ایم ایم اے کے خوش آئند فیصلے
میں مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم و مغفور کا بے حد مداح ہوں۔ ان سے ایک تعلق تو سیاست دان ا ور متبحردینی عالم کے توسط سے تھا، دوسرا لاہور میں ان کے میز بان پیر اعجاز احمد ہاشمی کے ہاں جب بھی وہ تشریف لاتے تو میری ان سے خصوصی ملاقات ہوتی۔
ایم ایم اے سے میری دلچسپی کی آج وجہ مولانا سراج الحق ہیں جن سے میںنے بہت سی امیدیں باندھ رکھی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کا تذکرہ کئے بغیر میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔ وہ مرنجان مرنج اور حاضر جواب انسان ہیں۔دلا ٓویز مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر اس وقت بھی جھلکتی ہے جب بات کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے شعلے برس رہے ہوتے ہیں۔ان کے ساتھ بھی قربت کی ایک وجہ ان کے لاہور کے میزبان مولاناریاض درانی ہیں جو وحدت روڈ پر اپنے چھوٹے سے گھر میں کھانے کی دعوت پر ضرور حاضری کے لئے کہتے ہیں۔
میں مولانا سمیع الحق کا دو نسلوں سے معتقد ہوں ، بچپن میں کوئی دینی رسالہ خرید کر پڑھتا تھا تو وہ ماہنامہ الحق تھا جو ان کے والد مکرم محدث دوراں مولانا عبدالحق حقانی کی زیر ادارت شائع ہوتا تھا، اس کے شذرات میرے علم میں اضافے کا باعث بنتے ، اب مولانا سمیع الحق سے بھائیوں جیسا تعلق ہے ، ان کی دو معرکۃ الآرا کتابوں پر میں کالم تحریر کر چکا ہوں ، ان میں مکاتیب مشاہیر اور خطبات مشاہیر شامل ہیں، ایک کتاب میں تو انہوںنے میرا کالم بھی ازراہ عنایت مکتوب کے طور پر شامل کر رکھا ہے۔ دونوں کتابیں دس دس جلدوں پر مشتمل ہیں اور تاریخ کا نادر ذخیرہ ان میں جمع کر دیا گیا ہے۔ مجھے یہ قلبی افسوس ہے کہ ابھی تک وہ ایم ایم اے کے بارے میں یک سو نہیں ہو سکے۔
ایم ایم اے ایک صوبے میں پانچ برس تک حکومت کر چکی اورا س دور کے حوالے سے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ حکومت کسی بھی لحاظ سے صدر مشرف کی طفیلی یا لے پالک تھی۔ اس حکومت نے آزادانہ ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ اقدامات کئے۔ لوگوںکی زبان نہیں پکڑی جا سکتی اس لئے کہنے والے کہتے رہے کہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ایم ایم اے کو صوبہ خیبر پی کے میں جتوایا گیا۔ یہ دور نائن الیون کے بعد کا تھا ، انتہائی حساس، سنگین اور ظالمانہ دور تھا یہ۔امریکہ گرج برس رہا تھا، اس کی افواج افغانستان کو تاراج کر رہی تھیں اور ان طالبان سے لڑائی مول لے چکی تھیں جن کی ایم ایم اے دلی حمایت کرتی تھی۔ ایم ایم اے میں شامل جماعتوں سے وابستہ جہادی لیڈروںنے ایک زمانے میں سوویت روس کو افغانستان سے پسپا کیا تھا، اس جہاد کی سرپرستی صرف امریکہ ہی نہیں ،جاپان سے لے کر کینیڈا تک ہر ملک کر رہا تھا، یہ جہاد اصل میں کمیونزم کے فلسفے کے خلاف تھا اور چند برس کی قربانیوں کے بعد اس فلسفے کی علم بردار سپر پاور سوویت روس کو پارہ پارہ کردیا گیا، آج روس بہر حال موجود ہے اور کمیونزم کو بھی اس نے گلے لگا رکھا ہے مگر ایک فلسفے کے طور پر اس کی جان نکل چکی۔
افغان جہاد اول اور افغان جہاد ثانی میں ایم ایم اے نے بھر پور کردار ادا کیا۔ سمیع الحق، فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد اس ضمن میں یک سو تھے، کوئی دوسری رائے نہیں تھی۔ تاہم امریکہ سے ٹکر لیناا یم ایم اے کے بس میںنہ تھا ، پاکستان کے فیصلے بھی ایم ایم اے کے ہاتھ میںنہ تھے بلکہ ایک فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے ہاتھ میں تھے جس نے ایسے فیصلے کئے کہ ملک کی ناک ہی کٹوا دی اور پاکستان کو خون میں بھی نہلا دیا۔
ایم ایم اے کی ایک جماعت اب بھی صوبہ خیبر پی کے میں شریک حکومت ہے ۔ یہ جماعت اسلامی ہے جس کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے بہتی گنگا میں اشنان کیا ہو، آج ہر طرف کرپشن کا دور دورہ ہے، کرپشن کے خلاف جنگ کرنے والا خود ہزاروں کنال کے محل میں رہائش پذیر ہے ، اس کے مقرر کردہ وزیراعلیٰ کی پارسائی کی بھی کوئی شخص قسم نہیں کھا سکتا مگر کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ پچھلے چار برس میں مولانا سراج الحق کے ذاتی گھر کے رقبے میں ایک انچ کا بھی اضافہ ہوا ہو۔ وہ میرے گھر آئے تو میرے دونوں کم سن پوتوں میاں عمر اور میاں عبداللہ نے ان سے پوچھا کہ آپ کیسے لیڈر ہیں کہ آپ ایک سادہ سی گاڑی میں آئے ہیں، آگے پیچھے کوئی ہوٹر نہیں بجے۔داداجان کے پاس تو لوگ لینڈ کروزروں۔ مرسیڈیزوں اور پراڈوز میں آتے ہیں اور وہ بھی بم اور بلٹ پروف۔ سراج الحق ان کے معصومانہ سوال پر مسکرا دیئے تھے۔
ایم ایم اے کے احیا پر صرف میں ہی نہیں ،ہر وہ شخص اس پر فکرمند ہے جو ملک میں قانون کی حکومت کا خواہاں ہے اور لا قانونیت کا خاتمہ چاہتاہے، جسے ظلم سے نجات چاہیے اور عدالتوں سے انصاف چاہئے۔جو فلاحی معاشرے کے قیام کے حق میں ہے، استحصال سے پاک نظام اور شفاف گورننس کے لئے ترس رہا ہے۔جو قائد اعظم کے پاکستان کی آرزوسے سرشار ہے ۔
مولانا شاہ احمد نورانی ا ور قاضی حسین احمد کی کاوشوں سے ایم ایم اے کا اتحاد سن دو ہزار ایک میں وجود میں آیا۔ اس نے دو ہزار دوسو سے دو ہزار دس تک صوبہ خیبر پی کے میں حکومت کی، اکرم درانی وزیراعلیٰ بنے اور سراج الحق سینئر وزیر اور وزیر خزانہ بھی۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ا س حکومت نے اپنا دامن داغدار نہیں ہونے دیا۔ اور میری دعا ہے کہ یہ اتحاد جلد سے جلد اپنی اصل شکل میں بحال ہو، مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایم ایم اے کے راہنما ایک وفد کی شکل میں مولانا سمیع الحق سے ملاقات کریں گے اور انہیں بھی شمولیت کے لئے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔اصولی طور پر کراچی میں مولانا انس نورانی کے گھر میں اس اتحادکے قیام کا باقاعدہ احیا عمل میں آ گیا ہے ۔ اس کا ایک منشور ہو گا، ایک نشان پر الیکشن لڑا جائے گا اور وہی کتاب کے پرانے نشان کاا نتخاب کیا گیا ہے۔ اس اتحاد کی تنظیم سازی میں ابھی وقت لگے گا کیونکہ اسے توسیع دینے کی ضرورت ہے۔ خدا کرے اس دوران میں ملی مسلم لیگ کو بھی الیکشن کمیشن رجسٹر کر لے اور گھسے پٹے اعتراضات واپس لے، یہ کوئی اعتراض نہیں کہ ایک مذہبی پارٹی کو رجسٹر کیا گیا تو ملک میں بھانت بھانت کی مذہبی پارٹیاں رجسٹریشن کے لئے قطار لگائے کھڑی ہوں گی۔ الیکشن کمیشن سے زیادہ اور کون جانتا ہے کہ درجنوں مذہبی جماعتیں پہلے ہی رجسٹر کی جاچکی ہیں ، وہ الیکشن لڑتی رہی ہیں اور پچھلے دنوں فیض آباد میں الیکشن کمیشن ہی کی رجسٹر کردہ ایک مذہبی پارٹی نے وہ دنگا مچایا کہ فوج کے سربراہ کو اس بحران پر قابو پانے کے لئے سرگرم ہونا پڑا۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ملی مسلم لیگ کسی صورت ایسا فساد کھڑا نہیں کرے گی۔ اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ملی مسلم لیگ کے ووٹ ہر حلقے میںموجود ہیں اور اگر وہ اپنے طور پر کہیں سے کوئی امید وار کامیاب نہ بھی کرا سکے تو اتحاد میں شامل ہو کر پارلیمنٹ میں ایک بھاری اکثریت حاصل کرے گی۔ مجھے ایک کالم نویس کے طور پر کسی ایک پارٹی یا کسی ایک اتحاد کے حق میں دلائل نہیں دینے چاہئیں لیکن میری ذاتی رائے ہے کہ لوگ موجودہ گلے سڑے نظام سے نکو نک آ چکے ہیں، وہ ایک صالح معاشرے کے قیام کے حق میں ہیں اور یہ معاشرہ صالح اور فلاحی بنانا ہے تو اس کے لئے ایم ایم اے کی کامیابی ضروری ہے۔ کم از کم یہ اتحاد لوگوں کو حقوق دلوانے کے لئے جدو جہد ضرور کر سکتا ہے، اس کی قیادت دیانت دار ہے اور اس کے کارکن مخلص اور ووٹر کومٹڈ۔