائے کہ حمزہ شہباز نے پنجاب اسمبلی کے لئے الیکشن کیوں نہیں لڑا۔ شاید پچھلی بار بھی وہ ایم این اے تھے ان کا اگلا الیکشن ایم پی اے کے لئے ہو گا۔
اپنی ماں کلثوم نواز کے انتخاب میں مریم نواز ، اکیلی الیکشن کمپین چلاتی رہیں۔ ن لیگ کا کوئی اہم آدمی نظر نہیں آیا۔صرف برادرم عمران نذیر باقاعدگی سے نظر آتے رہے۔ سلمان رفیق اور بلال یاسین بھی کبھی کبھی دکھائی دیتے۔ میں نے خود مشاہدہ کیا کہ ایک دفعہ نوازشریف حمزہ شہباز سے بہت محبت کا مظاہرہ کر رہے تھے مگر اب تو مریم ، نوازشریف کی جانشیں ہیں۔ تو پھر اگلا وزیراعظم کون ہو گا۔ اپنے خاندان سے باہر شاہد خاقان عباسی کو کیوں موقع دیا گیا۔ نوازشریف کو ایسے موقعوں پر چودھری نثار کیوں نظر نہ آئے۔ جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ ن لیگ میں نواز شریف کے ساتھ اتنا مخلص دوست کوئی اور نہیں جو سچ بات منہ پر کہہ دے۔ برا بھلا سمجھائے چودھری نثار کو 30 سال سے زیادہ نوازشریف کا ساتھ دیتے ہوئے گزر گئے۔ چند آدمیوں میں ایک چودھری نثار بھی ہے جو کبھی ”لوٹا“ نہیں بنا۔
نوازشریف کی مزاحیہ حس، بروقت جاگتی رہتی ہے۔ ان سے پوچھا گیا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے مقدمے میں کیا ہو گا۔ نوازشریف نے کہا مجھے تو لگتا ہے معاملہ ان دونوں کا ہے اور نااہل مجھے کر دیا جائے گا۔ پچھلے دنوں ایک صحافی کا بٹوا بچا لیا۔ کہیں نوازشریف نے کہا کہ مجھے تو یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ اس میں کتنے روپے ہیں؟
٭٭٭٭٭