.مستعفی ہونے کا اعلان کرنے والے 3 ایم پی ایز سپیکر کو استعفے پیش نہ کرسکے
لاہور+ ساہیوال/ سرگودھا(خصوصی رپورٹر+ نامہ نگار) فیصل آباد میں سجادہ نشین سیال شریف پیر حمید الدین سیالوی کو استعفیٰ دینے والے تین ارکان پنجاب اسمبلی پیر نظام الدین سیالوی‘ مولانا رحمت اللہ اور محمد خان بلوچ نے گزشتہ روز سپیکر پنجاب اسمبلی یا سیکرٹری پنجاب اسمبلی کو استعفے پیش نہیں کئے اور نہ ہی اسمبلی سیکرٹریٹ میں استعفے جمع کروائے ہیں۔ اسمبلی قواعد کے مطابق سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال خان استعفیٰ ملنے کی صورت میں مستعفی ہونے والے ارکان اسمبلی کو اپنے چیمبر میں بلاکر سماعت کریں گے کہ آیا انہوں نے استعفے اپنی مرضی سے دئیے ہیں‘ ان پر کوئی دبائو تو نہیں ہے۔ ختم نبوت کانفرنس کے بعدسیال شریف سیاسی سرگرمیوں کاگڑھ بننے لگا اہم لوگوں کی آمدورفت کے پیش نظر سیال شریف میں سکیورٹی کے انتظامات کو بھی فول پروف بنا دیا گیا۔ فیصل آباد میں سانحہ فیض آباد راولپنڈی کے شہداء کا 4 جنوری کو چہلم پنجاب اسمبلی کے سامنے منانے کے اعلان کے بعد سیال شریف میں آنے جانیوالے افراد پر نظر رکھنے کیلئے حکومت نے خفیہ والوں کی ڈیوٹیاں لگادی ہیں۔ آئندہ انتخابات میں ختم نبوت کے مسئلہ پر ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑنے والے ارکان اسمبلی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا جبکہ موجودہ ارکان اسمبلی کیلئے بھی مشکلات بڑھیں گی مذہبی حلقوں کا کہنا ہے کہ آئندہ انتخابات میں مذہب کی بنیاد پر ووٹ تقسیم ہوگا جس کا زیادہ تر نقصان ن لیگ کو پہنچے گا۔ ہر گزرتے دن کیساتھ ن لیگ کیلئے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں اور یہ مشکلات آئندہ انتخابات میں مسلم لیگی امیدواروں کیلئے جیت کی راہ میں رکاوٹ ہونگی۔ پنجاب میں ایک طرف ختم نبوت کے نام پر مذہبی گروہ سرگرم نظر آرہے ہیں تو دوسری طرف ماڈل ٹاؤن رپورٹ کو ایک اہم کارڈ کے ساتھ مسلم لیگ ن کی رہی سہی ساکھ اور ووٹ بینک کو توڑنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اتوار کو فیصل آباد میں دھوبی گھاٹ گراؤنڈ میں مسلم لیگ ن کے دو اراکین نے قومی اسمبلی اور تین نے صوبائی اسمبلی سے استعفوں کا اعلان کیا۔ ختم نبوت کے نعرے لگا کر استعفے کا مطالبہ کرنے والوں کی قیادت خادم حسین رضوی نہیں بلکہ ان سے بھی سینئیر شخصیت پیر حمید الدین سیالوی نے کی۔ سرگودھا سے تعلق رکھنے والی روحانی شخصیت پیر حمید الدین سیالوی نے اس سے قبل یہ دعویٰ کیا تھا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے 14 ارکان پارلیمان نے اپنے استعفے ان کے پاس جمع کروا دیئے ہیں۔ پیر سیالوی نے مطالبہ کیا تھا کہ صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نہ صرف مستعفی ہوں بلکہ وہ ٹی وی پر آ کر یہ وضاحت بھی کریں کہ وہ احمدیوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتے، جس کے بعد وہ بحیثیت مسلمان اپنے ایمان کی تجدید بھی کریں۔ لیکن ان کا مطالبہ پورا نہیں ہو سکا اور وفاقی وزیر قانون کے بعد صوبائی وزیر قانون کا مستعفی ہونا ابھی ناممکن دکھائی دے رہا ہے مگر اب پیر صاحب کہتے ہیں کہ بات اب وزیر قانون کے استعفے سے آگے نکل چکی ہے۔ ڈاکٹر نثار احمد جٹ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 81 سے جبکہ غلام بی بی بھروانہ نے ضلع جھنگ کے حلقہ این اے 88 سے استعفیٰ دیا۔ اسی طرح مولانا رحمتہ اللہ اور پیر نظام الدین سیالوی اور خان محمد بلوچ مستعفی ہونے کا اعلان کرنے والوں میں شامل ہیں۔ مقامی صحافیوں کا کہنا ہے کہ مقامی سطح کے اسی میدان میں بہت جلسے ہوئے ہیں۔ پچھلے سات سالوں میں یہ سب سے بڑا جلسہ تھا۔ صبح دس بجے سے شام چار بجے تک جاری رہنے والی ختم نبوت کانفرنس کے بعد نہ تو اس جماعت اور نہ ہی مستعفی ہونے والے اراکین بات کرنے کے لیے تیار دکھائی دے۔ دھوبی گھاٹ میں جاری کانفرنس کے دوران سٹیج پر آکر انھوں نے سیالوی صاحب کی حمایت کرنے اور ختم نبوت کے لیے جان تک قربان کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس علاقے کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافیوں کے مطابق مستعفی ہونے والے اراکین اگر استعفے نہ دیتے تو پھر انھیں آئندہ انتخابات میں اپنی نشستوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے کیونکہ ان کے وٹرووں کی بڑی تعداد پیر سیالوی کے حامیوں اور مریدوں میں سے ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ ہوا کا رخ دیکھ کر جماعت بدلتے ہیں اور اب یہ رخ کم ازکم مسلم لیگ ن کے حق میں نہیں لگتا۔ بی بی سی اردو کے ریڈیو پروگرام سیربین میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ علمائے اکرام اور علاقے کے معززین کے دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتے تھے اس لیے استعفے کا اعلان کیا۔ اگر فیصلہ میری ذات کا ہوتا تو شاید میں استعفیٰ نہ دیتا، سیالوی صاحب سے نہ تو براہ راست میری کوئی ملاقات تھی اور نہ ہی جان پہچان تھی لیکن پیر صاحب کے آنے سے پہلے گدی نشینوں اور علماء کرام کا ایک وفد آیا اور انہوں نے بہت مجبور کیا مجھے کہ آپ کی شرکت باعث فخر ہے اور سیدھی سی بات ہے کہ میں انہیں انکار نہ کر سکا۔ میں وہاں یہ اعلان کر کے آیا ہوں کہ جب سیالوی صاحب جب کہیں گے ہم استعفیٰ دے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے استعفے رانا ثناء اللہ کا استعفیٰ یا وضاحت سے مشروط نہیں میرا مطالبہ حکومت وقت سے یہ ہے کہ جو وفاق میں اس قانون کی تبدیلی کے محرکات تھے ان کا پتہ لگایا جائے۔ ماڈل ٹاؤن کو سماجی اور قانونی جبکہ ختم نبوت کو مذہبی معاملہ کہہ کر دونوں فریقین کی جانب سے حکومت وقت کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ جانے کا وقت آ گیا ہے۔