حلقہ بندیاں: لگتا ہے بلیک میلنگ ہو رہی ہے: شاہی سید‘ عالمی عدالت میں مقدمات لڑنے کی صلاحیت نہیں: وزیر توانائی
اسلام آباد (خبر نگار + نوائے وقت رپورٹ) چیئرمین سینٹ نے فیض آباد میں دھرنا ختم کرنے کے طریقہ کار اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے متعلق تحریک التواء بحث کے لئے منظور کرلی۔ ایوان بالا کے اجلاس میں سینیٹر سعید الحسن مندوخیل نے تحریک التواء منظوری کے لئے پیش کی۔ چیئرمین سینٹ نے کہا جس طریقے سے دھرنا ختم کرانے کی کوشش کی گئی اور جو صورتحال رہی اس سے حکومت کی عمل داری قائم کرنے میں مشکلات رہی ہیں۔ اس معاملہ پر دو گھنٹے بحث کرائی جائے گی۔ اجلاس شروع ہوتے ہی ایجنڈا کے مطابق وقفہ سوالات تھا لیکن چیئرمین نے جوابات کے تحریری کتابچہ بارے پوچھا تو وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے بتایا پرنٹنگ کارپوریشن کے سٹاف کی ہڑتال کے باعث وقفہ سوالات کا کتابچہ نہیں چھپ سکا جس پر چیئرمین سینٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا وزیر صاحب پھر آپ یہاں کیا کر رہے ہیں۔ جائیں اور معاملہ کو حل کرائیں۔ یہ تو پارلیمینٹ مفلوج ہو گئی کہ ایجنڈا کے مطابق وفقہ سوالات نہیں لے سکتے۔ انہوں نے آج بدھ تک معاملہ رفع دفع کرا کے دونوں ایوانوں کے وقفہ سوالات کے کتابچے شائع کرنے کی ہدایت کی۔ سینٹ میں غیر ملکی میگزین میں پاکستان میں اقلیتوں کی صورتحال کے حوالے سے شائع ہونے والے مضمون سے متعلق توجہ دلائو نوٹس کا معاملہ موخر کر دیا گیا۔ چیئرمین سینٹ نے کہا وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لئے بیرون ملک ہیں، ان کی عدم موجودگی کی وجہ سے معاملے کو موخر کیا جاتا ہے۔ جے یو آئی کے سینیٹر حافظ حمد اﷲ کی بچوں میں منشیات، گداگری اور دیگر مسائل اور سکولوں میں داخلے سے محروم بچوں کی صورتحال کے حوالے سے تحریک التواء کی منظوری کا معاملہ نمٹا دیا گیا۔ سینٹ میں بیرون ملک پاکستان کے خلاف مہم سے متعلق سینیٹر سعود مجید کے عوامی اہمیت کے معاملہ کے حوالے سے قائمہ کمیٹی برائے امور خارجہ کی رپورٹ پیش کی۔ ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی اسلام آباد (ترمیمی) بل 2017ء نیشنل یونیورسٹی برائے ٹیکنالوجی بل 2017ء متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ وزیر مملکت برائے بین الصوبائی رابطہ ڈاکٹر درشن نے کہا پاکستان میں جان بچانے والی ادویات وافر مقدار میں موجود ہیں، پاکستان میں تیار ہونے والی ادویات کی قیمتیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تیار کردہ ادویات کی نسبت کم ہیں۔ بعض ادویات ایسی بھی ہیں جن کا غلط استعمال کیا جاتا ہے اس کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے کہا پاکستان کے عوام اور پارلیمنٹ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، ملک اور خطے سے دہشت گردی کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ شمالی وزیرستان میں سیکنڈ لیفٹیننٹ عبدالمعید اور ایک جوان بشارت کی شہادت پر پوری قوم سوگوار ہے۔ سینٹ دہشت گردی کے اس واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہے۔ ہم یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں پاک فوج کی عزت و وقار میں کمی نہیں آنے دی جائے گی۔ وفاقی وزیر برائے پاور ڈویژن سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا وزارت توانائی کو ہم مکمل طور پر تبدیل کریں گے، مقامی عدالت میں آئی پی پیز کا معاملہ چیلنج کیا گیا ہے، بیرون ملک بھی چیلنج کریں گے۔ ہم سمجھیں گے کسی مرحلے پر عدالت سے باہر معاملات طے کر کے اپنے اداروں اور ملک کا پیسہ بچایا جا سکتا ہے تو اس پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ سسٹم کی کمزوریوں کی وجہ سے 135 ارب روپے کی بجلی غائب ہو جاتی ہے۔ پن بجلی کے خالص منافع کی رقم کا بوجھ بھی صارف کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ایس ای سی پی کے ساتھ ایک انتظامی اقدام کے تحت یہ طے پایا توانائی اور بجلی کی خریداری بھی اب براہ راست ہوگی۔ حکومت اپنی ضمانت اس حوالے سے کیوں دے اور جو بھی بجلی پیدا کرتا ہے اسے خود فروخت کرنے کا ہی حق حاصل ہو۔ ہر صوبے کا بھی یہی حق ہے اپنے وسائل کے مطابق قابل تجدید توانائی کے منصوبے مکمل کرے۔ بین الاقوامی ثالثی عدالت کی طرف سے پاکستان کو آئی پی پیز کو ادائیگیاں کرنے سے متعلق تحریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے اویس لغاری نے کہا آئی پی پیز کو 14 ارب روپے ادا کرنے کا کہا گیا ہے، یہ کہنا درست نہیں ہے کہ جھم پیر میں ایک ہزار میگا واٹ بجلی سسٹم میں شامل کئے جانے کا انتظار ہے۔ ہم نے قومی اسمبلی سے نیپرا ایکٹ میں ترمیم کا بل منظور کرایا ہے۔ سینٹ سے بھی یہ بل منظور ہو جائے تو اس سے صورتحال میں مزید بہتری آ سکتی ہے۔ اس بل کے تحت نئی نیشنل الیکٹرسٹی پالیسی اور الیکٹرسٹی پلان کا اعلان کیا جائے گا، یہ پلان بھی اسی پالیسی کے تحت ہوگا جس کے تحت ہر سال ضرورت کے مطابق بجلی چاہے وہ سولر، قابل تجدید توانائی، ہائیڈل، نیوکلیئر، درآمدی کوئلے، تھر کے کوئلے اور ایل این جی سے حاصل ہو، سسٹم میں شامل ہوتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کارکے پاور پلانٹ کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے، ہمیں اس میں جلدی ادائیگی کرنے کے مشورے نہ دیئے جائیں، ہم اس کا بھی قانونی طریقے سے مقابلہ کریں گے۔ ملک اور قوم کے مفاد میں جو بھی بہتر ہوگا وہی کریں گے۔ تحریک پر سینیٹر طاہر حسین مشہدی، سینیٹر نعمان وزیر، سینیٹر شبلی فراز، سینیٹر جاوید عباسی، سینیٹر عثمان کاکڑ، سینیٹر سردار اعظم موسیٰ خیل اور دیگر ارکان نے بھی اظہار خیال کیا۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا عالمی ثالثی معاملات اور معاہدوں کی نگرانی کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنانے سے متعلق سپیکر قومی اسمبلی کو خط تحریر کیا جائے گا۔ عالمی ثالثی معاملات اور معاہدوں کی نگرانی کے لئے پارلیمانی کمیٹی کا قیام ضروری ہے، ایوان بالا کا اجلاس (آج) بدھ کو سہ پہر تین بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اے این پی کے شاہی سید نے کہا قومی اسمبلی کی نشستوں سے متعلق آئینی ترمیمی بل سینٹ منظور نہیں کر پارہی۔ حکومت کی ذمہ داری ہے آئینی ترمیمی بل کی منظوری کیلئے ارکان کی تعداد پوری کرائے۔ پارلیمنٹ کی بدنامی ہورہی ہے۔ پیپلز پارٹی نے یہ بل قومی اسمبلی سے منظور کرایا، اب کیا مسئلہ ہوگیا۔ لوگ لعن طعن کرتے ہیں، پارلیمان ہی آمریت اور مارشل لاء کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے انداز سے لگتا ہے وہ کہتی ہے ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں۔ لگتا ہے بلیک میلنگ ہورہی ہے ہمارے مقدمات بند کرو۔ چیئرمین سینٹ نے کہا قائد ایوان، قائد حزب اختلاف آئینی ترمیمی بل کی منظوری کی کوشش کررہے ہیں۔ پارلیمان کسی آمر کیلئے نہ راستہ دے سکتی ہے نہ دے گی۔ راجہ ظفرالحق نے کہا آئینی ترمیمی بل کی منظوری سے متعلق وزیراعظم سے بات کی ہے۔ وزیر توانائی اویس لغاری نے سینٹ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بتایا عالمی ثالثی عدالت نے آئی پی پیز کو 14 ارب روپے ادا کرنے کا کہا ہے۔ ماضی میں بغیر اشتہار دیئے پاور پلانٹس لگا دیئے تھے، بغیر معاہدے میں آئی پی پیز کو اتنی گنجائش ملی کہ آج وہ ہم پر مقدمہ کررہے ہیں۔ یہ درست ہے پاکستان نے ثالثی عدالت میں کم مقدمات جیتے ہیں۔ ہمارے پاس بدقسمتی سے عالمی ثالثی عدالتوں میں مقدمات لڑنے کی صلاحیت نہیں۔ سوئیٹزرلینڈ اور انگلینڈ میں پاکستان مخالف پوسٹرز سے متعلق خارجہ کمیٹی کی رپورٹ سینٹ میں پیش کر دی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کالعدم تنظیمیں پوسٹرز اور پراپیگنڈا مہم سے پاکستان کو بدنام کرنا چاہتی ہیں۔ وثوق سے کہتے ہیں پاکستان مخالف مہم کے پیچھے را اور دیگر ایجنسیاں ہیں۔ جینوا میں پاکستان مخالف مہم پوسٹرز اور بینرز لگا کر مہم چلائی گئی۔ بھارت کے بلوچ علیحدگی پسندوں سے روابط ہیں۔ مہم میں بڑی رقم کے استعمال سے واضح ہے اس کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ یہ دہشتگردی کی مالی معاونت میں بھارتی مداخلت کا ایک ثبوت ہے۔