شہ رگِ پاکستان پر بھارتی مظالم اور سموگ؟
وادی کشمیر ایک بار پھر آتش بداماں کا منظر پیش کر رہی ہے۔ بھارتی حکومت وادیٔ کشمیر و جموں کے ان ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے کیلئے ایسے تمام ہتھکنڈوں اور حربوں کو استعمال میں لا رہی ہے جو ہندو ازم کی انسانیت سوز روائتوں کا خاصا ہیں۔ جو وادیٔ جموں و کشمیر کے مسلمانوں پر صرف اور صرف اس لئے روا رکھے جا رہے ہیں جو تقسیم برصغیر کے ادھورے ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے سربکف ہیں۔ کشمیری مسلمان حصول مقصد کی خاطر قیام پاکستان کے وقت سے اپنی جان و مال اور غیرت و آبرو کی قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں اور پاکستان کے عوام ابتدا سے ہی کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کی اخلاقی‘ سفارتی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی جان و مال کی قربانیاں دینے سے بھی گریز نہیں کر رہے۔ بابائے قوم حضرت قائداعظم نے واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسکے بغیر پاکستان مکمل نہیں ہو سکتا‘‘۔
بانیٔ پاکستان کے اس بیان کو پاکستانی قوم نے جزو ایمان بنا رکھا ہے۔ اس حوالے سے مصلحتوں کے اسیر بعض ارباب اقتدار کا قبلہ درست کرنے میں پاکستان کے جن نظریاتی اور فکری رہنماؤں نے تاریخ ساز کردار ادا کیا۔ ان میں نوائے وقت گروپ آف نیوز پیپرز کے چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی مرحوم کا نام نامی اسم گرامی سرفہرست ہے۔ وادی کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں پر روا رکھے جانیوالے بھارتی افواج کے بہیمانہ مظالم پر آواز بلند کرنے اور وقت کے بڑے سے بڑے حکمرانوں کو جھنجھوڑنے میں انہوں نے کبھی رتی بھر کوتائی نہ کی۔ اس سلسلے میں نہ صرف اپنے قلم کی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں بلکہ زبان و بیان سے بھی ببانگِ دُہل آزادی کشمیر اور کشمیری عوام کی لازوال قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے مصلحتوں کے مارے ارباب اقتدار کو کچوکے دینے سے کبھی نہ ہچکچائے۔ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں پاکستانیوں کے ملک میں صرف جناب مجید نظامی (مرحوم) ہی ایک ذات تھی جو بھارت کے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی آنکھوں میں خار بن کر کھٹکتی تھی۔انہوں نے اس مسئلہ کو صرف اور صرف ادارہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں استصواب ہی کے ذریعے حل کرنے کو لازمی سمجھا جبکہ بھارتی حکومت اپنے مخصوص مقاصد کے تحت تصفیہ کشمیر کو اپنے حربوں کی روشنی میں حل کیلئے کوشاں رہی مگر ایسی ہر بھارتی کوشش کی راہ میں مجید نظامی مرحوم پہاڑ ایسی رکاوٹ ثابت ہوئے۔ بھارت کے سابق سفارتکار سابق ہائی کمشنر پارتھا سارتھی سے کراچی میں اخبار نویسوں نے گفتگو کے دوران یہ سوال کیا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تصفیہ کشمیر کے سلسلے میں کیا رکاوٹ ہے؟ تو ان کا انگریزی میں جواب تھا
(IN ONE WORD- Nizami- HE IS THE ONLY OBSTACLE)
یعنی ایک لفظ میں… نظامی… صرف وہی رکاوٹ ہے۔
مجید نظامی مرحوم وادی کشمیر میں پون صدی سے جاری جدوجہد آزادی کو ظلم و تشدد اور قتل و غارت گری سے دبانے کے لئے بھارتی ہتھکنڈوں پر ہر محفل و اجتماع میں اپنے اضطراب کا اظہار کرتے اور اس اقدام کو ہندو ازم کی روائتی اسلام اور مسلمان دشمنی قرار دیا کرتے‘ اسی بنیاد پر انہوں نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں تصفیہ کشمیر تک بھارت سے کسی قسم کے ثقافتی‘ تجارتی‘ سماجی اور کاروباری تعلقات قائم کرنا تحریک آزادی کشمیر سے بیوفائی کے مترادف ہے اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ مرحوم کی زندگی میں کسی پاکستانی حکمران کو بھارت سے کسی بھی قسم کے تجارتی و ثقافتی تعلقات کا ڈول ڈالنے کی جرأت نہ ہوئی تھی۔ درحقیقت مجید نظامی مرحوم جس قدر قائد و اقبال کے شیدائی تھے اسی قدر آزادیٔ صحافت کے زبردست علمبردار تھے۔ اخبار کے صفحات کو حکمرانوں کی خوشامد‘ خوشنودی اور چاپلوسی کیلئے استعمال کرنے کو پیشۂ صحافت کی حرمت کیخلاف خیال کرتے تھے۔چنانچہ انہوں نے صحافت کو ایوان اقتدار کے مکینوں اور اسکی غلام گردشوں تک رسائی حاصل کرنیوالوں کی قصیدہ خوانی سے کبھی آلودہ نہ ہونے دیا۔ میاں نواز شریف کے برسوں پہلے وزارت عظمیٰ کے دور میں بھارتی وزیراعظم واجپائی بس کے ذریعے واہگہ کے راستے پاکستان آئے تو حکومت انہیں ایوان اقبال لانے کی تیاری کر رہی تھی۔ مگر ایوان اقبال اتھارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مجید نظامی مرحوم نے دوٹوک الفاظ میں میاں شہباز شریف کو فون کر کے کہا کہ وزیراعظم (میاں نواز شریف) کو کہہ دیں کہ اس مسلمان اور پاکستان دشمن واجپائی کو تصور پاکستان کے خالق علامہ اقبال کے نام سے منسوب ایوان اقبال میں لایا گیا تو یہ سراسر غلط ہو گا پھر مجھے اس ادارہ سے الگ سمجھیں۔ چنانچہ وزیراعظم کو اپنا ایسا فیصلہ منسوخ کرنا پڑا۔ اب بھی اگر مرحوم مجید نظامی بقید حیات ہوتے تو جس طرح پنجاب حکومت نے سموگ کے معاملے پر بھارتی صوبہ پنجاب کی حکومت کو خط لکھ کر باقاعدہ طور پر یہ دعوت دی کہ سموگ اور ماحولیاتی آلودگی کے مسائل سے نمٹنے کیلئے مل کر کام کریں۔ مرحوم نظامی سموگ کے مسئلے پر بھی بھارت کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بات کبھی گوارا نہ کر سکتے تھے جبکہ پاکستان ایسے مسائل سے بخوبی نمٹنے کی پوری صلاحیت سے بہرہ ور ہے۔پاکستان کے کسی بھی صوبے یا کسی بھی سطح کے ارباب اختیار کی طرف سے بھارت کے کسی بھی سطح کے ارباب اقتدار سے دست تعاون طلب کرنے کو ایسے تعلقات کی راہ ہموار کرنے کی کوشش ہی قرار دیا جائیگا جس کا مقصد مخصوص مفادات کے تحت تعلقات کو فروغ دینا ہے جب تک تقسیم برصغیر کا ادھورا ایجنڈا مکمل نہیں ہوتا۔ اس وقت تک پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے چھڑائے بغیر پاکستان دشمن بھارت سے سیاسی‘ اخلاقی‘ سماجی‘ ثقافتی‘ کاروباری اور تجارتی میدان میں دوستی کا کوئی دروازہ نہیں کھولا جا سکتا۔ اسی حوالے سے مرحوم مجید نظامی بھارت کے ساتھ کسی قسم کے ثقافتی و تجارتی تعلقات کی بنیاد پر کسی قسم کی اشیاء خوردنی کی مبہم سی حکومتی کوششوں کو بھی نشانہ تنقید بناتے ہوئے حکیم الامت کا یہ شعر دہراتے۔
اے طاہرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی