ملتان کے قدیم ثقافتی رنگ
سلیم ناز
ثقافت ایک ایسی اکائی ہے جس سے انسانی تہذیب رہن سہن‘ بول چال‘ رسم و رواج جنم لیتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کیلئے ثقافت کو ’’روح‘‘ کہا جاتا ہے۔ شہروں کی قدیم ثقافت تو جدید دور کے بدلتے تقاضوں کی نذر ہو کررہ گئی ہے۔ تاہم اب بھی دیہات کی قدیم ثقافت کو پاکیزہ‘ پر خلوص اور محبتوں کے دریا سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہاں کے مناظر فطرت کی مثالیں دی جاتی ہیں جس نے قدرت کی جلوہ گاہ دیکھنا ہو اسے دیہی علاقے کی سیر کے مشورے دئے جاتے ہیں جہاں جاتے ہی زندگی کے بے رنگ خاکوں میں قدیم ثقافت کے رنگ اتر آتے ہیں۔ زندگی کا اصل حسن جاگ اٹھتا ہے‘ کنوؤں‘ ہل‘ چرخے کی کوک‘ مدھانی کی چھل چھل‘ انسان کو ایک خوبصورت دنیا میں لے جاتی ہیں۔ جہاں کنوؤں پر گھڑوں کی قطاریں اور مٹیار کی کمر کے خم میں دبی ہوئی گاگر‘ سرسوں کے پھول توڑتے ہاتھوں میں موجود چوڑیوں کی چھنچھناہٹ‘ جھانجھروں کی جھنکار اور دیگر دلفریب مناظر دلوں کوتازگی عطا کرتے ہیں۔ شہروں کی نسبت یہاں کی زندگی مطمئن اور شادمان نظر آتی ہے۔ قدم قدم پہ خوشیاں بھکری پڑی ہیں کوئی دوہڑے گا رہا ہے‘ کوئی ماہیے‘ کوئی کشتی لڑ رہا ہے‘ کوئی بانسری بجا رہا ہے‘ہر سانس‘ ہر جان اپنے من کی دنیا میں پنہاں ہے‘ سب کے غم سب کی خوشیاں مشترکہ ہوتی ہیں۔ میلوں ٹھیلوں میں یہ انداز زیادہ وسعت اختیار کر لیتے ہیںہر سلسلے میں فضا ماحول کے صحت مند مقابلہ انسان کو انسان سے محبت کا درس دیتے ہیں کوئی بناوٹ کوئی سجاوٹ نہیں ہوتی۔ اپنائیت اور سچائی کی مٹھاس تسکین و سکون کا احساس بنتی ہے‘ دیہاتی میلوں اور تماشوں میں کشتی‘ کبڈی‘ گھوڑا تانگہ دوڑ‘ اونٹوں اور مرغوں کی لڑائی‘ ریچھ کتوں کی لڑائی ‘ تیتر‘ بیٹر اور کبوتروں کے مقابل بیلوں‘ بھینسوں کی دوڑیں عام ہوتی ہیں۔ ان مشاغل کے علاوہ وزن اٹھا کر زور آزمائی کے مقابلے سمیت کئی حیرت انگیز تماشے انسانی دلچسپیوں کا مرکز ہوتے ہیں۔ چاندنی راتوں میں خصوصاً بچے مختلف کھیلوں کا اہتمام کرتے ہیں‘ جس میں آنکھ مچولی‘ ہدڑی جھار‘ چڑھ مار اور محل منارا شامل ہوتی ہے۔ بڑے اپنی خصوصی محفلوں میں قدیم قصے کہانیوں کے ذریعے اپنے بزرگوں اور علاقائی شجاعت و مردانگی کے قدیم کرداروں کے تذکرے خاص طور پر کرتے ہیں۔ شادیوں کے کٹھ ہوں یا غمی کی بیٹھک ہر جگہ مروت و محبت کا سبق تاریخ کے اوراق پلٹتا رہتا ہے‘ بانسری‘ الغوزے‘ بین اور شرنا کے سوز و ساز‘ علاقائی فنکاروں کی درد بھری آواز ہوتے ہیں۔ ثقافت کے یہ امین لوگ آج بھی موجود ہیں جن کے دم سے سروسرور کے لذیذ و لطیف جذبے امن و اطمینان کا حسین پیغام بنتے ہیں۔
شرم‘ حیا وفا اس مٹی کے خمیر میں شامل ہوتی ہیں۔ دکھ سکھ کی اس سانجھ میں کبھی دراڑ نہیں آتی۔ کیونکہ زندگی کی بنیاد سچائی کے اظہار پر رکھی جاتی ہے۔ اس لئے میلے کپڑوں کے اجلے دلوں سے خلوص کی خوشبو آتی ہے لیکن اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ دیہی اقدار بھی تبدیل ہو رہی ہیں۔ لیکن شہر کی نسبت ان کی تبدیلی کی رفتار انتہائی سست ہے۔ مجموعی حوالے سے دیکھا جائے تو ہوس حیات اور نام نہاد ضرورت نے ہم سے ثقافت و روایات کا یہ عظیم ورثہ چھین لیا ہے جس کے بعد ہم ایک محدود نظام تک محبوط ہو کر رہ گئے ہیں۔ زمانہ ترقی کرے تو سہولیات جنم لیتی ہیں۔ مصروفیات بڑھتی ہیں تو آج کے مشینی اور سائنسی دور میں جہاں خوشیاں پیدا ہو گئی ہیں وہاں محبت و احساس اور وقت کا بھی بحران پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ذہنی پریشانیاں اور بیماریاں بڑھ گئی ہیں۔ خصوصاً شہروں میں تو زندگی مقید ہو کر رہ گئی ہے۔ کام اور روزی روٹی کے بے لگام گھوڑے نے انسان کو بے حسی‘ مفاد اور منافرت کی گہری کھائیوں میں لاکھڑا کیا ہے لیکن دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ انسان جتنا بھی دور نکل جائے اپنے مرکز کی طرف لوٹ کر ضرور آتا ہے۔ اس لئے ہم جس قدر ترقی یافتہ بن جائیں اپنے اصل سے جدا نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے ملتان اور گرد و نواح کی ثقافت بھی مختلف رنگوں سے مزین ہے۔ ملتانی کھابوں میں نائٹ کلچر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دال مونگ‘ ڈولی روٹی‘ ربڑی جیسی لذیذ اور ذائقہ دار اشیاء کی فروخت کا سلسلہ صبح سے شروع ہو کر رات گئے تک جا ری رہتا ہے۔ ملتانی کی تنگ و تاریک گلیاں رات کو بھی دن کا منظر پیش کرتی ہیں۔ چائے خانوں پر لوگوں کا جم غفیر رہتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ چائے کے ہر گھونٹ کے ساتھ ملکی اور علاقائی سیاست میں اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملتا ہے۔ ملتان کے ان ثقافتی رنگوں میں زندگی کا اصل حسن پنہاں ہے۔