حمزہ اور صحافی
28 جولائی2017کا دن ہماری بد قسمت جمہوری تاریخ کا ایک اور سیا ہ باب رقم ہوا ۔اس دن ایک اور منتخب وزیر اعظم کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے قبل ہی عہد ے سے ہٹا دیا گیا ۔اس مرتبہ یہ کام ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے کیا گیا جسکی بنیاد وزیرِاعظم کو صادق اور امین نہ ہونا بنا یا گیا ’’اندھا کیا چاہے دو آنکھیں‘‘ مصداق مخالفین نے فیصلے کی بھر پور حمایت کی، اصل بات یہ ہے کہ یہ صرف ایک شخص کی نااہلی یا عہدے سے علیحدگی نہ تھی بلکہ ایک جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کے سربراہ کی بر طرفی تھی ۔اس فیصلے سے آج چار ماہ گزر جانے کے باوجود نظامِ حکومت نہ صرف بری طرح متاثر نظر آرہا ہے بلکہ صورتحال سنگین ہوتی نظر آرہی ہے۔ جب ملکی صورتحال اندرونی انتشار کا شکار ہونے لگے سیاستدانوں، جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام بھی عدم استحکام کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہر خبر کے بعد جب ایک سوالیہ نشان ذہنوں میںابھرتا ہے تو اس کشمکش سے نکلنے کیلئے بالخصوص عام آدمی بہت سے راستے اختیار کرتا ہے۔ اس کوشش میں حکومتی عہدوں پہ فائز لوگوں تک پہنچنا جوئے شیرلانے کے برابر ہوتاہے۔ صحافی اور کالم نگار معاشرے کے وہ افراد ہیں جو کہ نہ صر ف عقابی نگاہ رکھتے ہیں بلکہ جن کی پرواز بھی شاہین کی طرح بلند ہوتی ہے۔ پاکستان کالمسٹ کلب کے چیئر مین ایثار رانا نے اپنے وفد جنرل سیکرٹری ذبیح اللہ بلگن، راقمہ، صغریٰ صدف دیگر صحافیوںکے ساتھ حمزہ شہباز سے بھرپور ملاقات کی ایثار صاحب نے کہا ویسے تو ملکی و سیاسی صورتحال سے آگاہی ہمیں الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا سے ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی سیاستدان آئے روز ایک نئے مسئلے پر بحث و مباحثہ کرتے نظر آتے ہیں خواص و عام انتہائی تذبذب کی کیفیت میں فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ جو زیادہ واویلا کر رہا ہے وہ سچا ہے یا جو کم شور مچا رہے ہیں وہ سچے ہیں۔ہم نے سوچا کہ آپ سے بالمشافہ ملاقات کرکے حقائق سے پردہ اٹھایاجائے کیونکہ اس وقت صرف آپ اس پوزیشن میں ہیں کہ جمہوریت، الیکشن، اپوزیشن، تعمیری اور دیگر حقائق اور منصوبوں سے ہمیں آگاہ کرسکتے ہیں۔حمزہ شہباز اور پاکستان کالمسٹ کلب کے وفد کی گفتگو کا نچوڑ حاضر ہے۔
باوجود اسکے کہ سیاسی عدم استحکام گزشتہ انتخاب کے بعد سے ہی جاری تھا اور احتجاج بھی ہورہے تھے مگر ایک مرکزی اتھارٹی کے ہوتے ہوئے حکومت کی عملداری بہت بہتر تھی ملکی معیشت بہت سے مسائل اور چیلنجز کے باوجود مثبت طور پر آگے بڑھ رہی تھی اور یہ بھی زبان زد عام ہو رہا تھا کہ2025ء تک پاکستان کا شمار دنیا کی 25 بہترین معیشتوں میں ہوگا افراط زر اور غربت کی شرح بھی کمی کی طرف گامزن تھی، پاکستان کرنسی مستحکم سطح پر پہنچ چکی تھی اور سٹاک ایکسچینج کا شمار انتہائی سطح پر آرہا تھا اس پر پاور سیکٹر کی بات کی جائے تو بجلی کے بحران پہ بہت حد تک قابو پایا جا چکا تھا، دنیا کے کہنے کے مطابق گیم چینجرCEPECکا عظیم منصوبہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا، ذرائع مواصلات، بلوچستان میں سڑکوں اور موٹرویز کا جال، کراچی میں امن کی بحالی پہ سب کچھ حقیقتاً دس سال بعد ممکن ہو رہا تھا، بلوچستان میں ترقیاتی کام اور حکومتی عملداری بہت بہتر ہوچکی تھی، دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب ،ضرب مومن، ردالفساد اور دیگر ایجنسیوں کی کارروائیاں کامیابی کے مراحل طے کر چکی تھیں، فاٹا کیلئے ایک تاریخی پیکج منظور ہو چکا تھا، سفارتی سطح پر پاکستان کی تنہائی کافی حد تک ختم ہو چکی تھی، پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک واضح فرق اور بہتری نظرآ رہی تھی، میگا پراجیکٹس، داسوڈیم، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، کچھی کینال اور اسلام آباد کیلئے بین الاقوامی ہوائی اڈے جیسے اہم منصوبے تیزی سے مکمل ہو رہے تھے۔ ملک میں سیاسی ارتعاش کے باوجود وفاقی اور صوبائی سطح پر مضبوط حکومتیں موثر انداز میں اپنا کام کر رہی تھیں اسی دوران سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا اور وزیراعظم گھر چلے گئے اور ہر طرف جیسے ریورس گیئر لگ گیا، آج حکومت ملک میں اسی جماعت کی ہے مگر اسکے موثر ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے، معیشت، زرمبادلہ، سٹاک ایکسچینج، روپے کی قدر میں کمی سے معاشی ترقی کے اہداف پورے ہوتے نظرنہیں آرہے، بین الاقوامی ادارے بھی تشویش کا اظہار کرنے لگے ہیں، دہشت گرد پھر سے سراٹھارہاہے، فاٹا ریفارمز پہ معاملہ جمود کا شکارہے ، CEPECپہ چائنہ کی طرف سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے، ریاست کی عملداری متاثر ہو رہی ہے مگر سیاسی محاذ آرائی عروج پر نظرآتی ہے، مخالف جماعتوں کی کامیابی اور خوشی پاکستان کی تنزلی میں نظرآتی ہے، ہم سیاسی مفادات کو ملکی مفادات پہ ترجیح دیتے ہیں، دھرنے اس کی بہترین مثال ہیں، جس میں پاکستان کی ساکھ کو کتنا نقصان پہنچا، نوازشریف ایک فرد ہے ہمیں ایک فرد کی دشمنی میں پوری قوم کا نقصان نظرنہیں آرہا، ایک سیاسی جماعت سے مخالفت پہ ملک کو تو دائو پر نہ لگائیں ، افراد تو نہیں رہتے مگر ریاست کو تو ہمیشہ قائم رہنا ہے۔ اب جو اندرونی طور پر کوشش کی جارہی ہے کہ سینٹ کے الیکشن نہ ہوسکیں تاکہ مسلم لیگ (ن) ایوان بالا میں برتری حاصل نہ کرسکے اس کیلئے جو ہتھکنڈے حکمران جماعت میں اختلاف کو ہوا دے کے اس میں دراڑیں ڈال کر استعمال کئے جا رہے ہیں وہ بھی اب ڈھکی چھپی بات نہیں، کیا ہم نہیں جانتے کہ اس میں اصل نقصان بھی جمہوریت کا ہوگا، اگر الیکشن بروقت نہ ہوئے تو پھر منڈلاتے ہوئے خطرات کے سائے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور خوشی سے بھنگڑا ڈالنے والوں کے گلے کا ڈھول بھی انکے گلے کا طوق بن جائیگا۔ہمارے ساتھ ہاتھ ملانے والے ہمارے دوست ممالک انتہائی پریشانی کا شکار ہونگے اور دشمن اپنی بغلیں بجائے گا، اختلافات جمہوریت کا حسن ہے مگر صرف مفادات کے حصول، مخالفت برائے مخالفت کی خاطر ملکی ترقی، استحکام اور سالمیت کو دائو پر لگا دینا ملک دشمنی ہے، حکومتیں اپنی مدت پوری کریں، انتخابات وقت پر ہوں اور انتقال اقتدار ووٹ کے ذریعے ہو اسی میں عزت، وقار اور پاکستان کی سربلندی ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وجود کو تماشا بنانے کی بجائے میڈیا، سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی سمیت سب کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ بلی چوہے کے اس کھیل میں ہم کسی بھی خطرناک انجام سے دوچار ہوسکتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس انتشار کو ختم کرنے اور ہم سب کو ایک پلیٹ فارم پہ دوبارہ جمع ہونے کیلئے پھر سے سانحہ پشاور جیسے کسی سانحے کا انتظارہے۔اس ملاقات میں کالم نگاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر جمہوریت کو بچانے کیلئے کسی سیاسی پارٹی کو دو قدم پیچھے بھی ہٹنا پڑے تو ملکی مفاد کیلئے انہیں ایسا کر لینا چاہیے لیکن ایسا کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہیے کہ ان کے ضمیر پہ بوجھ ہو اور وہ اس وطن پر جان قربان کرنے والوںکو جواب دہ ہوں،کیا قربانی صرف عوام ہی دیا کرتی ہے؟کیا سیاستدانوں کی قربانی جائز نہیں؟