• news
  • image

ملکی سیاسی ماحول بلیک میلنگ کے سوا کچھ نہیں

ملک کے مجموعی اور عمومی سیاسی ماحول میں بلیک میلنگ کا عنصر زہر ہلاہل کی طرح سرایت کر چکا ہے، ہر کوئی ایک ہی زبان بول رہا ہے، ایک جمہوری حکومت کی بنیادیں ہلا دینے کے بعد بھی بھانت بھانت کے مطالبات اور ان کو منوانے کےلئے انواع واقسام کی بلیک میلنگ کا سامان کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے اصل مفادات کیلئے سوچنے والے اذہان مفلوج کر دیئے گئے ہیں۔ یہ سب کیسے ہوا؟کس نے کیا؟ قرائن پر غور کریں تو پہلے آصف زداری کی دشمنی میں بہت کچھ ہوتا رہا، پھر نواز شریف دشمنی کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا اور مجموعی سیاسی ماحول کو بلیک میلنگ کے سپرد ایسا اور اس طور کیا گیا کہ ریاست کی چولیں تک ہلا دی گئیں، کپتان صاحب نے اپنے تمام تر سیاسی رجحانات کو بلیک میلنگ کی طرز پر چلایا اور پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے کر طویل عرصہ تک حکومت اور قوم کا وقت ضائع کیا، ولی راولی می شناسد کے مصداق کپتان کے ساتھ محترم طاہر القادری بھی آ گئے اور پھر ان دونوں کی خوب نبھی‘ جمہوریت کو برا بھلا کہا گیا‘ پارلیمنٹ کو سخت ترین صلواتیں سنائی گئیں‘ دھرنوں میں عورتوں اور بچوں کو بھی گھر سے اٹھا لانے والوں نے سیکورٹی اداروں کو جی بھر کر بلیک میل کیا‘ اس طرح ملک میں اس طرز سیاست کا دور دورہ ہو گیا جو فیض آباد دھرنے پر آ کر منتج ہوا، پھر اس سے آگے کی سوچنے والوں نے اس امر پر غور ہی نہیں کیا کہ ملک کا کیا ہو گا؟ یہ اس صورتحال میں پیچھے تو نہیں چلا جائےگا؟ آج اب صورتحال یہ ہے کسی کو ذرا سی بھی تکلیف اور مشکل درپیش ہو تو دھرنا دینے کے بارے غور کرنے لگتا ہے، سڑکوں پر آنے کیلئے بے تاب ہوتا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ یہ ماجرا اس شخص کی طرح نہیں جو کسی درخت پر چڑھ کر وہی توانا شاخ کاٹ رہا ہو جس پر وہ خود براجمان ہے، اس نفسیاتی صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ بیس کروڑ عوام میں ارباب اختیار سمیت سیاست دان اور لیڈر ابنارمیلٹی کا شکار ہیں۔ جو کام کرتے ہیں اسکے مضمرات اور نتائج پر غور نہیں کرتے اور چل سو چل کی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔ کس نے کہا کرپشن کے خلاف تحریک نہ چلاﺅ؟ اور کون کہتا ہے کہ زرداری اور نواز شریف فرشتے ہیں؟ لیکن کرپشن ختم کرنے کےلئے جو لائحہ عمل مخالف بلکہ دشمن سیاستدانوں نے اختیار کیا ہوا ہے‘ وہ سراسر بلیک میلنگ کا ہے اور اس سے کرپشن کا خاتمہ کسی بھی طور ممکن نہیں‘ یہ کہاں لکھا ہے کہ برائی کے مرتکب فرد کو قانون کے حوالے کرنے کے بجائے خود اس سے بدلہ لینے کا رویہ اختیار کیا جائے‘ نیز اس کو دین اور دنیا سے خود قانون ہاتھ میں لےکر غائب کر دیا جائے۔ نواز شریف اور اس کا خاندان عدالت کے کٹہرے میں ہے‘پھر آپ کون ہوتے ہیں نواز شریف کو سیاسی منظر سے ہٹانے کے بعد اسے زندہ رہنے کے حق سے بھی محروم کر دینے والے‘ دراصل اس ملک میں قانون تو بالا دست ہے‘ پر قانون کا احترام کرنے والوں کی اشد کمی ہے‘ جو ایک طرف ملزم کو قانون کے حوالے کرتے ہیں‘ پھر اس قانون کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے منفی اقدامات جاری رکھتے ہیں‘ کرپشن، کرپشن، کرپشن۔ یہ رٹ لگانے والے سب لوگ پارلیمنٹ یعنی مقننہ کی بالا دستی پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ عمران خان اس پارلیمنٹ کا رکن ہوتے ہوئے کتنی مرتبہ اسمبلی میں قدم رنجہ ہوئے اور ادھر طاہر القادری کو دیکھئے‘ جنھوں نے اسمبلی کا ممبر منتخب ہونے کے بعد ایوان سے ہی استعفیٰ دے دیا، بھئی جس ملک کے دستور اور اس سے وضع ہونے والے قوانین کی ہی عزت و توقیر ہی آپکے پاس نہیں تو آپ صرف دھرنوں سے ہی سیاسی اصلاح احوال کیسے کر سکتے ہیں؟ اگر اس طرح ہوتا تو تحریک پاکستان میں قائد اعظم اور دیگر بانیان پاکستان دھرنوں کے ذریعے ہی تحریک آزادی چلا لیتے، لیکن انھوں نے خالصتاً قانونی اور آئینی راستہ اختیار کیا اور مذاکرات سمیت دیگر قانونی آپشنز استعمال کیے اور ان کے ذریعے کامیابی بھی حاصل کی‘ جسے پوری دنیا کی جمہوری قوتیں شاندار اور تاریخی کامیابی کہتی ہیں۔ اس ضمن میں حقیقت حال یہ ہے کہ سیاسی تناظر میں شامل ہر سیاسی جماعت اور اسکے لیڈر اقتدار کے سہانے خواب دیکھتے ہیں‘ ہمارے ملک کے سیاسی ماحول کی خصوصیت ہی یہ ہے کہ یہاں کمزور سیاسی جماعتیں اور انکے رہنما حکومت میں قدم رنجہ ہونے کے خواب کی تعبیر چاہتے ہیں، حد یہ کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کو دس مرتبہ وردی میں منتخب کرنے کی بڑھک مارنے والے بھی کسی نہ کسی طور اقتدار میں آنے کےلئے پر تولتے رہتے ہیں۔ چوہدری برادران کبھی تو مارشل لاءکے سہانے خواب دیکھتے ہیں اور کبھی طاہر القادری اور کبھی عمران خان کے کندھوں پر سوار ہو کر قصر حکومت میں داخلے کے خواہاں ہیں۔ یہی حال بڑی سیاسی جماعتوں کا بھی ہے‘ آصف زرداری کو پنجاب میں اپنی پوزیشن اور ووٹ بینک کمزور نظر آئے تو وہ طاہر القادری کے حاشیہ بردار بن جاتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان چاہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی شدید مخالفت کر کے ان کا ووٹ بینک ہتھیا لیں‘ اس مقصد کی خاطر انھوں نے کرپشن کے خاتمہ کا سلوگن مضبوط ہاتھوں سے تھام لیا ہے‘ لیکن ان کو معلوم نہیں ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کا ایک بڑا حصہ موروثی اور خود رو ہے‘ اسے وہ کبھی ہتھیا نہ سکیں گے۔کرپشن کا خاتمہ اور اس ضمن میں ہتھیائی ہوئی رقوم کی وصولی ہی صرف تحریک انصاف کا مربوط منشور نہیں ہو سکتا‘ اس مقصد کیلئے آئندہ عام انتخابات کیلئے پی ٹی آئی کو وسیع تر منشور دینا پڑے گا، محض نواز شریف اور زرداری کی دشمنی سے عمران خان قومی سیاسی جماعت کی طرح ووٹ بینک اکٹھا نہیں کر سکیں گے، عمران خان اور انکی پارٹی چونکہ مربوط‘ معاشی اور تہذیبی منشور قوم کو دینے سے تاحال محروم ہے‘ اس لئے 2018 کے انتخابات میں اسے کافی حد تک مایوسی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ رہی بات مسلم لیگ ن کی تو اسے پی ٹی آئی اور دیگر نواز شریف دشمن پارٹیوں نے سیاسی شہید بنا دیا ہے‘ یہی پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کی سنگین غلطی ہے، لہذا اگر آئندہ الیکشن میں بھی نتائج این اے 120 کی طرح کے آئے تو پھر کیا ہو گا؟سب سے بڑا لمحہ فکریہ یہ ہے کہ ملک کی زیادہ تر سیاسی جماعتوں اور مذہبی و دینی جماعتوں نے اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کیلئے بلیک میلنگ کا طریقہ اپنا رکھا ہے‘ یہ مجرمانہ بھیڑ چال ہے۔ دھرنے اور ایسے دھرنے جن سے سڑکیں اور راستے بند ہو جائیں، حکومت کو ان سے کیا فرق پڑتا ہے‘ سارا نقصان تو عوام اور معصوم شہریوں کا ہوتا ہے ‘جس کا کسی کو احساس تک نہیں۔ سیاسی اور دینی حلقوں میں روپے کی ریل پیل ہے‘ لوگوں کو گھروں میں یخنی اور سوپ نہیں ملتا‘ دھرنوں میں دنیا کی ہر نعمت ٹرکوں میں لد لد کر چلی آتی ہے، پھر کیا چاہیے؟ اور اس پر دلچسپ امر یہ کہ جنگ خندق کے حوالے دیئے جاتے ہیں، دھرنے والے پیٹ پر پتھر باندھنے کے عندیے دیتے ہیں۔ تضاد اس قدر ہے کہ اسلام کے اساسی اور کلیدی اصول و ضوابط کا کہیں وجود ہی نظر نہیں آتا، کیا وہ ہمارے اسلاف ساتھ ہی لے گئے اور یہ غیر شائستگی کا ماحول ان کا دیا ہوا تو نہیں‘گالیاںاور دشنام طرازی سیاسی رہنماﺅں اور جماعتوں کی شکست ہوا کرتی ہے، بلیک میلنگ کی سیاست سے ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا، ملک کی جڑیں کمزور ہوں گی اور اس طرح بھارت کی ریشہ دوانیاں اور اسکے منفی عزائم کامیاب ہوتے نظر آئےں گے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن