• news
  • image

حافظ محمد سعید کی محبت کے زمزمے

وہ میرے سامنے ڈرائنگ روم میں تشریف فرما تھے۔مجھے آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ ایک نابغہ روزگار ہستی میرے غریب خانے پر تشریف لائی ہے۔ وہ غازی صلاح الدین ایوبی ، طارق بن زیاد، عقبہ بن نافع، محمود غزنوی، احمد شاہ ابدالی، شہاب الدین غوری ،سلطان محمد فاتح کے قد کاٹھ کا مجاہد۔ بھارت نے ان کے سر کی قیمت مقرر کر رکھی ہے،پاکستان میں ایک مخصوص لابی ان کے خون کی پیاسی ہے، پھر وہ کیسے یوں ویرانے میں میرے پاس چلے آئے۔یہی میری حیرت کا باعث تھا۔

حافظ صاحب بھانپ گئے کہ میں کس شش و پنج میں مبتلا ہوں،فرمانے لگے کہ آپ میری نظر بندی کے دوران دو مرتبہ میری خبر گیری کے لئے آئے ، پھر میری رہائی کی مبارکباددینے کے لئے میرے دفتر بھی آئے، اب مجھ پر واجب تھا کہ میں بھی جوابی سلام کے لئے آتا۔
میںنے کہا کہ آپ سے میں محبت کرتا ہوں ، اس لئے کہ مجھے اپنے مرشد جناب مجید نظامی سے محبت ہے، ان سے اورا ٓپ سے محبت کی وجہ مشترک ہے کہ آپ دونوں کو کشمیریوں سے محبت ہے، ان کا دکھ اپنا دکھ سمجھتے ہیں ، وہ کہتے تھے کہ انہیں ایک ایٹمی میزائل کے ساتھ باندھ کر جموںمیں ہندو فوج کی چھاﺅنی پر داغ دیا جائے۔ اورا ٓپ نے میری ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں انکشاف کیا تھا کہ کارگل کی جنگ میں پہلا راکٹ آپ نے بھارتی فوج پر داغا تھا۔ جس سے انکی صفوں میں ایسی کھلبلی مچی کہ آخر تک ان کے پاﺅںنہ جم سکے ۔وہ اونچی چوٹیوں پر چڑھنے کی کوشش میں کٹتے رہے اور مرتے رہے۔
حافظ صاحب کی آنکھوںمیں جیسے خون اترا ٓیا ہو، کہنے لگے مگر اب ہمارے کشمیری بھائی بے آسرا ہیں اور ہماری طرف دیکھ رہے ہیں مگر ہم ان کی مدد کرنے سے قاصر ہیں ، یہ مشرف صاحب تھے جنہوںنے جہاد کے راستے میںکانٹے بچھائے اورا سے دہشت گردی تسلیم کر لیا ورنہ ہمارے مجاہدین بھارتی فوج کو ہر جگہ للکار سکتے تھے۔ اب تو بھارت کے حوصلے اتنے بلند ہیں کہ وہ کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر بے گناہ شہریوں کو کھیتوںمیں کام کرتے، اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے یا رات کو سوتے میں گولیوں اور گولوں کی باڑھ سے شہید کئے چلے جا رہے ہیں، ہم صرف ان کے جنازے پڑھنے ا ور پڑھانے کے لئے رہ گئے ہیں۔
میںنے عالم وارفتگی میں حافظ صاحب کے ہاتھ چومے ، ان کے ماتھے پر بوسہ دیا، یہ ہاتھ اور یہ ماتھا غازی صلاح الدین کے ہاتھوں اور ماتھے کی طرح دمک رہا تھا۔ان کی آواز میں طارق بن زیاد کی طرح وہ جذبہ انگڑائیاں لے رہا تھا جس نے جبرالٹر کے ساحل پر کشتیاں جلانے کا حکم دے دیا تھا اور کہا تھا کہ ہم یا شہادت پائیں گے یا کامرانی ہمارے قدم چومے گی۔
میںنے ان کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا اور کہا کہ حافظ صاحب ، دشمن توا س قدر شیر اور دلیر ہوچکا ہے کہ ا سنے قبلہ اول کو ہتھیانے کا منصوبہ بنا لیا، امریکہ اس کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے، ہم کون کون سے محاذ پر لڑیں گے اور کس کس کے لئے اپنی تڑپ کاا ظہار کریں گے۔ حافظ صاحب مایوس نہ تھے ، فرمانے لگے ۔ اسرائیل ایک صدی سے اپنے مذموم منصوبے بنا رہا ہے اور بھارت بھی ستر برسوں سے پرے جما رہا ہے، مگر ہمیں بھی اپنے فرض سے غافل نہیں ہونا چاہئے ، وہ ہمیں دہشت گرد کہتا رہے ، ہمیں اس کی پروا نہیں کیونکہ اصل دہشت گرد تووہ خود ہے اور دہشت گردی کی ابتدا بھی اسی کی طرف سے ہوئی ہے، کشمیر پر ہم نے قبضہ نہیں کیا، ہماری فوج یا مجاہدین نے جارحیت نہیں کی، اسی طرح ارض فلسطین میں بھی دنیا بھر کے یہودیوںنے جارحیت ، دھاندلی ا ور دہشت گردی میں پہل کی، ہم تو اپنے دفاع کی کوشش کر رہے ہیں، دفاع کے حق سے اقوام متحدہ کا چارٹر بھی ہمیں نہیں روکتا، ہاں وہ پروپیگنڈے میں آگے ہیں،عالمی میڈیا ان کے زیر اثر ہے اورہمارامیڈیا ابھی ڈالروں کی چمک کے پیچھے بھاگ رہا ہے مگر سبھی ایسے نہیں ہیں، مجید نظامی نے عمر بھر حق و صداقت کی آواز بلند کی اور ان کی پیروی میں ان کا ادارہ اور آپ بھی پیچھے نہیں، میں نے کہا کہ ناچیز کا کیا مقابلہ اس مرد حق گو سے جس کی ایک للکار سے باطل کے درو دیوار دہل جاتے تھے جس کے بڑے بھائی حمید نظامی نوجوانوں کے ایک گروپ کے ساتھ پنجاب میں نکلے اور نعرہ لگایا کہ لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان تو یہ معجزہ ہو گیا۔ مجید نظامی نے جب پاکستان کے ایک حکمران کی کمزوری اور بزدلی دیکھی تو للکار کر کہا کہ دھماکہ نہیںکرو گے تو قوم آپ کی حکومت کا دھماکہ کر دے گی، میرا ان مردان با صفا سے کیا مقابلہ ، یہ تو آپ کی جرات ا ور دلیری ہے کہ ان کے نقش قدم پر ثابت قدم کھڑے ہیں۔
اس اثناءمیں کھانا تیار ہو گیا تھا، حافظ صاحب بے دلی سے ڈائننگ ٹیبل کی طرف بڑھے ، مجھے ایک درجن مرتبہ ان کے ساتھ کھانے کی محفلوں میں شرکت کا موقع ملا ہے مگر کیا مجال کہ و ہ ایک دولقموں سے آگے کچھ لیتے ہوں مگر اب میں دیکھ رہا تھا کہ وہ جی بھر کے کھا رہے تھے۔پوچھتے رہے کہ کیا پکایا ہے، کس نے پکایا ہے، میںنے کہا کہ بس یوں سمجھ لیں کہ یہ خاندانی ریسی پی ہے ، یہ آپ کا گھر ہے جب اس کھانے کی یادا ٓئے تو بلا دھڑک چلے آیئے۔
القدس اور کشمیر کے موضوعات کو چھوڑ کر حافظ صاحب نے تاریخ کے صفحات پلٹنا شروع کر دیئے، قائد اعظم کو زبر دست خراج تحسین پیش کیا ۔ انہیں جدید دور کے مدبر ترین لیڈروں میں شمار کیا، وہ یکا یک سنجیدہ ہو گئے مگر ہماری نئی نسل بانی پاکستان کی زندگی، ان کی جدو جہد اور ان کے عظیم اور لازوال کارناموں سے بے بہرہ ہے اور بالکل غافل، ان کے سامنے کوئی ایسا ذریعہ نہیں جہاں سے قائد اعظم اور بانیان پاکستان پر جامع معلومات دستیاب ہو سکیں، انہوںنے تجویز دی کہ اگر میں اپنی بینائی کی کمزوری کے باوجود محققین کی ا یک ٹیم کی مدد سے بابائے قوم پر تمام معلومات یک جا کر سکوں تو یہ قوم پر ایک احسان عظیم ہو گا، ان کا کہنا تھا کہ جناب مجیدنظامی کاادارہ نظریہ پاکستان اور تحریک کارکنان پاکستان اپنی طرف سے دن رات قوم کی خدمت میںمصروف ہیں، مجید نظامی زندہ ہوتے تو وہ اس کام کی تکمیل کرکے دم لیتے مگر ابھی بہت سا کام باقی ہے اور جس طرح دنیا کی زندہ ا ور مہذب اقوام نے اپنے لیڈروں کے بارے میں انٹرنیٹ پر انسائیکلوپیڈیاز اور پورٹل بنا رکھے ہیں ، اسی طرح ہمیں بھی قائد اعظم اور بانیان پاکستان کی خدمات کا تذکرہ مرتب کر کے یک جا کر دینا چاہئے۔ ہجرت میں لاکھوں خاندان اجڑ گئے، ان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
میں سب سمجھ گیا کہ اصل میں مجھے وہ ایک ایسے مشن پر لگانے کی بات کر رہے ہیں جس کی تان اس ادھورے ایجنڈے پر ٹوٹے گی جو کشمیر کی شکل میں آج بھی ایک ناسور کی شکل اختیار کر چکا ہے، تحریک پاکستان کی قربانیاں ہوں یاتحریک کشمیر کی قربانیاں، ان کو ایک دوسرے سے الگ تو نہیں کیا جاسکتا۔
دیکھئے قدرت ہماری راہنمائی کس طرح کرتی ہے ، یہ پہاڑ جیسا کام ہے مگر ضروری ہے ، میرے مرشد کا بھی یہ ادھورا ایجنڈہ ہے ا ور اگر حافظ سعید کی دعائیں ساتھ ہوں تو ان کے پاس ایک ایسی ٹیم موجود ہے جس کی مدد سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چنداںمشکل نہیں؛
حافظ سعید کے دل میں محبت کے زمزمے کس کس شکل میں پھوٹ رہے ہیں، میں اس پر حیرت میںمبتلا تھا۔
کیا یہ سب کچھ خواب تھا، میرا خیال ہے یہ خواب و خیال ہی کی دنیا تھی ، اس خواب کی تعبیر ملے تو اسے حقیقت مانوں گا۔
٭٭٭٭٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

epaper

ای پیپر-دی نیشن