حدیبیہ کیس: جے آئی ٹی‘ نیب نے کچھ کیا نہ اسحاق ڈار کا بیان ثبوت : سپریم کورٹ آف پاکستان
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس دوبارہ کھولنے سے متعلق نیب کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت میں عدالت نے نیب سے شریف فیملی کے مبینہ طور جرم کے ثبوت وشواہد کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی ہے۔ دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ نیب کی بنائی گئی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے نیب پراسیکیوٹر بتائیں کہ اس کیس میں جرم کیا ہوا ہے، اگر اسحٰق ڈار کے اعترافی بیان کو پرے کر دیا جائے تو اس صورت میں آپ کے پاس کون سے نا قابل تردید شواہد موجود ہیں، جے آئی ٹی نے کچھ کیا نہ نیب نے، بتائیں جرم کہاں ہوا؟ پیسے ادھر، ادھرچلے گئے، یہ سب کہانیاں ہیں، پراسیکیوشن چارج بتائے کیا ہے، 1992سے 2017 آ گیا مگر اب تک الزامات واضح نہیں، دستاویزات فراہم کریں، بیانات چھوڑیں شواہد بتائیں۔ اسحاق ڈار کا بیان کس قانون کے تحت کسی دوسرے شخص کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے ؟ پراسیکیوشن نے چارج بتانا ہوتا ہے۔ سترہ سال پرا نے حدیبیہ کیس کو اب ایک نہ ایک جانب نمٹنا چاہیے جبکہ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ نیب کو حدیبیہ پیپرز کیس میں منی ٹریل ثابت کرنی ہے، جسٹس مشیر عا لم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مظہر عالم میا ں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نیب کی اپیل کی سماعت کی۔ سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس مشیر عا لم نے نیب کے پرا سیکیوٹر سے کہا کہ آپ نیب کی اپیل کے زا ئد المیعاد ہو نے پر دلا ئل دیں تو پرا سیکیوٹر عمران الحق نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی اور جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ملزمان کے خلاف کچھ نئے شواہد سا منے آئے ہیں اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ نئے مضبوط شواہد موجود ہیں جس کی بنا پر لاھور ہائی کورٹ کے ریفرنس کو ختم کر نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دا خل کی گئی ہے، ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے شریف خاندان نے ستمبر 1991 میں منی لانڈرنگ کا آغاز کیا۔ ابتدائی طور پر سعید احمد اور مختار حسین کے اکاونٹ کھولے گئے، اسحاق ڈار کا 164 کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ کیسے منی لانڈرنگ کی گئی،اسحاق ڈار نے جعلی اکاونٹس کو اپنے بیان میں تسلیم کیا،عمران الحق نے مزید کہاکہ جے آئی ٹی نے حدیبیہ ریفرنس کھولنے کی سفارش کی،منی ٹریل حدیبیہ پیپر ملز سے جڑی ہے، اسی لیے اس کیس کو دوبارہ کھولنے کا کہا گیا، مئی 1998 کے ایٹمی دھماکوں کے بعد تمام فارن کرنسی اکاونٹس منجمد کرکے ملزمان نے اپنا پیسہ نکلوا لیا، جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ جے آئی ٹی نے کچھ کیا ہے اور نہ نیب نے، نیب کی بنائی گئی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کو بطور گواہ لیا جاسکتا ہے، بطور ثبوت نہیں۔ اہم ثبوت کیا ہیں جن کی بنیاد پر ریفرنس کھولیں، الزام بتائیں۔ بیانات چھوڑیں شواہد پیش کریں جے آئی ٹی نے صرف اپنی رائے دی تھی مجرمانہ عمل کیا ہے وہ بتائیں ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں حدیبہ کیس فوجداری مقدمہ ہے اس لیے جر م کیا ہوا، ہم آپ سے ملزمان پر لگایا جانے والا الزام پوچھ رہے ہیں اسحاق ڈار کا بیان کس قانون پر دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے؟ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہم نے صرف اکثریتی فیصلہ پڑھنے کا کہا ہے۔ جسٹس مظہر عالم میا ں خیل نے سوال کیا کہ کیا حدیبیہ کے حوالے سے پانامہ فیصلے میں ہدایات تھیں تو عمران الحق نے کہا کہ حدیبیہ کا ذکر پانامہ فیصلے میں نہیں ہے جسٹس مشیر عالم نے سوال کیا کہ پانامہ فیصلے کو حدیبیہ کے ساتھ کیسے جوڑیں گے، جے آئی ٹی سفارشات پر کیا عدالت نے حدیبیہ کے بارے میں ہدایت کی؟ عمران الحق نے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں، قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ نے ریفرنس خارج کر نے کا حکم دیا تھا اور لاہور ہائیکورٹ نے فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر دیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ بتائیں کہ اس کیس میں مجرمانہ عمل کیا ہے ممکن ہے یہ معاملہ انکم ٹیکس کا ہو۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ حدیبیہ کا اکائونٹ کون چلا رہا ہے؟ اکائونٹ اب آپریٹ نہیں ہورہا تو ماضی میں آپریٹ کرنے والے کا نام بتائیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب نے اب تک کیا تحقیقات کیں بینک کا ریکارڈ جھوٹ نہیں بولتا بینک ملازمین کے بیانات ثانوی ہیں تحریری ثبوت دیں کیا نیب نے حدیبیہ پیپرز کے بارے میں انکم ٹیکس پر سوال کیا؟کیا ڈائریکٹرز سے پوچھا گیا فاضل وکیل نے بتایا کہ ہم نے سوال نامہ بھیجا ہے پر ابھی ریکارڈ پر نہیں ہے جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہائیکورٹ نے 2013 میں کہا تھا کہ نیب مذاق بنا رہی ہے 2017 میں اب پھر ہمیں مذاق والی بات کہنا پڑ رہی ہے یاد رکھیں پانامہ کا فیصلہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت سنایا گیا۔ وکیل نیب عمران الحق نے استدعا کی کہ اسحاق ڈار کا بیان پڑھنا چاہتا ہوں اسحاق ڈار نے بطور وعدہ معاف گواہ بیان دیا تھا اور انہو ں نے شریف فیملی کے لیے جعلی اکائونٹس کھو لے اور پیسے ایک اکائونٹ سے دوسرے میں بھجوائے گئے۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ عدالت کو نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 کا بتائیں اس پر کیا مو قف ہے۔ عمران الحق نے کہا کہ نیب آرڈیننس کے تحت ملزمان نے کریمنل جر م کیا ہے۔ جب عمران الحق نے ملزمان کے جرم کے لیے با دی النظر کا لفظ استعمال کیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بادی النظر کا لفظ استعمال نہ کریں بادی النظر کا لفظ نہیں بلکہ سیدھا موقف اختیار کریں۔ نیب کو مزید تحقیقات کیلئے پچاس سال کا وقت لگ جائے گا ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں حدیبیہ کیس فوجداری مقدمہ ہے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ 1992 سے 2017 آگیا الزامات واضح ہونے چاہئیں۔ملزمان پر الزام ہے جو اکائونٹس کھو لے گئے ان میں سے صدیقہ کے اکائونٹ سے پیسے کس نے نکلوائے نام بتائیں۔ بینیفشریز کا بھی بتانا ہوگا۔ عمران الحق نے بتایا کہ 164 کے بیان میں اسحاق ڈار نے رقم نکلوانے کا عتراف کیا جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ایسی صورت میں متعلقہ دستاویزات سامنے ہونی چاہئیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرٹیکل 13کو بھی ہم نے مدنظر رکھنا ہے ممکن ہے یہ کیس بلیک منی یا انکم ٹیکس کا ہو۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ کو مکمل منی ٹریل ثابت کرنا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ نیب کف باتیں مان لیں تو پھر بھی مجرمانہ عمل بتانا ہوگا۔ اسحاق ڈار کا بیان بطور گواہ استعمال ہوسکتا ہے بطور ثبوت نہیں، ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں ہمیں کسی کی ذاتی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے بتائیں کیا آپ یہ کیس چلانا چاہتے ہیں کہ نہیں، نیب کی بنائی گئی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے، اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے علاوہ نیب کے پاس کوئی شواہد ہیں؟ اسحاق ڈار نے یہ سارا عمل کس فائدے کے لئے کیا؟ وکیل نیب نے بتایا کہ اسحاق ڈار کو شریف فیملی کے لئے کام کرنے کے بدلے سیاسی فائدہ ہوا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دستاویزات فراہم کریں بیانات چھوڑیں قانونی طور پر اسحاق ڈار کا یہ بیان عدالت یا چیئرمین نیب کے سامنے لیا جانا چاہئے تھا، قانون سب کے لئے ایک ہے۔ عدالت نے پرا سیکیوٹر نیب سے کہاکہ منی ٹریل سے متعلق شواہد پر دلائل دیں، ہمیں کوئی جلدی نہیں، اگرتاخیرکے معاملے کوعبورکرلیاتوممکن ہے بات کیس میرٹ پرآجائے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پرویز مشرف کی جانب سے با ہر بھجوانے کے کیا قانونی اثرات ہو سکتے ہیں، عدالت نے مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی ہے۔