سیاست کے انداز نرالے
وطن عزیز میں سیاست کے انداز بھی نرالے اور منفرد ہیں۔ کوئی ایک بھی حکومتی رکن اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ دنوں ایک طرف اسلام آباد میں پی پی پی کا یوم تاسیس منایا جا رہا تھا جس میں زرداری صاحب ناچ کر لطف اندوز ہو رہے تھے اور ساتھ ہی نوازشریف کو للکار رہے تھے کہ اب ہم آپ کی جمہوریت کو نہیں بچائیں گے بلکہ اب ہم اپنی جمہوریت لائیں گے۔ ہماری نظر میں تو جمہوریت ایک ہی ہوتی ہے جس کا مطلب عوام کی حکومت عوام پر اور عوام کیلئے ہے جو کہ 70سال میں آج تک پاکستان کے باسیوں کو نصیب نہیں ہو سکی۔ ہاں چند خاندان ضرور حکمرانی کرتے آ رہے ہیں۔ پی پی پی کے یوم تاسیس کے ساتھ سپریم کورٹ میں صاف پانی کیس کی سماعت ہو رہی تھی۔ سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور سابق ناظم مصطفی کمال کو طلب کیا۔ وزیراعلیٰ سندھ کو 20منٹ کی ویڈیو دکھائی گئی، پانی کی گندگی کا یہ عالم کہ پینے والے پانی میں انسانی فضلہ ملا ہوا، مگر یہ سب دیکھ کر مراد علی شاہ پانی پانی ہونے کی بجائے بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ مسکراتے رہے اور باہر آکر بجائے اپنی حکومت کی ناکامی تسلیم کرنے کے فرمانے لگے کہ سیالکوٹ، سرگودھا، لاہور میں بھی ایسا ہی پانی ہے اور فرمانے لگے کہ ہمیں علم ہوتا تو ہم بھی اپنی ’’کارکردگی‘‘ کی ویڈیو بنا کر لے آتے، یعنی سپریم کورٹ جا کر وزیراعلیٰ سندھ کو ذرا بھی شرم محسوس نہ ہوئی۔ ایسی ہی صورتحال سانحہ ماڈل ٹائون کی ہے۔ ساڑھے تین سال قبل اس سانحے میں پی اے ٹی کے 14افراد مارے گئے۔ جسٹس باقر نجفی کمیشن بنایا گیا، اب ساڑھے تین سال بعد ہائیکورٹ کے حکم سے مذکورہ رپورٹ سامنے لائی گئی ہے۔ رانا ثناء اللہ کے بقول رپورٹ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر کچھ نہیں تھا تو ساڑھے تین سال سے دبایا کیوں گیا؟ فرض کریں رپورٹ میں کچھ بھی نہیں تو 14افراد کے قاتل کون ہیں؟ حکومت کو کچھ تو حل تلاش کرنا ہوگا۔ یہ حکومتی ذمہ داری ہے۔ مارے جانے والے غریب لوگ تھے۔ قادری صاحب نے بھی مقتولین کے لواحقین کو انصاف دلانے کیلئے کبھی خلوص سے جدوجہد نہیں کی، جب پاکستان کا چکر لگا۔ آئے واویلا کیا یا پھر کنیٹنر پر کھڑے ہوکر جوشیلی تقریریںکیں اور پھر اچانک واپس چلے گئے۔14لاشوں پر آج تک ’’سیاست‘‘ ہو رہی ہے۔ زرداری، شیخ رشید، عمران خاں، مصطفی کمال، ق لیگ والوں کا اب قادری صاحب سے مل کر ساتھ دینے کی باتیں کرنا صرف ’’شعبدہ بازی‘‘ ہے جب یہ واقعہ رونما ہوا تب یہ سارے’’ہمدرد‘‘ کہاں روپوش تھے اور کیوں خاموش تھے؟ اب 14لاشوں کی آڑ میں قادری صاحب سمیت سبھی ذاتی مفادات حاصل کرنے کے متمنی ہیں، پنجاب حکومت کو معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا، کچھ بھی ہو جائے تاکہ حقائق سامنے آسکیں‘ قاتلوں کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔ کسی ایک فرد کی خوشنودی کیلئے خاموش رہنا دانشمندی نہیں۔ بدقسمتی ہے کہ حلف نامے میں ختم نبوت کی شق سے چھیڑ خانی بھی سامنے آ گئی۔ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ تھا۔ قیام پاکستان کی بنیادوں کو ہلا دینے والا مسئلہ تھا۔ ختم نبوت ہر ایک مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا’’محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں مگر وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ؐ ہیں‘‘ خاتم النبین ؐ نے کئی مواقع پر اس حقیقت کی وضاحت فرمائی کہ’’ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں‘‘ دینی حلقوں کے احتجاج پر حکومت نے پہلے والے حلف نامے کو اصلی شکل میں بحال کردیا مگر پھربھی اسلام آباد کی طرف مارچ شروع کردیا گیا۔19روز فیض آباد میں دھرنا جاری رہا وہاں بھی دین کے نام پر اپنی اپنی سیاست چمکائی گئی۔
حکومتی وزراء نے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ ایسے اعلانات حکومت کی طرف سے کئی بار پہلے بھی سامنے آ چکے ہیں۔ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے اعلانات سابق وزیر لوڈشیڈنگ حکومتی ’’بزرگ‘‘ سیاستدان خواجہ آصف شدید سردی یا پھر شدید بارشوں کے موسم میں کرتے رہے ہیں۔ حکومت نے یہ اعلان کرکے ’’ذاتی مفاد‘‘ اور عوام کی طرف سے ’’داد‘‘ وصول کرنا ضروری سمجھا، اصل صورتحال تو اگلے سال اپریل میں واضح ہوگی کہ لوڈشیڈنگ کا جن بوتل میں بند ہوا ہے کہ نہیں، عوام کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں۔ ہاں اخبارات میں اشتہارات کی شکل میں حکومت کی طرف سے ’’ترقی‘‘ کے دعوے ضرور سامنے آئے ہیں۔سال2017ء کا سورج غروب ہونے کو ہے۔ کرپشن کا راج ہے جب ایک کرپٹ کو پکڑا جاتا ہے تو وہ اپنی اصلاح کرنے کی بجائے دوسروں کی نشاندہی کرتا ہے کہ انہیں کیوں نہیں پکڑا گیا۔ الیکشن ہونے والے ہیں حکومت سے سیاسی پارٹیوں کے جائز مطالبات کی ’’بھرمار‘‘ ہے۔ اب اگلا آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ سیاست کا منظر نامہ کیسے بدلتا ہے؟ حکومت کو ہر مسئلہ سنجیدگی برد باری اور تحمل سے حل کرنا ہوگا اور ذاتی انا کی بجائے صرف ملکی مفاد کو پیش نظر رکھ کر۔