مودی کا سیاسی مستقبل داﺅپر، بھکر کا نیا چہرہ!
-
انصاف کا سورج طلوع ہونے کی تو زیادہ توقع نہیں ہے لیکن ظلم کی رات کے خاتمے کے آثار بہرحال پیدا ہو رہے ہیں، نریندر مودی کے مضبوط ترین سیاسی قلعہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا 22 سالہ اقتدار لڑکھڑا رہا ہے۔ کانگرس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی بڑھتی مقبولیت نے مودی کو حواس باختہ کر دیا ہے اور اس نے گجرات کے الیکشن میں پاکستان کے اثرانداز ہونے کا واویلا شروع کر دیا ہے۔ جب یہ سطور شائع ہونگی 14 دسمبر کو گجرات میں دوسرے مرحلے کی پولنگ ہو رہی ہو گی ہندوستان ٹائمز کے مطابق مودی گجرات میں بی جے پی کا 22 سالہ اقتدار بچانے کیلئے بے چین ہے اور پاکستان مخالف بیان اس کوشش کا حصہ ہے۔ بھارتی جریدے ٹیلی گراف کا انکشاف مودی گجرات میں پاکستان کے اثرانداز ہونے کی بات کر رہا ہے۔ سابق سفارت کار مانی شنکر پر الزام کہ وہ میری (مودی) سپاری دینے پاکستان گیا تھا۔ بات اتنی سی ہے نئی دہلی میں مانی شنکر کی رہائش گاہ پر مقامی تھنک ٹینک ”آننتا“ کے زیراہتمام ایک میٹنگ میں پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے لیکچر دیا۔ انڈین ایکسپریس کیمطابق موضوع پاک بھارت تعلقات تھا۔ اس میں پاکستان کے سفارت کار عبدالباسط، سابق وزیراعظم من موہن سنگھ، سابق نائب صدر حامد انصاری، سابق وزیر خارجہ نٹور سنگھ، سابق وزیر خارجہ سلمان خورشید، سابق سفارت کار سلمان حیدر سابق سفارتکار ٹی ایس رگھوان، سابق سفارتکار شرت سبھروال، سابق سفارتکار چن مایا کھاڑے اور سابق آرمی چیف جنرل دیپک کپور نے شرکت کی۔ جنرل دیپک کپور نے ”آﺅٹ لک انڈیا“ کو انٹرویو میں مودی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میٹنگ میں بھارت کی داخلی سیاست پر بات نہیں ہوئی، مودی کا دعویٰ غلط ہے، واحد موضوع ”پاک اور بھارت کے تعلقات میں بہتری کیونکر ممکن ہے“ تھا۔ خود بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق گجرات کے الیکشن کو مودی نے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا رکھا ہے کیونکہ اگر گجرات کے الیکشن میں بی جے پی شکست کھا گئی یا زیادہ نشستیں تو لے سمی تو اس پر ملک کے عام انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی سوالیہ نشان بن سکتی ہے۔ گزشتہ کالم میں لکھا تھا بھارت مسلمانوں کےلئے ایک وسیع عقوبت خانے میں تبدیل ہو چکا ہے، خود بھارتی میڈیا نے اس کی تصدیق کر دی ہے، مسلمان نوجوانوں کو بلا جرم و قصور گرفتار کر کے لشکر طیبہ یا ہوجی نامی تنظیم کے ”دہشت گرد“ قرار دینا بھارتی پولیس اور خفیہ اداروں کا معمول بن چکا ہے۔ ٹاڈا اور پوڈا جیسے کالے قوانین کے تحت مقدمات اگرچہ 80 فیصد درست ثابت نہ کئے جا سکے اسکے باوجود انہیں سمگلر، گینگسٹر یا کسی جرم میں ملوث قرار دیکر نذر زنداں کر دیا جاتا ہے۔ اکثر مقدمات کے فیصلے جان بوجھ کر دس سے پندرہ سال تک سنائے ہی نہیں جاتے۔ سچر کمیٹی رپورٹ کیمطابق مسلمانوں کا آبادی کا تناسب 13 فیصد دکھایا گیا جبکہ 23 فیصد سے کئی سال پہلے تجاوز کر چکا تھا تاہم جعلی پولیس مقابلوں میں بھی مسلمانوں کو ہی زیادہ مارا جاتا ہے۔ ممبئی سنٹرل و تھانہ سنٹرل جیلوں میں مسلمان قیدیوں کی تعداد 52 فیصد ہے۔ مہاراشٹر میں 18 سے 30 سال عمر کے مسلمان قیدیوں کا تناسب 65 عشاریہ 5 فیصد ہے۔ افضل گرو یعقوب میمن وغیرہ کی سزائے موت گواہی ہے کہ مسلمانوں کو پھانسی چڑھا دیا جاتا ہے جبکہ ہندو خطرناک ثابت شدہ دہشت گردوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے جس کی بڑی مثال سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھماکے کا مجرم کرنل پروہت ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق گجرات، مہاراشٹر اور کیرالہ کی جیلوں میں مسلمان قیدیوں کا تناسب ان ریاستوں میں ان کی آبادی سے تین گنا ہے جبکہ سرکاری ملازمتوں میں حصہ 3 فیصد ہے۔ جعلی پولیس مقابلوں میں بھی سب سے زیادہ مسلمانوں کو مارا جاتا ہے۔ بھارت کے مسلمان دوسرے درجے کے شہری سے بدترین زندگی گزار رہے ہیں اور ”گاﺅ رکھشا“ کے نام پر تو گویا انتہا پسند ہندوﺅں کو مسلمانوں کے قتل عام کا لائسنس مل گیا ہے۔ گجرات کے انتخابات مودی کے سیاسی مستقبل کےلئے فیصلہ کن ہے، 2012ءکے الیکشن میں 182 میں سے 119 نشستیں حاصل کی تھیں اب تبدیل شدہ صورتحال میں سوال ہو رہا ہے، کیا بی جے پی 92 نشستیں حاصل کر سکے گی۔ ادھر کانگرس کی عوامی مقبولیت کا گراف بڑھ رہا ہے۔ سیاسی پنڈتوں کیمطابق اس الیکشن میں عوامی رجحان 2019ءکے عام انتخابات پر اثرانداز ہو گا۔ امیرلی اور راجکوٹ میں ووٹروں کے رجحان کے پیش نظر کانگرس کے احمد پٹیل نے 110 نشستیں حاصل ہونے کا دعویٰ کر دیا ہے جبکہ بی جے پی 150 نشستوں کا دعویٰ کر رہی ہے۔ مودی نے پاکستان پر الزامات کو اپنی کامیابی کی حکمت عملی کے طور پر دہرانے کا چلن اختیار کیا ہے جس میں حافظ سعید کو گھسیٹ لایا ہے اور وہ راہول کو حافظ سعید کا ہمدرد قرار دے رہا ہے جبکہ اس کے جواب میں راہول بھی حافظ سعید کی رہائی کو مودی کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دے رہا ہے۔ بہرحال 18 دسمبر کو دونوں مرحلوں کے انتخابات کے نتائج کے اعلان سے پتہ چلے گا کہ مودی گجرات میں 22 سالہ اقتدار بچا پائے گا یا یہ کانگرس کی جھولی میں گرے گا۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف کے کالم سے یہ جان کر اچھا لگا کہ 16 دسمبر کو یونیورسٹی آف بھکر کا افتتاح ہو رہا ہے جس سے یقیناً بھکر کے طلباءو طالبات کے اعلیٰ تعلیم کے در وا ہو کر انکے روپن مستقبل کی ضمانت بنیں گے۔ میں جب طالب علم تھا تو بھکر میں یونیورسٹی تو کیا انٹرمیڈیٹ کالج بلکہ ہائر سیکنڈری سکول بھی نہیں تھا دو ہائی سکول البتہ ضرور تھے۔ ایک ایم سی ہائی سکول دوسرا گورنمنٹ ہائی سکول جس کا طالب علم تھا، والدین کی گنجائش ہوتی تو مزید تعلیم کیلئے اپنے بیٹے کو لیہ یا لائل پور (فیصل آباد) بھیج دیتے، زیادہ مالی آسودگی ہوتی تو لاہور بھیج دیا جاتا جہاں تک لڑکیوں کا تعلق ہے۔ کوئی اکا دکا ہی دوسرے شہر جاتی تھی ان کےلئے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ہی تعلیمی سفر کا آخری پڑاﺅ ہوتا۔ خوشگوار حیرت کیوں نہ ہو جب ضلع کا حاکم ضلع کے سماجی کارکن کا عملی روپ دھار لے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف بتاتی ہیں کہ بھکر میں 16 کال سنٹر قائم کئے گئے جو ہر روز ہزاروں لوگوں کو ڈومیسائل، پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، فوتیدگی و پیدائش کے سرٹیفکیٹ، طلاق و نکاح نامہ، زرعی قرضہ، صحت و تعلیم کی سہولیات، خاندان منصوبہ بندی، معذور افراد (بچوں سمیت) کو معاشی طور پر خودمختار بنانے کیلئے مختلف ڈپلومہ جات، بیروزگاروں کے لئے کاروبار کے سلسلے میں مالی معاونت، ایک فون کال پر تین منٹ کے اندر ہر طرح کی معلومات اور رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔