بھارتی پارلیمنٹ اور ممبئی حملوں کے جھوٹ کا پول
14 جولائی 2013 بھارت کی تاریخ میں ایک ایسا دن ہے جب بھارت میں ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے داخلی سطح پر رونما ہونیوالے دہشتگردی کے بہت سے واقعات میں بھارت کو ملوث قرار دے کر بھارت کو عین چوراہے پر عریاں کر دیا۔ عدالت میں ممبئی سے تعلق رکھنے والی عشرت جہاں کو جون 2004ءکو احمد آباد میں دہشتگرد قرار دیکر جعلی پولیس مقابلے میں قتل کئے جانے کے حوالے سے مقدمے کی سماعت جاری تھی۔ ممبئی کی طالبہ عشرت جہاں کے ساتھ کار میں سوار دیگر 3 طالب علموں کو بھی گولیوں سے بھون دیا گیا تھا۔ اس جعلی پولیس مقابلے کو بھارت میں بہت شہرت ملی کیونکہ گجرات کی پولیس نے عشرت جہاں کو لشکر طیبہ کی دہشت گرد بنا کر بھارت میں پہلی خود کش بمبار قرار دیا تھا جو ان کے مطابق وہ گجرات میں صوبے کے اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو قتل کرنے کی نیت سے گجرات کی حدود میں داخل ہوئی تھی۔ احمد آباد کی مرکزی داخلی شاہراہ پر خون میں لت پت پڑی عشرت جہاں اور اسکے ساتھیوں کی لاشوں کو بھارتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے گجرات پولیس کی بہت بڑی کامیابی کے طور پر شائع اور نشر کیا۔ یقیناً یہ معمولی خبر نہیں تھی۔ 2002ءمیں گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے اور بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے نریندر مودی بھارت بھر کے ہندو انتہا پسندوں کی نظروں میں دیوتا کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ اسکے قتل کیلئے لشکر طیبہ کی طرف سے خاتون خود کش بمبار کو گجرات بھیجا جانا‘ ایسا منصوبہ تھا‘ دنیا جس پر توجہ دئیے بنا نہیں رہ سکتی تھی۔ علاوہ ازیں بھارت میں کبھی بھی لشکر طیبہ کو دہشت گردی کے واقعات میں اکیلے ملوث نہیں کیا گیا تھا۔ پاک فوج اور آئی ایس آئی کا نام لازمی ساتھ لیا جاتا۔ اب یہ بھارتی منصوبہ سازوں کی بدقسمتی کہ عشرت جہاں کے ساتھ سفر کرنے والے جن 3 نوجوانوں کو پاکستانی شہری قرار دیا گیا ان کی تصاویر میڈیا پر آنے کے بعد ممبئی میں تینوں کے لواحقین بھرپور احتجاج کے ساتھ منظر عام پر آ گئے جسکے بعد ممبئی کے میڈیا نے نہ صرف گجرات پولیس کے موقف کو بری طرح رد کر دیا بلکہ 2002ءکے بعد گجرات کی حدود میں ہونےوالے ایسے جعلی پولیس مقابلوں کے قصے بھی کھول کر رکھ دئیے جن کی آڑ میں گجرات کے پولیس افسران نے ترقیاں‘ انعامات‘ مراعات اور وزیراعلیٰ سے قربت حاصل کی۔ ممبئی کے صحافیوں نے پولیس کمشنر اور ایس پی کی سطح کے پولیس افسران کو جعلی پولیس مقابلوں کا مرتکب قرار دےکر شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا تو انکوائری در انکوائری‘ و تفتیش کا نہ ختم ہونیوالا طویل سلسلہ شروع ہو گیا۔ بھارت کی اعلیٰ عدالت میں اس انکوائری ہی کے سلسلے میں سماعت کے دوان عشرت جہاں کے قتل کے 9 برسوں بعد بھارتی وزارت داخلہ میں ”انڈر سیکرٹری“ آر وی ایس مانی نے اپنے بیان حلفی میں ایک ایسی بات کر دی جس کیلئے بھارت کی عدلیہ سے لیکر وزارت داخلہ و خارجہ اور حکومت بالکل تیار نہیں تھی۔ انکشاف کیا گیا کہ بھارت میں پولیس کے افسران ہی اپنے ذاتی مفادات اور ترقیوں کیلئے جعلی مقابلے نہیں کراتے‘ بھارت سرکار بھی بڑے مقاصد کیلئے اپنے ملک میں دہشتگردی کی مرتکب رہی ہے۔ آر وی ایس مانی نے ہر صفحہ پر دستخطوں کےساتھ اپنے بیان حلفی میں لکھا کہ 2001ءمیں نیو دہلی میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہونیوالا حملہ ہو یا 2008ءمیں ممبئی کے ہوٹلوں میں ہونےوالی دہشت گردی کی کارروائیاں‘ ان دونوں میں بھارت سرکار کے اپنے ادارے ملوث تھے۔ 13 دسمبر 2001 کو پارلیمنٹ پر حملے کے بعد بھارت کے اندر اور ملک سے باہر لوگوں کی جذباتی کیفیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے (POTA) PREVENTION TERRORIST ACTIVITIES ACT کو بروئے کار لایا گیا۔ 26 نومبر 2008ءکو ممبئی کے ہوٹلوں‘ سٹی ریلوے اسٹیشن اور یہودی مرکز پر حملوں کے بعد (UAPA) UNLAWFUL ACTIVITIES PREVENTION ACT جیسے قوانین بروئے کار لائے گئے جن کی آڑ میں حکومتی سکیورٹی اداروں کو دئیے جانیوالے اختیارات کو شاید عام حالات میں لاگو کرنا ممکن نہ ہوتا۔ مانی کے حلف نامے میں دوسرا مقصد پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو دہشت گردیوں کی منصوبہ ساز قرار دے کر مقبوضہ کشمیر میں متحرک لشکر طیبہ کے ذریعے اس پر عملدرآمد کا الزام لگا کر مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کو عالمی سطح پر دہشت گردوں کی تحریک قبول کرانا تھا۔ آر وی ایس مانی کے بیان حلفی کے بعد عشرت جہاں کا مقدمہ تو پس پشت چلا گیا۔ بھارت میں وزارت داخلہ کے افسران سے پوچھ گچھ اور آر وی ایس مانی کو اپنے بیان حلفی سے منحرف کرانے جیسی کوششوں پر ساری توجہ مبذول ہو گئی۔ 26 نومبر 2008ءکو ممبئی کے ہوٹلوں تاج محل اور اوبرائے پر دہشتگردوں کے حملے کا بھارت کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی اور بھارت کے مختلف علاقوں میں دھماکے کرانیوالے اصل بھارتی سرکاری دہشتگردوں ، حاضر سروس کرنل پروبت کے علاوہ اسکے ساتھ پکڑے جانیوالے دیگر تمام اہم کرداروں کو فراموش کر دیا گیا ان سب کو مہاراشتر انسداد دہشتگردی سکواڈ کے سربراہ بیمنت کرکرے نے اپنے ماتحت افسران و عملہ کے ساتھ بڑی کاوشوں کے بعد نہ صرف رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا تھا بلکہ اجمل قصاب نامی کردار کی طرف سے ممبئی ہوٹلوں پر حملے سے چند دن قبل عدالت میں پیش کر کے مجسٹریٹ کے سامنے پکڑے گئے تمام سرکاری دہشتگردوں سے اقرار جرم بھی کرا لیا تھا ۔ لیکن افسوس پاکستان کو بھارت میں دہشت گردی کرانے جیسے تمام الزامات سے بری الذمہ قرار دیکر بھارتی فوج ، ایم آئی ، را اور ہندو انتہا پسندوں کے اشتراک سے بھارت میں دھماکوں کے مرتکب اصل کرداروں کو بے نقاب کرنےوالے بیمنت کرکرے ہی کو نہیں اس کی پوری ٹیم کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ لوگ آر وی ایس مانی کے بیان حلفی کو بھی بھول گئے ۔ سب کو یاد رہا تو صرف حافظ سعید اور لشکر طیبہ جن پر بھارت میں دہشت گردی کرانے کا الزام تھا یا پھر آئی ایس آئی جو بھارت کے مطابق بھارت میں دہشت گردی کی منصوبہ ساز تھی لیکن چند روز قبل امریکہ کے سابق صدر اوبامہ کے بھارتی دورے کے دوران مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی اور بھارت میں دہشتگردی سے متعلق اظہار خیال پر امریکی اسکالر ڈاکٹر کیون نے امریکہ میں ایک ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بھارت میں ہونےوالی دہشت گردیوں جس میں 26 نومبر 2008ءکو ممبئی میں ہوٹلوں پر ہونےوالے حملے بھی شامل ہیں میں بھارت کی اپنی حکومت ملوت ہے ۔ اس کا مقصد مقبوضہ کشمیر میں آزادی کےلئے جاری تحریک کو سبوتاژ کرنا تھا جس میں بھارت کو امریکہ اور اسرائیلی معاونت بھی حاصل تھی ڈاکٹر کیون بیرٹ نے اوبامہ کے خیالات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ یا تو سابق صدر اصل حقائق سے بری طرح بے خبر ہیں یا پھر وہ جانتے بوجھتے کچھ چھپانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔