• news
  • image

صاحبان بصیرت کیلئے کتاب حکمت و ہدایت

مدت مدید کی بات ہے کہ حافظ سرور کی انگریزی کتاب The Beauties of Quran پڑھی تھی جس میں قرآنی افکار و احکامات کی فطری و عقلی عظمت کے بیان کے علاوہ قرآن کی زبان و بیان کی ادبی خوبصورتی اور لسانی چاشنی کا ذکر تھا۔ میں جب سورۃ الرحمن کی تلاوت کرتا ہوں تو زبان کی سلاست و بلاغت مجھے مسرور و مسحور کر دیتی ہے۔ قافیہ آرائی یہان مظہر شاعری نہیں بلکہ حقیقت آشنائی کے لئے وجدان کی تسخیر اور وحی کی تعبیر ہے۔ رحمان، قرآن، انسان، البیان، یحسبان، یسجدان، میزان اور ریحان نے آیات میں زبان و بیان کی چاشنی کو اوج کمال تک پہنچا دیا ہے۔ اس طرح سورۃ الکوثر میں کوثر،و انحر اور ابتر یا سورۃ اخلاص میں احد،… کے الفاظ غنائیت و سلاست کے آئینہ دار ہیں۔ سورۃ ق میں تو لا جواب انداز میں ترسیل آیات ہے۔ آیات میں یوں صوتی یکسانیت سے دلکشی پیدا کی گئی۔ مجید، بعید، وعید، جدید، ورید، …، شہید، حدید، عنید اور عبید کے الفاظ آیات کے اختتام پر کلام خدا کی تائید کرتے ہیں۔یہ انداز بیان کلام مخلوق کا نہیں ہوسکتا۔زبان و بیان کا خوبیوں کے علاوہ نصائح، احکامات اور انکشافات بھی الوہی ہیں۔ آج سائنس نے ترقی کی ہے۔ طہمارے اعمال کا ریکارڈ محفوظ کرلیا گیا ہے۔ٹی وی پر آپ اپنے الفاظ ،حرکات و سکنات اور اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ہمارے ہر عمل کو محفوظ کرلیا گیا ہے اس سائنسی ایجاد نے روز قیامت کی حقانیت اور ہر شخص کے ’’اعمال نامہ‘‘کی حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔سورۃ ق کی آیت نمبر 17 مین انسانی اعمال کے ریکارڈ پر یوں مذکور ہے’’جب دو (فرشتے تحریر و تصویر) میں محفوظ کر لیتے ہیں جو دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہیں‘‘۔ آیت نمبر 18 میں ارشاد ربانی ہے۔ ’’وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے) کے لیے تیار رہتا ہے‘‘۔ پھر آیت نمبر 23 میں ارشاد ہوا۔’’اور اس کے ساتھ رہنے والا (فرشتہ) کہے گا یہ ہے جو کچھ میرے پاس تیار ہے‘‘۔گویا ہر شخص کی زندگی بھر کا ’’اعمال نامہ‘‘اس کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔اسی حقیقت کی طرف اشارہ سورہ یٰسین کی آیت نمبر 65 میں یوں کیا گیا۔’’آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگادیں گے اور ان کے ہاتھ ہم سے باتیں کریں گے اور ان کے پاؤں ان کے اعمال کی گواہی دیں گے جو وہ کمایا کرتے تھے‘‘۔گویا ہر فعل کا ریکارڈ مرتب و محفوظ کیا جائے گا۔اعمال تو اعمال رہے افکار کا بھی ریکارڈ مرتب کیا جاتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ ہم تمہارے دلوں کی ہر بات کو جانتے ہیں۔ اعلانیہ و پوشیدہ اعمال و افکار محفوظ ہیں۔ آج سائنس دانوں نے ایسی مشین ایجاد کی ہے جو بتاتی ہے کہ آپ جو بیان دے رہے ہیں سچ ہے یا جھوٹ ہے۔ذہنی کیفیت ،دل کی دھڑکن اور زبان کی لرزش و لغزش مشین پر اثرات ظاہر کرتی ہے۔یہ بھی قرآنی صداقت کا ثبوت ہے۔تاریخ عالم شاہد ہے کہ بڑے بڑے جابر و فاسق بادشاہوں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔بقول آتش ’’مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے‘‘۔آج نمرود ،ہامان و شداد و فرعون و یزید کی قبر کہاں ہے۔کون لوگ ان کا احترام کرتے ہیں۔بادشاہ سروں پر اور فقیر دلوں پر حکومت کرتا ہے۔بقول اقبال …؎

نگاہ فقر میں شان سکندری کیا ہے
خراج کی جو گداہو وہ قیصری کیا ہے
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے کہ ہم نے اہل زور وزر کے محلات و باغات کو اجاڑ دیا اور آج ان کا نشان تک باقی نہیں۔لیکن جن اشیاء یا مقامات کی نسبت خدا یا خدا کے بندوں سے ہوتی ہے وہ شعائر اﷲ کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔صفاء اور مروہ کی پہاڑیوں کی نسبت حضرت ہاجرہ سے ہے تو یہ مقدس پہاڑیاں بن گئیں۔اگر پتھر نسبت سے مقدس ہوسکتے ہیں تو وہ شخصیات کیسے مقدس نہیں ہوسکتیں جنہیں اﷲ چن لے اور اعلان کرے ’’بے شک اﷲ نے آدمؑ کو،نـوح ؑ کو،آل ابراہیم اور آل عمران کو عالمین میں چن لیا۔یہ مقربین خدا ہیں۔ارشاد ربانی ہے۔’’اور ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کردیا‘‘آج چار دانگ عالم میں محمد ؐ مصطفٰی کا کلمہ پڑھا جاتا ہے جب کہ سرداران مکہ ابوالہب اور ابوجہل کی قبروں کے نشان تک معدوم ہیں۔سورۃ البقرہ میں ارشاد ربانی ہے۔’’تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔میرا شکر ادا کرو اور تم کفر نہ کرو‘‘جو لوگ اﷲ کو یاد رکھتے ہیں اﷲ انہیں یاد رکھتا ہے۔ جو اﷲ کا ذکر کرتے ہیں اﷲ ان کا ذکر کرتا ہے۔ انبیائ، اولیاء کی قبریں بھی زندہ ہیں۔ ان کا احترام ہے اور وہ مقدس مقامات ہیں۔ مرجع خلائق ہیں۔دمشق میں بنت علیؓ حضرت زینبؓ کا عالیشان روضہ ہے۔وہ مظلومہ تھیں۔نواسیٔ رسولؐ تھیں۔ان کی آخری آرام گاہ مرجع خلائق ہے جبکہ یزید کی قبر کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔لاہور میں روضہ داتا گنج بخش مرجع خلائق ہے۔علامہ اقبال کا مقبرہ زیارت گاہ اہل عقل و عشق ہے جبکہ شاھنشاہ ہند جہانگیر کی قبر باعث عبرت اور ملکہ نور جہاں کی قبر شکوہ کناں ہے کہ ’’برمزارما غریباں نے چراغے تے گلے‘‘لوگ وزیروں ،سفیروں ،مشیروں ،حاکموں اور افسروں کی قبروں کے قریب سے بھی نہیں گزرتے جبکہ مقربین خدا کے قرب کے لئے چشم براہ ہوتے ہیں۔ زندہ وہ ہے جس کی قبر بھی زندہ ہے۔وہ مردہ ہے جس کی قبر مردہ ہے۔شہید زندہ ہے اور سید الشہداء زندہ و پایندہ ہیں کیونکہ انہوں نے راہ خدا میں سب کچھ لٹا دیا۔دنیا میں ’’یوم احتساب‘‘ اور آخرت میں ’’یوم حساب‘‘ قائم ہونا امر الٰہی ہے۔ ظالمین رسوا اور عادلین کامران ہوتے ہیں۔ سورۃ الذریٰت میں مذکور ہے کہ قوم لوط پر آسمانوں سے مٹی کے پتھریلے کنکر برسائے گئے۔قوم عاد پر ’’ریح العقیم‘‘ یعنی ایسی ہوا بھیجی جس نے ہر شے کو بھسم کر دیا۔ ریزہ ریزہ کر دیا۔ قوم ثمود کو عذاب دیا اور قرآنی الفاظ میں ’’فاخذتھم الصعقۃ‘‘ مذکور ہوا یعنی ہولناک کڑک نے انہیں آ گھیرا۔ قوم نوح کو غرق آب کیا۔ ان اقوام پر دنیا میں عذاب نازل کیا تاکہ آئندہ نسلیں عبرت حاصل کریں۔ قوم عاد پر جو زہریلی ہوا حملہ آور ہوئی آج یہی عذاب ذہین انسان کی شیطانی تخلیق ہے۔ کیمیائی ہتھیار‘ ایٹم بم اور نائٹروجن بم زہریلی ہواؤں سے ہر شے کو بھسم کر دیتے ہیں۔ قرآن مجید کی باتیں آج سائنس ثابت کر رہی ہے۔ ماہرین طبیعات کہتے ہیں کہ یہ کائنات جمودی نہیں بلکہ متحرک ہے اور لمحہ بہ لمحہ ترقی پذیر ہے۔ اس میں تبدیلیاں بھی ہو رہی ہیں اور ارتقائی منازل کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ سورۃ الذریٰت کی آیت نمبر 47 میں ارشاد ربانی ہے۔ ’’اور آسمانی کائنات کو ہم نے بڑی قوت کے ذریعہ سے بنایا اور یقیناً ہم اسے وسعت اور پھیلاؤ دیتے جا رہے ہیں‘‘۔ ’’انا لموسعون‘‘ کے قرآنی الفاظ سلسلہ وسعت کائنات کا اعلانیہ و بیانیہ ہیں۔ علامہ اقبال نے بھی فرمایا تھا۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
تخلیق کائنات کے ساتھ ساتھ تخلیق انسان و حیوان اور جمادات و نباتات کا مذکور بھی سورۃ الذریٰت کی آیت نمبر 48 میں کیا گیا۔ ’’ومن کل شی۔۔۔ خلقنا زوجین‘‘ اور ہم نے ہر چیز کے دو جوڑے پیدا فرمائے‘‘۔ حیوانات اور انسان کے مذکر اور مؤنث ہونے کا تو سب کو علم ہے مگر علم نباتات کے ماہرین پودوں میں مذکر اور مؤنث اشجار کی سائنسی تائید کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا الہامی کتاب کا یہی کافی ثبوت ہے کہ آج سائنس دان قرآن مجید کی حقانیت کو ثابت کر رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم قرآن مجید کی آیات کو فرقہ بازی اور مسلکی موضوعات میں استعمال کرنے کی بجائے انسانی زندگی کے مسائل کے پیش کردہ حل اور سائنسی حقائق کی دریافت کے لئے رہبر عقل و دانش بنائیں۔ یہ کتاب حکمت و ہدایت ہے۔ بقول علامہ اقبال
برخور از قرآں اگر خواہی ثبات
در ضمیرش دیدہ ام آب حیات

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

epaper

ای پیپر-دی نیشن