• news

’’فاٹا بل نہ آیا تو یکم جنور سے دھرنا ہو گا‘‘ جماعت اسلامی لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ کر ختم

لاہور( خصوصی نامہ نگار) فاٹا کو صوبہ خیبر پی کے میں ضم کرنے کے مطالبہ کے حق میں باب خیبر سے جماعت اسلامی کا لانگ مارچ تیسرے روز موسلادھار بارش میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچ گیا۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے قبائل کو قومی دھارے میں لانے کے لئے حکومت کو 31 دسمبر تک کی ڈیڈ لائن دیدی۔ ان کا کہنا تھا کہ بل نہ آیا تو سال نو کے آغاز پر اسلام آباد میں مستقل دھرنا دیتے ہوئے اسے ’’خیمہ بستی‘‘ میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ملک بھر سے کارکنان خیمے اور چادریں لے کر اسلام آباد آئیں گے۔ شہروں کو بند نہیں کریں گے۔ ایوان صدر اور وزیراعظم ہائوس کی تالابندی کر دی جائے گی۔ حکومت یاد رکھے قاضی حسین احمد مرحوم کے ایک دھرنے سے اگلے دن حکومت چلی گئی تھی۔ وہ چائنہ چوک جناح ایونیو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کررہے تھے۔ لانگ مارچ میں تمام قبائلی ایجنسیوں سے لوگ شریک تھے اور تیسرے روز یہ لانگ مارچ ٹیکسلا کے راستے فیض آباد سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا۔ سینیٹر سراج الحق نے اعلان کیا ہے کہ ہم اپنے احتجاج اور دھرنوں کے ذریعے شہریوں کے لئے مشکلات پیدا نہیں کریں گے۔ حکمرانوں کو ان کے دفاتر میں نہیں بیٹھنے دیں گے۔ تمام قبائل کو مبارکباد دیتا ہوں۔ جمرود باجوڑ سے وزیرستان تک لوگ اس لانگ مارچ میں شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں موسم ٹھنڈا ہو سکتا ہے مگر اپنے حقوق کے لئے قبائل کے جذبات گرم ہیں۔ یہ قبائل وہ قوانین چاہتے ہیں جو پورے پاکستان میں لاگو ہیں۔ اگر قبائل میں پاکستان کے قوانین نافذ نہیں کر سکتے تو پورے پاکستان کو فاٹا بنا دیں۔ عدم انصاف کا یہ نظام مزید نہیں چل سکتا۔ قبائل عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ناانصافی کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں بدامنی اور دہشت گردی پیدا ہوئی ہے۔ اگر اب بھی قبائل کو حقوق نہ دیئے تو ان کے ہاتھ حکمران طبقہ کے گریبان پر ہوں گے۔ پوری قوم کو لے کر اسلام آباد آؤں گا۔ فاٹا کو سی پیک میں حصہ دیا جائے اور صوبہ خیبر پی کے میں شامل کیا جائے۔ قومی مالیاتی کمیشن میں فاٹا کو نمائندگی دی جائے قابل تقسیم محاصل سے فاٹا کے لئے تین فیصد مختص کئے جائے۔ ایف سی آر کو ختم کیا جائے۔ گورنر کو بڑا بننے کے لئے قبائل کو حقوق دینا ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے ایجنڈے پر نامکمل بل آیا تھا مگر شرم کی بات ہے کہ حکومت نے اس جزوی ریلیف کو بھی واپس لے لیا۔ 12 دسمبر 2017ء کو ڈیڈ لائن دے رہے ہیں کہ 31 دسمبر تک فاٹا کو خیبر پی کے میں فاٹا کو ضم کر دیا جائے۔ ایسا نہ ہوا تو قبائل خیمے اور چادریں لے کر اسلام آباد آئیں گے مستقل دھرنا دیں گے۔ احتجاجی مارچ میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور قومی اسمبلی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی شریک ہوئے۔ علاوہ ازیں جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی صدارت میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں ملک کی سیاسی صورتحال پر بحث کے بعد ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں پاکستان کے سیاسی حالات میں مایوسی اور بے یقینی کے بڑھتے ہوئے اندھیروں پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا۔ قرارداد میں اس عزم کا اظہار کیا گیا ہے کہ جماعت اسلامی انتخابات میں بھر پور حصہ لے گی اور اس سلسلہ میں جماعت اسلامی ترجیحاً دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر انتخابی جدوجہد جاری رکھے گی۔ الیکشن کمشن حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں، پولنگ سکیم وغیرہ کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں جلد مکمل کرے اور بر وقت انتخابات کے انعقاد کے لیے ضابطے کی پیش رفت کی جائے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ جس طرح عقیدہ ختم نبوت کے سلسلہ میں متفقہ آئینی و قانونی دفعات اور حلف نامے پر شب خون مارا گیا اور پارلیمانی اصلاحات کی آڑ میں قادیانیوں کو فائدہ پہنچانے کی مذموم سازش کی گئی وہ قابل مذمت ہے۔ مرکزی شوریٰ نے فاٹا کے عوام سے کامل اظہار یکجہتی کرتے ہوئے ان کے متفقہ مؤقف کی تائید کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق فاٹا کی آئینی حیثیت کو جلد از جلد عملی شکل دے کر اس کے صوبہ خیبر پی کے میں انضمام کو مکمل کیا جائے۔ قرارداد میں بھارت اور امریکہ کی طرف افغانستان کے راستے پاکستان میں مداخلت اور دہشت گردی کے کل بھوشن یادیو جیسے نیٹ ورک ودیگر سرگرمیوں کی بھرپور مذمت کی گئی اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت کے دہشت گردانہ اور جارحانہ عزائم، مسلسل سرحدی خلاف ورزیوں کے ذریعہ عورتوں، بچوں اور مریضوں سمیت شہریوں کے قتل عام کاسنجیدہ نوٹس لے۔

ای پیپر-دی نیشن