• news
  • image

ایشیئن گیمز 2018

سپورٹس رپورٹر
انٹرنیشنل اولمپک کونسل کو کھیلوں کی سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے زیراہتمام ہر چار سال بعد کھیلوں کا عالمی میلہ اولمپکس سجتا ہے۔ ان کھیلوں میں دنیا بھر سے بڑی تعداد میں کھلاڑی شریک ہوتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ مختلف براعظم بھی اپنی کھیلوں کا انعقاد کرتے ہیں جو ان کے براعظم کے نام سے ہوتی ہیں۔ اولمپک کی طرح اولمپک کونسل آف ایشیاء بھی ہر چار سال بعد ایشین گیمز کا انعقاد کرتی ہے جہاں ایشیاء کے 45 ممالک کے کھلاڑی نہ صرف اپنے جوہر دکھاتے ہیں بلکہ اپنے ملک کی نمائندگی کرکے اس کے کلچر کو فروغ دیتے ہیں۔ اولمپک کونسل آف ایشیاء جس کی صدارت شیخ احمد الفہد الصبا کے پاس ہے۔ 18 ویں ایشین گیمز کے مقابلے اگلے سال 2018ء میں منعقد ہوں گے۔ یہ مقابلے 18 اگست سے 2 ستمبر تک انڈونیشیا کے شہر جکارتہ کے پلمبنگ میں منعقد ہوں گے۔ او سی اے کی جانب سے ان کھیلوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے ایشیاء کے 28 ممالک میں فن رن کا انعقاد کرکے گیمز کی حتمی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے۔ اس سلسلہ کی پہلی تقریب کی میزبانی کا شرف پاکستان کو حاصل ہوا ہے جس کے بعد فن رن دیگر 27 ممالک میں منعقد ہوگا۔ 7 دسمبر کو صوبائی دارالحکومت لاہور کے واپڈا سپورٹس کمپلیکس میں فن رن کی تقریب کا انعقاد ہوا۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید عارف حسن جو اولمپک کونسل آف ایشیاء کے بھی نائب صدر ہیں نے اپنی ٹیم جس میں سیکرٹری پی او اے حاجی خالد محمود‘ نائب صدر شوکت جاوید‘ محمد یعقوب‘ حاجی محمد شفیق‘ محمد جہانگیر‘ محمد عمران‘ عمران جونیئر‘ ضیغم‘ میاں رفیق سمیت دیگر شامل ہیں نے مل کر واپڈا سپورٹس کمپلیکس میں شاندار تقریب کا اہتمام کیا۔ واپڈا سپورٹس بورڈ بھی اس تقریب کے انعقاد پر مبارکباد کا مستحق ہے۔ اولمپک کونسل آف ایشیاء نے اس تقریب میں شرکت کیلئے اپنا تین رکنی وفد بھی پاکستان بھجوایا تھا جس میں چین سے تعلق رکھنے والے او سی اے کے میڈیا منیجر جینز زاوجین‘ بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی مس ایلینا اور کویت میں رہائش پذیر پاکستانی زاہد حفیظ جو کہ خصوصی طور پر پاکستان بھجوایا تھا حکومت کا کوئی نمائندہ اس تقریب میں شریک نہیں ہوا تھا۔ تقریب سے ایک روز قبل پی او اے ہائوس لاہور میں میڈیا بریفنگ ہوئی جس میں تقریب کی تیاریوں کے حوالے سے بتایا گیا۔ 7 دسمبر کو واپڈا سپورٹس کمپلیکس میں منعقد ہونے والی تقریب کے مہمان خصوصی واپڈا سپورٹس بورڈ کے صدر عامر احمد تھے۔جبکہ اس موقع پر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن نکے صدر لیفٹیننٹ جنرل (ر) سید عارف حسن، حاجی شفیق، نائب صدر پی او اے شوکت جاوید، نائب صدر پی او اے چوہدری محمد یعقوب، سیکرٹری پی او اے حاجی خالد محمود، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری اولمپیئن شہباز احمد سینئر، اولمپیئن منظور الحسن، حافظ عمران بٹ، پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن کے سیکرٹری ادریس حیدر خواجہ، محمد جہانگیر، عندلیب، فوزی خواجہ، ارشد ستار، رانا محمد سرور، ثقلین ظہور راجہ، افتخار ملک، عمبرین ملک، طیب سہیل، ندیم، وقار علی سمیت بڑی تعداد موجود تھی۔
ایشین گیمز 2018ء میں پاکستانی کھلاڑی کتنے میڈل حاصل کرسکیں گے اس کے بارے کہنا قبل ازوقت ہوگا۔ تقریباً ان گیمز کے انعقاد میں 8 ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے۔ حکومت پاکستان جو سیاسی مسائل میں الجھی ہوئی ہے اس نے ابھی تک ان گیمز کی تیاری اور کسی گیم میں میڈل لانے کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔ حکومت کے ماتحت چلنے والا پاکستان سپورٹس بورڈ ’’سفید ہاتھی‘‘ بن چکا ہے جو بورڈ میں کام کرنے والے اعلیٰ افسران جن میں وفاقی وزیر بھی شامل ہیں کیلئے سونے کی چڑیا بن چکا ہے۔ پاکستان نے اگلے سال دو میگا ایونٹس میں شرکت کرنی ہے جن میں پہلا ایونٹ اپریل 2018ء میں کامن ویلتھ گیمز جو آسٹریلیا کے شہر گولڈ کوسٹ میں ہورہا ہے اس کے انعقاد میں صرف چار ماہ باقی ہیں۔ ان گیمز کی تیاریوں کا آغاز نہیں ہوسکا ہے نہ ہی کوئی کیمپس لگ سکے ہیں جبکہ 8 ماہ بعد دوسرا ایونٹ ایشین گیمز ہیں جس کے بارے میں کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی ہے کہ آیا ہم نے گیم میں شرکت برائے شرکت کے طور پر جانا ہے یا پھر ملک و قوم کیلئے میڈل بھی لے کر آتے ہیں۔ جس حکومت اور اس کی انتظامیہ کو سپورٹس کی اہمیت کا اندازہ نہ ہو وہاں بیمار اور بیمار ذہنیت والے لوگ ہی جنم لیتے ہیں۔ پاکستانی کھیلوں کی تباہی کا اصل ذمہ دار پاکستان سپورٹس بورڈ ہے جسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ اکثر لوگ بورڈ کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جبکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا کی اولمپک کمیٹی کھیلوں کا انعقاد نہیں کرتی بلکہ یہ ذمہ داری ان کی حکومتوں کی ہوتی ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن