قیادت کے غلام
کئی وکلاء ،کئی انجینئر،کئی ڈاکٹر،کئی سابق جج لیکن پھر بھی ان سب پڑھے لکھوں نے قومی اسمبلی کا ممبر ہوتے ہوئے بھی انتخابی اصلاحات کا بل2017ء یا تو پڑھا نہیں یا پڑھ کر "تخفظ نواز شریف"میں اتنے آگے چلے گئے کہ آقا ومولامحمدؐ کی ختم نبوت تک کی اہمیت بھی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔صرف ترقیاتی فنڈز ان کی زندگی کا نچوڑ تھا۔ان پڑھ لوگ منتخب نمائندے تو ہوسکتے ہیں ،بل نہیں پڑھ سکتے ،سو ان سے کیاگلہ۔لیکن صاحبان علم اور فقیہان شہرکو کیا ہوا۔کیا سبھی ذہن کند ہوگئے یا"ترقیاتی سکیموں"کے فنڈکا ابلیس راہ حق سے بھٹکالے گیا۔سارے ملک کی سیاسی ومذہبی جماعتیں اور ممبران ہی اپنی اپنی قیادتوں کے غلام نکلے۔ انتخابی اصلاحات 2017ء کا بل ان کے پاس پہنچا تو کسی نے اسے پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی ۔ادھر ایوان میں وزیر قانون زاہد حامد نے بل پڑھا تو ادھرسکول کے بچوں کی طرح ہاتھ کھڑے کرکے اپنی ذات اور ضمیر کے دام کھرے کرلئے۔لیکن یہ بھول گئے کہ اس شیطانی بل میں محمدؐ کی ختم نبوت پر کتنا بڑا وار کیا گیا ہے۔وہ توبھلا ہومولانا حمداللہ اور شیخ رشید کا کہ انہوں نے اس مکروہ شق کے بارے میں ایوان کو آگاہ کیا کہ بل میںاسے تبدیل کردیا گیا ہے جس میں "حلف"کی بجائے "اقرار"کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔اور ختم نبوت کے حلف نامے سے "غیر متزلزل"کا لفظ حذف کردیا گیا ہے تاکہ قادیانی2018ء کے انتخابات میں حصہ لینے کے اہل ہوسکیں ۔یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں کہ حلف قسم کو کہتے ہیں۔اقرار ایک عام سااستعمال کیا جانے والا لفظ ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میں ختم نبوت کے اس حلف نامے تک پہنچنے کی ایک طویل جدوجہد ہے ۔جس میں بارود اور خون ساتھ ساتھ چلتے رہے۔1953ء کی تحریک ختم نبوت میں مولانا ابوالاعلی مودودی اور مولانا عبدالستانیازی کو سزائے موت سنائی گئی۔سینکڑوں مسلمان شہید ہوئے ۔ہزاروں زخمی ہوکر اپنے اعضاء سے محروم ہوگئے ۔جیلوں کی بیرکوں میں جگہ تنگ پڑگئی۔ختم نبوت کے عقیدے کی خاطر لوگ پتنگوں کی طرح پروانہ وار قربان ہوتے رہے۔لیکن یہ مسئلہ سرد تو ہوا مگر حل نہ ہوسکا۔تاریخ کا پہیہ چلتا رہا ۔وقت گذرتا رہا یہاں تک 1974ء کاسال آگیا۔ربوہ کے ریلوے سٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے طلباء کے ساتھ ہونے والے ایک حادثے میں ،جس میں ربوہ کی مقامی آبادی نے انہیں دوران سفر لوہے کی زنجیروں اور ڈنڈوں سے پیٹا،کسی کا سرکچلا تو کسی کی ٹانگ توڑی ،کسی کے بازو توڑے تو کسی کو چلتی گاڑی سے نیچے پھینک کر ظلم وتعدی کا بازار گرم کیا تو پل بھرمیں یہ خبر ملک بھر میں پھیل گئی ۔کوئی گلی کوچہ اور شہر دیہات ایسا نہ تھا جہاں سے پیارے نبی کی ختم نبوت کے دیوانے جان ہتھیلی پر رکھ کر نہ نکلے ہوں۔ ایک طویل تحریک کا آغاز ہوا۔مجھے تو تحریک کے پہلے روز ہی گرفتار کرلیا گیا اور میں مہینوں ڈسٹرکٹ جیل (اب سنٹرل ) گوجرانوالہ میں پابند سلاسل رہا،مگر تحریک کی خبریں باقاعدگی سے ملتی رہتی تھیں تحریک کو سینکڑوںمسلمانوں نے اپنے خون سے سینچا تو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس کی سنگینی کے پیش نظر قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرلیا ۔ساتھ ہی قادیانی مذہبی راہنمائوں اور تحریک کے علماء سے مشاورت کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔اور قومی اسمبلی کا اجلاس بھی جاری رہا ۔ذوالفقار علی بھٹو نہ صرف معاملے کی نزاکت کو جان گئے بلکہ اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ قادیانیوں کا وجود بجائے خود پاکستان کی ریاست کے لئے بھی نقصان دہ ہے ۔۔ہوتے ہوتے 7ستمبر کا وہ مبارک دن بھی آگیا جب قومی اسمبلی نے قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قرار دے دیا اور یوںیہ سوسالہ مسئلہ ختم ہوگیا اور مسلمانوں نے سکون کا سانس لیا کہ مسئلہ تمام ہوا۔اچھا بھلا کام چل رہا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے بل میں ختم نبوت کے حلف نامے کے اصل الفاظ میں ردوبدل کرکے اس حساس مسئلے کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ حکومت نے کچھ دائو پیچ استعمال کرکے خفیہ طریقے سے اسمبلی سے یہ قانون منظور کروالیا۔جب شور مچا سازش بے نقاب ہوئی تو بل کے حق میں ووٹ دینے والے بھی شرمندہ شرمندہ ساہوکر جھوٹی سچی کہانیاں سنانے لگ گئے۔پھر لاہور سے ایک قافلہ اسلام آباد کو روانہ ہوا،کہ اس شیطانی بل کو ختم کرکے ،اصل شکل میں اسے بحال کروایا جائے ۔
قدرت نے اب کی بار یہ عزت اور اعزاز جسمانی طور پر دونوں ٹانگوں سے معذور لاہور کے ایک خطیب علامہ خادم حسین رضوی کے نام لکھ دیا۔جن کے سامنے بڑے بڑے قد آور مولانا بھی بونے نظر آئے ،وہ قافلے لے کر جو بڑھے تو بڑھتے ہی چلے گئے، محمدؐ کی ختم نبوت کے دیوانے جو چڑھے تو چڑھتے ہی چلے گئے۔اور اسلام آبادمیں جاکر دھرنا دے دیا۔حکومت ٹس سے مس نہ ہوئی کہ حکومتوں کی یہی عادت ہوتی ہے۔سرکاری دسترخوان سے ہڈیاں چننے والے دانشور اور درباری کالم نویس،TVچینلز پر"شاہراہ عام"کی حرمت کے گن تو گاتے رہے اورختم نبوت کے ماننے والوں کے اس مطالبے کو کہ زاہد حامد استعفی دیں،ریاست کی ناکامی قراردے کردھرنے والوں سے نمٹنے کا سبق دیتے رہے۔یہ کون لوگ تھے،کس کس کا نام لوں ،ضمیر فروشی اور ختم نبوت سے غداری کے اس حمام میں ننگے تھے۔ایک اور افسوسناک پہلوسامنے آیا ۔تاریخ کے طالب علموں کو بتاتا چلوں کہ جب 1953ء میں ختم نبوت کی تحریک چلی تو اس میں مولانامودودی اور مولانا عبدالستار نیازی جنہیں سزائے موت کا حکم سنایا گیا،دونوں کا مسلکی تعلق ایک دوسرے سے مختلف تھا،پھر بھی چونکہ یہ عقیدے کا معاملہ تھا اس لئے بلا امتیاز مسلک وسیاست سب نے اس میں حصہ لیا۔1974ء میں چلنے والی تحریک ختم نبوت میں کیا اہل حدیث اور کیا بریلوی ،کیا دیوبندی،اور شیعہ سبھی ایک پلیٹ فارم پر جمع تھے ۔علامہ احسان الہی ظہیر ،مفتی محمود،آغا شورش ،مفتی سرفرازنعیمی اور مظفر علی شمسی غرضیکہ سبھی علماء اس میں شامل تھے۔مگر جب 2017ء میں حکومت نے ایک بل کے ذریعے ختم نبوت کے عقیدے کو تاراج کرنے کی کوشش کی تو ہمیں صرف ایک ہی مکتب فکر کے علماء نظر ّئے ،جنہوں نے دھرنے کی شکل میں ایسا پر اثر احتجاج کیا کہ ہمارے عقیدے پر ڈاکہ ڈالنے والوں کو شکست تسلیم کرنا ہی پڑی۔ ایک مکتب فکر جن کاا یک راہنما ہمیشہ نواز شریف کے کوٹے سے سینیٹر ہوجاتے ہیں ،ماسوائے ابتسام الہی ظہیر کے سبھی خاموش رہے۔ اپنے مولانا فضل الرحمان تو "تخفظ ختم نبوت"کے اس معرکے میں ہمارے عقیدے پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ نظر آئے علامہ خادم حسین رضوی کے لب ولہجے پر اعتراض کرنے والوں نے اپنے لب ہی سی لئے یقینا عزت اور ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے۔
پس تحریر:۔ جب جنرل قمر جاوید باجوہ کو مسلح افواج کا سربراہ بنایا گیا تو سینیٹر ساجد میر نے ان کے عقیدے پر شک کا اظہار کیا جو انہوں نے ازاں بعد اپنی رائے واپس لے لی ،مگر اس چھوٹے سے اظہار نے پہاڑ جتنے مسائل کھڑے کردیئے،خون بھی بہا اب یہ "اظہار"ایک اژدھا بن کرسامنے آگیا ہے۔