آئینی ترمیم کے بعد پنجاب سے قومی اسمبلی کی 9 نشستیں کم ہو جائیں گی
منگل کو پارلیمنٹ ہائوس میں غیر معمولی سیاسی وغیر سرگرمیاں دیکھنے میں آئیں بالٓاخر سینیٹ نے مردم شماری کے مطابق قومی اسمبلی سے منظور کردہ آئینی ترمیم کو دو تہائی اکثریت سے منظور کر کے جولائی2018ء میں عام انتخابات کے انعقاد کی غیر یقینی صورت حال کو ختم کر دیا جب کہ قومی اسمبلی میں فاٹا اصلاحات بل پیش نہیں کیا جا سکا قومی اسمبلی میں اپوزیشن کا فاٹا اصلاحاتی بل پیش نہ کرنے پر ساتویں روز بھی احتجاج جاری رہا مغرب کی نماز کے بعد پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شاہدہ رحمان نے کورم کی نشاندہی کر دی لیکن کورم پورا نکلا۔ اسے حسن اتفاق کہیے یا کچھ اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ جہاں پوری سینیٹ کی کمیٹی میں رونق افروز ہوئے وہاں انہیں پارلیمنٹیرینز سے براہ راست مکالمہ کرنے کا موقع ملا۔ سینیٹ نے مردم شماری کے عبوری نتائج کے تحت حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم کو دوتہائی سے زائد اکثریت سے منظور کر لیا ہے۔ ترمیم کے حق میں 84ووٹ آئے جبکہ مسلم لیگ (ق) نے مخالفت کی حلقہ بندیوں کی آئینی ترمیم کے بل کی پارلیمینٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت توثیق کریں گے اس ترمیم کے بعد پنجاب کی قومی اسمبلی کی 9 نشستیں کم ہو جائیں گی۔ خیبر پی کے کی نشستوں میں پانچ بلوچستان کی نشستوں میں تین اسلام آباد کی ایک نشست بڑھ جائے گی فاٹا اور سرحد کی نشستیں برقرار رہیں گی، جبکہ سندھ کی موجودہ نشستیں بھی برقرار رہیں گی۔ رواں ہفتے نئی حلقہ بندیوں کے کام کا باقاعدہ آغاز ہو جائے گا مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام (ف) قوم پرست جماعتوں اور فاٹا ارکان نے آئینی ترمیم کی حمایت کی۔ پارلیمنٹ ہاؤس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے آمد کے موقع پر معمول کے مطابق کام ہوتا رہا‘ پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر اور باہر معمول کے مطابق سکیورٹی تعینات تھی ان کیمرہ بریفنگ نام کی تھی بریفنگ کی تمام باتیں پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا تک پہنچ گئیں کچھ باتیں ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور خود ہی بتا دیں۔ قبل ازیں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلا س میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی شرکت کر چکے ہیں اپنے تین سالہ دور کے دوران میاں رضا ربانی نے جمہوریت کے استحکام اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے تاریخی اقدامات اٹھائے ہیں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی بھی سینیٹ سے خطاب کر چکے ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی میں 1985 سے لے کر اب تک صرف قومی اسمبلی کے ارکان ہی اس کے ارکان بن سکتے تھے لیکن میاں رضا ربانی کی کوششوں سے رولز میں ترامیم کر کے سینیٹ کے اراکین کو بھی پبلک اکائونٹس کمیٹی میں نمائندگی دلوائی گئی۔