حکومت کامیابیوں کا سفر کھوٹا نہ کرے
عجب طرفہ تماشا ہے ہماری سیاست میں صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت کو گرانے کی پے در پے کئی کوششوں کی ناکامی کے بعد اب ایک دوسرے کی جانی دشمن اپوزیشن جماعتیں جن کی سیاسی معراج بھی ایک دوسرے کی مخالف رہی ہے آج ایک دوسرے کے گلے مل رہی ہیں۔ یہ اعزاز کبھی بھٹو مرحوم کو حاصل تھا کہ ان کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے منشور کو چھوڑ کر ایک ہوئی تھیں اب یہ اعزاز میاں نوازشریف کو حاصل ہوا ہے کہ ان کی مخالفت میں کفر و اسلام کی سیاست کرنے والی جماعتیں اکٹھی ہورہی ہیں۔ کل تک ایک دوسرے کو چور ڈاکو‘ قاتل غدار کہنے والی جماعتیں گلے مل رہی ہیں‘ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے یکجہتی کا اظہار کرتی نظر آرہی ہیں ورنہ کہاں جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف‘ پیپلزپارٹی‘ عوامی تحریک ‘ جے یو آئی (س) جن کے قبلے ہی جدا جدا ہیں مگر آج یہ سب مل رہی ہیں۔ وہ بھی بنام سیاست‘ کیا عمران خان اور طاہر القادری بھول رہے ہیں کہ وہ دن رات پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) پر تبریٰ کرنا فرض اولیٰ سمجھتے تھے تو یہ آج کیسے کایا پلٹ ہوگئی۔
عمران خان کی تو چھوڑیں وہ سیکولر سوچ رکھنے والی جماعت کے سربراہ ہیں‘ آزاد خیال ہیں مگر یہ طاہر القادری کو کیا ہوا ۔ وہ تو خود کو ایک اسلامی سکالر سمجھتے ہیں ایک اسلامی سوچ والی تحریک کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے کس طرح پیپلزپارٹی کے سراپا کرپشن کے الزامات میں ڈوبے رہنما آصف زرداری سے یاری ڈال لی۔ ان کے ساتھ مل کر جمہوری جدوجہد کرنے‘ حکومت کو ناک آئوٹ کرنے کی ٹھان لی۔ آصف زرداری صاحب کی بھی ذرا سنیئے وہ کس منہ سے سانحہ ماڈل ٹائون میں جاں بحق ہونے والوں کے خون کا بدلہ لینے ان کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کیا مولانا قادری کو یاد نہیں کہ آصف زرداری صاحب 5 برس صدر پاکستان رہے ہیں اس دوران ان کی جماعت پیپلزپارٹی کی حکومت پورے ملک پر تھی انہوں نے اس دوران اپنی پارٹی کی قائد سابق وزیراعظم اور اپنی اہلیہ بینظیر بھٹو کے قتل کی انکوائری تک نہیں کروائی۔ ان کے قاتلوں کو سزا دلانا بڑی دور کی بات ان کے قاتلوں کو بے نقاب تک نہ کرسکے۔ اب بھلا یہی آصف زرداری مولانا طاہر القادری کے کارکنوں کے قاتلوں کو چراغ لے کر ڈھونڈیں گے جو اپنی اہلیہ کے قاتلوں کو کیفرکردار تک نہ پہنچا سکے وہ کسی اور کو کہاں سے انصاف فراہم کریں گے۔ عمران خان بھی سیاسی مجبوریوں کے تحت مولانا طاہر القادری کے ساتھ ہیں اگرچہ ان کی طرف سے آصف زرداری کے ساتھ سیاسی اتحاد سے انکار کا اعلان ہوچکا ہے مگر عملاً وہ مولانا طاہر القادری کے ساتھ ہیں جو آصف زرداری کے گلے کا ہار بن چکے ہیں۔ اس وقت عمران خان‘ آصف زرداری اور طاہر القادری پر مشتمل ایک ٹرائیکا ہر صورت حکومت کو گرانے کیلئے موجودہ حکومت کو ختم کرنے کیلئے دن رات ایک کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف تحریک لبیک کے خادم رضوی بریلوی مکتبہ فکر کو ساتھ ملا کر علیحدہ بلاک بنا کر حکومت کے ووٹ بینک کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ تیسری طرف جماعت اسلامی کے سراج الحق‘ جے یو آئی (س) کے سمیع الحق‘ حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ والے مل کر اپنے سیاسی اتحاد ایم ایم اے کو پھر زندہ کرنے کی کوشش میں ہیں جس میں جے یو پی (نورانی) اور جے یو آئی فضل الرحمن بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ یوں محسن سیاست میں اس وقت جس طرف دیکھیں اتحادوں کی بہار آتی محسوس ہورہی ہے۔
ان حالات میں حکومت کے آنگن میں فی الحال تنہائی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اس کی بڑی وجہ خود حکومت ہی ہے۔ ختم نبوت فارم کا حلف نامے کے بعد اب فاٹا کے معاملے پر حکومت خواہ مخواہ درد سر مول لے رہی ہے۔ حکومت بخوبی جانتی ہے کہ فاٹا کی تنظیمیں‘ تمام سیاسی جماعتیں خود حکمران جماعت بھی فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام پر متفق ہیں تو پھر فاٹا کے مسئلے کو لٹکانا کیسا‘ مفت کی بدنامی کیوں اپنے سر لی جارہی ہے۔ اپوزیشن حکومت کو 4 برسوں میں گرانے میں کامیاب نہیں ہوسکی مگر لگتا ہے حکومت کے بعض اپنے غلط فیصلے اسے الیکشن میں منفی صورتحال سے دوچار ضرور کردیں گے۔ اس وقت حکومت کی فتوحات کیش کرانے کا وقت ہے‘ لوڈشیڈنگ پر قابو‘ پٹرول کی قیمتوں میں کمی‘ بجلی کی قیمت میں کمی‘ ملکی معیشت کی بگڑتی صورتحال میں بہتری کو کیش کرایا جاسکتا ہے۔ بے شمار نئے صنعتی منصوبے‘ بجلی گھروں کی تعمیر‘ سی پیک کے منصوبوں میں تیزی‘ ون روڈ بیلٹ منصوبے کے تحت ملک بھر میں سڑکوں کی تعمیر نو‘ ملک بھر میں صنعتی و تجارتی زونوں کا قیام‘ افراط زر کی شرح میں کمی‘ قومی آمدنی کی شرح اور ملکی شرح ترقی میں استحکام و اضافے جیسے اقدامات کا ثمر کھانے کا وقت ہے۔ الیکشن میں کامیابیوں کی یہ داستان سنانے کیلئے حکومت اور سننے کیلئے عوام کے پاس بہت وقت ہوگا۔ ایسے میں جب الیکشن 2018ء چند ماہ کے فاصلے پر ہے حکومت بارہ سنگھے کی طرح بلاوجہ جھاڑیوں میں سینگ الجھانے سے باز رہے تو بہتر ہے۔ اپوزیشن تو چاہتی یہی ہے کہ حکومت پے در پے غلطیاں کرکے اپنے لئے مسائل میں اضافہ کرے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف اور موجودہ وزیراعظم خاقان عباسی کی قیادت میں ملکی ترقی کا سفر جس خیروبخوبی سے جاری رکھا ہے اب اس کے ثمرات ملنے کا وقت آگیا ہے تو راہ کھوٹی کرنے کے بجائے بہتر ہے کہ حکومت فائدہ اٹھائے۔ فاٹا اصلاحات بل منظور کرکے وہاں کے عوام کے دل جیتے اور ان کے ووٹ حاصل کرے۔ اگر حکومت فاٹا کے عوام کا دل جیت لیتی ہے تو خیبر پی کے میں اس کی فتوحات کی داستان میں بہتری آئے گی۔ اس طرح مہنگائی کے جن کو بہرصورت قابو میں لانا ہوگا تاکہ عوام کم از کم دال روٹی‘ گوشت‘ سبزی کے عذاب سے نکل سکیں۔ اس طرح تین وقت دستر خواں پر بیٹھ کر حکومت کو بد دعائیں دینے والوں سے بھی نجات مل جائے گی۔ غریبوں کے ووٹ ان کے پیٹ سے بندھے ہوئے ہیں اس لئے انہیں حاصل کرنے کیلئے ان کو مہنگائی کے عذاب سے نکالنا ہوگا۔ اس کے علاوہ حکومت پنجاب کی کامیابیاں ترقیاتی و تعمیراتی کام اور عوام دوست منصوبے بھی حکومت کے کھاتے میں محفوظ ہیں ان کو بھی باآسانی کیش کرایا جاسکتا ہے مگر نجانے کیوں حکومت وقت ٹھیک ٹھاک چلتے چلتے نجانے کیوں ادھر ادھر پنگے لینے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اس موقع پر تو چچا غالب کی …؎
ان آبلوں سے پائوں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پرخار دیکھ کر
والی بات یاد آجاتی ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے کوئی لمحہ ایسا نہیں آتا کہ حکومت کو سکھ کا سانس لینے دے۔ وہ ہر وقت تیز دانت اور نوکیلے پنجے نکالے حکومت کو نوچنے کھسوٹنے کیلئے تیار بیٹھی ہے۔ سیاسی دھرنوں سے خدا خدا کرکے جان چھوٹی تو پانامہ نے حکومت کو گھیر لیا۔ میاں نوازشریف کو وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا یہ کیس ابھی تک مسلم لیگ ن کے سر پر مسلط ہے۔ اس دوران ختم نبوت کے حلف نامے سے چھیڑچھاڑ مہنگی پڑ گئی۔ تحریک لبیک نے مذہبی نعروں کے ساتھ اسلام آباد‘ راولپنڈی موڑ پر دھرنا دے کر دونوں شہروں کو عملاً منسوخ کردیا۔ خدا خدا کرکے کچھ دے دلا کر یہ معاملہ ٹھنڈا ہوا تو طاہر القادری صاحب کو خون ناحق کی یاد ستانے لگی اور وہ لوہا گرم دیکھ کر پاکستان آٹپکے مگر افسوس اس وقت تک لوہا ٹھنڈا پڑ چکا تھا اب فاٹا کے خیبر پی کے میں انضمام کے مسئلہ پر حکومت نجانے کیوں ایک بار پھر اپوزیشن کے بچھائے بارودی سرنگ پر پائوں رکھتی نظر آرہی ہے۔