• news

لاڈلے کو بچا لیا‘ منتخب وزیراعظم آئوٹ‘ پہلے جج بحال کرائے اب عدل کیلئے تحریک چلائیں گے: نوازشریف

اسلام آباد (نامہ نگار + ایجنسیاں) سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف نے ایک بار تحریک چلانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پہلے ججوں کی بحالی کیلئے نکلے تھے، اب انصاف کی بحالی کیلئے نکلیں گے،ملک قانون اور آئین کیلئے بنایا گیا تھا اور یہاں اس طرح کی سکھا شاہی نہیں چلے گی۔ججز اپنے لاڈلے کی نااہلی روک دیتے ہیں اور جس منتخب وزیر اعظم نے کوئی غداری نہیں کی اسے اٹھا کر آئوٹ کردیتے ہیں، سپریم کورٹ کے باہر نصب ترازو انصاف کا ترازو ہونا چاہیے تحریکِ انصاف کا ترازو نہیں ہونا چاہیے۔ جو تنخواہ میں نے لی ہی نہیں اسے میرا اثاثہ بنادیا گیا اور شک کا فائدہ دیے بغیر وزیراعظم کو ہٹا دیا گیا،ہم پاگل ہیں نہ بھیڑ بکریاں جو اس طرح کے فیصلے مانیں گے۔منگل کو احتساب عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ عدالت کے فیصلوں کو سامنے رکھیں تو دہرا معیار سامنے آجائیگا۔عدالتی فیصلے کے سامنے بند باندھ کر کھڑے ہیں اور عوام کے پاس جائیں گے، 70سال سے کس نے آمروں کو گلے میں ہار پہنائے اور قانونی جواز دیا، مشرف سے حلف کس نے لیا اور کس نے دیا، انہوں نے کہا کہ خیالی تنخواہ میرا اثاثہ بن گئی، عدالتی فیصلہ نہ میں نے قبول کیا ہے اور نہ ہی میری پارٹی کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ فیصلہ قبول کریگی۔انہوں نے کہا کہ عدالت کے فیصلوں کو سامنے رکھیں تو دہرا معیار سامنے آجائیگا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ ملک ایسے نہیں چلے گا اور دہرے معیار قبول نہیں کریں گے، پہلے عدلیہ بحالی کی تحریک چلائی تھی اور اب عدل کیلئے تحریک چلائیں گے، انہوں نے کہا کہ سات دہائیوں سے کس نے آمروں کو گلے میں ہار پہنائے اور قانونی جواز دیا، مشرف سے حلف کس نے لیا اور کس نے دیا، کس دباو پر آمر سے آپ نے حلف لیا، 70 سال سے ملک میں مذاق ہوتا رہا ہے لیکن پاکستانی قوم مزید اسے برداشت نہیں کریگی۔ نوازشریف نے کہا کہ خیالی تنخواہ میرا اثاثہ بن گئی اور جس نے خود تسلیم کیا اسے کہا جا رہا ہے کہ آف شور کمپنی اس کا اثاثہ نہیں، اپنے خلاف ہونے والے اس نام نہاد احتساب کے خلاف تحریک عدل چلائیں گے کیونکہ عدلیہ کی جانب سے کیا گیا فیصلہ نہ میں نے قبول کیا ہے اور نہ ہی میری پارٹی کے ساتھ ساتھ عوام کو یہ فیصلہ قبول کریگی۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک تحریک ہوگی جو چلے گی تو لوگوں کو انصاف ملے گا، یہ نظام ایسے نہیں چل سکتا اور نہ ہی ہم ایسے نظام کو تسلیم کریں گے، جہاں عدلیہ کی جانب سے دوہرا معیار رکھا جائے۔ نواز شریف نے کہا کہ عمران خان نے ٹرانزیکشنز کا اقرار کیا لیکن عمران خان اور میرا فیصلہ سامنے رکھیں تو معلوم ہوگا کتنا دہرا معیار ہے۔ انہوں نے کہا مجھے رائی پر نا اہل کر دیا گیا پہاڑ کو بچا لیا گیا، عدالتوں کے ڈبل سٹینڈرڈز ہیں۔انہوںنے مزید کہا کہ میرا احتساب 1936ء سے کیا گیا جب میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا، ہم اس فیصلے کے سامنے بند باندھ کر کھڑے ہوں گے۔ علاوہ ازیں لندن سے وطن واپسی پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی اولڈ ائرپورٹ لائونج پر مختصر ملاقات ہوئی۔ ذرائع کے مطابق شریف برادران نے سیاسی اور اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔ یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب نوازشریف احتساب عدالت میں پیشی کیلئے اسلام آباد جارہے تھے عین اسی وقت شہباز شریف اپنا دورہ لندن اور ترکی مکمل کرکے لاہور ائیرپورٹ پہنچے تھے۔ شہباز شریف نے ترکی اور لندن کے دوروں پر نواز شریف سے تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر مریم نواز بھی موجود تھیں۔نوازشریف سے سابق وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے بھی جاتی امرا میں ملاقات کرکے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر شریف فیملی کیخلاف نیب کیسز اور عمران خان کے حوالے سے عدالت کے حالیہ فیصلے پر بھی مشاورت کی گئی۔
اسلام آباد (نامہ نگار) اسلام آباد احتساب عدالت نے نواز شریف کے وکیل کی بینک سٹیٹمنٹ سمری ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نوازشریف کی کریڈٹ انٹریز کا اصل ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں 3گواہان کے بیانات قلمبند کر لئے گئے جبکہ 2پر جرح مکمل کر لی گئی، عدالت نے اگلی سماعت پر مزید دو گواہوں زوار منظور اور تسلیم احمد کو طلب کرلیا ہے۔ شریف خاندان کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ریفرنسز کی سماعت اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔ میاں نواز شریف دسویں بار، مریم نواز گیارہویں بار جبکہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر تیرہویں بار پیش ہوئے۔ فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں قطری شہزادے شیخ حمد بن جاسم کی جانب سے واجد ضیا کو لکھے گئے سر بمہر خط کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کر دی گئیں۔ سماعت شروع ہوئی تو لندن فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ نجی بینک کے آپریشنل منیجر یاسر شبیر نے بیان ریکارڈ کرایا۔گواہ نے مریم صفدر اور نواز شریف کے بینک اکائونٹس کاریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔ یاسر شبیر کے مطابق مریم نواز کے اکانٹ سے پہلی ٹرانزیکشن 78لاکھ 87ہزار 814روپے، دوسری ٹرانزیکشن ایک کروڑ 91لاکھ 24ہزار 924، تیسری ٹرانزیکشن ایک کروڑ 49لاکھ 12ہزار 280روپے اور چوتھی ٹرانزیکشن ایک کروڑ 73لاکھ 31ہزار 746روپے کی تھی۔ عدالت میں نوازشریف کی 12فروری 2010سے 30جون 2017تک کی بینک سٹیٹمنٹ بھی پیش کی گئی۔گواہ کے مطابق مریم نواز اور نواز شریف کے اکائونٹ میں بے ضابطگی یاغیر قانونی عمل نہیں دیکھا گیا، باہر سے آنے والے پیسے پر بینک نے کبھی سٹیٹ بینک کو شکایت نہیں کی، نوازشریف کے چیک اور وائوچرز موجود ہیں، سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے گواہ پر جرح کرتے ہوئے کہا کہ دستاویزات مصدقہ نہیں، قانون شہادت کے تحت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ خواجہ حارث نے پوچھا کیا مریم صفدرکے اکائونٹ میں بے ضابطگی نوٹ کی گئی؟ گواہ بولے نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی کوئی مشکوک ٹرانزیکشن ہوئی۔ وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر آفاق احمد نے استغاثہ کے گواہ کے طور پر تفصیلات پیش کیں، انہوں نے کہا کہ 28مئی 2017کو قطری شہزادے کے سیکرٹری عبدالحامد عبدالرشید البریدہ دوحا میں پاکستانی سفارتخانے آئے۔ قطری شہزادے کا جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو لکھا گیا سربمہر خط پاکستانی سفارتخانے کے حوالے کیا گیا۔ گواہ نے عدالت کو بتایا کہ 30مئی کو خط سفارتخانے نے واجد ضیا کو بھجوا دیا۔ 31مئی کو جے آئی ٹی نے سیکرٹری خارجہ کو خط لکھا اور مجھے طلب کیا۔ خواجہ حارث نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ خط اس گواہ کو نہیں دفتر خارجہ کو لکھا گیا تھا۔ قطری شہزادے کے بند لفافے کو کسی نے نہیں کھولا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف لندن فلیٹس سے متعلق تیسرے ریفرنس میں نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شکیل انجم ناگرہ نے اپنا بیان قلمبند کرایا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے درخواست دے کر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ حاصل کی گئی۔ جس دن جے آئی ٹی رپورٹ کا ریکارڈ ملا، اسی روز نیب لاہور کے حوالے کر دیا۔ پندرہ اگست کو رجسٹرار سپریم کورٹ کو درخواست دی، نیب کی درخواست پرسترہ اگست کو رجسٹرار آفس نے جے آئی ٹی رپورٹ فراہم کی۔گواہ نے مزید بتایا کہ والیم ایک سے والیم نو تک تین سیٹ فراہم کیے گئے، والیم دس کی چار تصدیق شدہ نقول بھی نیب کو فراہم کی گئیں، جو ریکارڈ رجسٹرار آفس سے ملا اسی روز نیب لاہور کے حوالے کیا اور پچیس اگست2017کو نیب کے تفتیشی افسر کے سامنے بیان ریکارڈ کرایا۔جس پر خواجہ حارث نے سوال اٹھایا کہ مروجہ قوانین کے تحت جے آئی ٹی کی کاپیاں تصدیق شدہ نہیں جس پر گواہ شکیل انجم نے کہا کہ تصدیق شدہ دستاویزات پر مہریں دیکھی تھیں، کسی بھی دستاویزات پر تصدیق کنندہ کانام اور تاریخ موجود نہیں تھی۔نواز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ کافی ساری دستاویزات اصل کی بجائے نقول پر تصدیق کی گئیں، جس پر گواہ شکیل انجم نے کہا کہ انہیں نقول پر تصدیق کا علم نہیں۔ خواجہ حارث نے نیب کے گواہ شکیل انجم اور آفاق احمد پر جرح مکمل کی جس کے بعد نواز شریف اور دیگر کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تین جنوری تک ملتوی کردی گئی۔

ای پیپر-دی نیشن