حوصلہ اے جرأت اظہار پھر…!
ذرا تین فروری 1997ء کا زمانہ یاد کریں جب یہ سوال سامنے تھا کہ کیا عام انتخابات میں مقابلہ بدعنوان سیاست دانوں کے دو دھڑوں کے درمیان ہوں گے؟ کیا عام انتخابات پرانے بدقماش لوگوں کے درمیان میں ہو گا جنہوں نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور ملک کا دیوالیہ نکالا؟ یا پھر سے کوئی تازہ پاپولر مینڈیٹ لینے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اس کے بل بوتے پر اقتدار میں رہا جا سکے اور یہ صورتحال فاروق لغاری کی پانچ نومبر کو اپنے اختیارات بحیثیت صدر مملکت استعمال کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم کرنے کے بعد کی تھی اور فاروق لغاری کوئی ’’فوجی‘‘ شخص نہیں تھے بلکہ پیپلز پارٹی کے ہی پرانے مخلص اور سرگرم کارکن تھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے فاتح لوگ آخر حکمرانی میں آ کر ایسا کیا کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے اپنے ہی پرانے سیاسی وفادار بھی فاروق لغاری بن جاتے ہیں؟ ذرا اس وقت کے صدر مملکت کے الفاظ دیکھیں جو وہ روئیداد خان سے کہتے ہیں۔
’’میں نے وزیراعظم (بے نظیر صاحبہ) کو بار بار سمجھایا ہے کہ آپ کی حکومت میں بے ایمانی، بدعنوانی اور رشوت ستانی کا دور دورہ ہے اور یہ زہر دور در تک پھیل چکا ہے۔ فوراً اس کا سدباب کیجئے۔ ملکی معیشت کی بہتری کی طرف توجہ کیجئے کیونکہ معاشی بدنظمی یونہی رہی تو ملک سنگین مالیاتی بحران کا شکار ہو جائے گا‘‘۔ اور یہ فکر ملک کے صدر کی تھی۔ سوچنے کی بات یہ تھی کہ سابق صدر فاروق لغاری نے کس مقصد کے تحت اپنی ہی لیڈر کے خلاف فیصلہ لیا تھا؟ وہ یقیناً بے ایمانی، بدعنوانی اور اقربا پروری اور رشوت ستانی ہی تھا اور جس کے نتیجے میں ملک بدحال ہو رہا تھا لیکن اس کے بعد ہی 17 فروری 1992ء کو نواز شریف نے عہدے کا حلف اٹھایا تو ان سے توقعات کیا تھیں اور کیا انہوں نے کوئی کردار ادا کیا؟ کیونکہ فاروق لغاری کے اقدام اور نواز شریف کے اقتدار میں آنے کے درمیان نگران حکومت ملک معراج خالد کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی اور اس نگران حکومت کا ایجنڈا دو نکاتی تھا۔ پہلا انتخابات کروانا اور دوسرا احتساب کرے کے اقدامات اور پالیسی پر غور کرنا۔ بدقسمتی سے احتساب کے معاملے میں نگران حکومت بری طرح ناکام ہوئی اور انتخابات منعقد ہو گئے اور نواز شریف وزیراعظم بن گئے مگر اسی موقع پر فاروق لغاری کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا تھا کہ جس وجہ سے حکومت گرائی گئی اور جن وجوہات کی بنا پر بے وفائی کا طوق گلے میں پہنا تھا وہ تو جوں کی توں رہی تھیں اور فاروق لغاری کی ساکھ سے بھی بڑھ کر اس ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا اور جس کے نتائج آج تک دیکھے جا سکتے ہیں یوں طویل عرصہ تک ملک میں بدعنوان لوگ ہی آمنے سامنے آ کر اقتدار کے حصول میں شامل رہے۔ اسی زمانے کی ملک معراج خالد کی نگران حکومت نے ’’احتساب آرڈیننس‘‘ بھی جاری کیا تھا جو کہ عملی طور پر ناکام رہا تھا۔ اب نواز شریف وزیراعظم بن کر ان امور پر کام کرنے کی بجائے کہ جس کی وجہ سے ماضی کی حکومت ٹوٹی تھی انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ آئین کی دفعہ 58 شق (2) کی ذیلی شق (ب) کو منسوخ کر دیا۔ اسی شق کے تحت صدر مملکت کو اسمبلیاں توڑنے اور مسلح افواج کے سربراہ مقرر کرنے کے اختیارات تھے۔ بظاہر تو مارشل لاء اور آمریت کے راستے بند کر کے جشن منایا گیا مگر چونکہ ہمارے ہاں قائداعظم جیسے لیڈر نہیں تھے لہٰذا ملک میں مطلق العنان جمہوریت کی ابتدا ہو گئی جبکہ احتساب کا عمل بھی ادھورا تھا۔ ان حالات میں انتخابات تو ہوتے رہے مگر احتساب کا عمل کہیں سرد خانے میں پڑا رہ گیا۔ لیکن اسی دوران بے چاری عوام سیاست دانوں اور اس جمہوری نظام میں جمہور کے خالی ہاتھ رہ جانے پر افسردہ ہی رہی اور ملک ایسی صورتحال میں رہا کہ اس میں بہتری یا اصلاح کی گنجائش نہیں دکھائی دیتی رہی اور اداروں کی تباہ حالی، معیشت کی بدحالی کے بعد ملک اور اس کا سسٹم کسی کھائی میں گرتا ہوا محسوس ہو رہا تھا جبکہ چند افراد امیر سے امیر تر اور طاقتور ہوتے چلے گئے۔ امریکی وزیر خارجہ روبن رافیل نے ایک مرتبہ پاکستان میں بحث کرتے ہوئے کہا تھا ’’پاکستان میں مقننہ صحیح طور پر اپنے فرائض سرانجام نہیں دے پا رہی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ حکومت ہٹانے کی سکت نہیں رکھتی‘‘ اور روبن رافیل کا یہ تجزیہ بھی کافی پہلے کا ہے۔ آج عدلیہ اور افواج پر باتیں کی جاتی ہیں اور احتساب کا عمل محض انتخابات پسند کرنے والوں کو برا محسوس ہو رہا ہے جبکہ ملک کو کمزور کرنے والے دنیا کے طاقتور افراد میں نام لکھوا رہے ہیں ساری دنیا میں ان کے کاروبار ہیں مگر ملک کا کاروبار چلتا نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ نواز شریف ماضی میں پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے کی بات کرتے رہے اور خود ٹائیگر بن گئے جبکہ چین، کوریا اور تائیوان جیسے ٹائیگر ملکوں میں جمہوریت کا پھل تب عوام تک پہنچا جب وہاں سالانہ فی کس آمدنی چھ ہزار امریکی ڈالر سے زیادہ ہو گئی۔ چین میں معاشی ترقی ہوئی تو صحیح طور پر جمہوریت نے جنم لیا اور یہ معاشی ترقی سائنسدانوں، وڈیروں، حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کی نہیں بلکہ ایک عام آدمی کی اور عوام کی ہے۔ پاکستان میں جمہوریت تبھی پھل پھول سکتی ہے جب یہاں کا کلچر جمہوری ہو گا۔ اب چین، کوریا اور تائیوان پر پھر سے ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ان کے بااختیار مگر باغیرت حکمرانوں نے ان ممالک کو مفلسی سے نکالا اور ترقی کے راستے پر ڈالا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کے حکمرانوں نے خوشحال پاکستان کو انڈسٹری میں تبدیل کر کے وڈیرہ کلچر کو فروغ دیا اور آلو، ٹماٹر، گندم باہر سے منگوانے لگے اور حکمرانی اور غلامی کے کلچر کو متعارف کروایا۔ بے شک آمریت اس ملک میں نہیں ہونی چاہئے مگر مطلق العنان جمہوریت کو بھی بہتر ہونا چاہئے۔ اب ہمیں صاف ستھری سیاست کا آغاز کرنے کیلئے کرپشن اور کرپٹ مافیا سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔ احتساب کا عمل آج سے پہلے غریبوں کیلئے تھا اب حکمرانوں کے لئے بھی ہے لیکن معراج خالد کی نگران حکومت کی طرح احتساب کا مرحلہ اب ناکام نہیں ہونا چاہئے ورنہ 1997ء کے بعد 2017ء اور پھر 23 سال بعد یعنی 2040ء کے آس پاس بھی یہی رونا قوم رو رہی ہو گی جو اب رو رہی ہے۔احتساب کا عمل بغیر کسی دبائو کے آگے بڑھنا چاہئے تاکہ ملک کو ٹائیگر بنایا جا سکے نہ کہ طاقتور افراد کو… مرتضیٰ برلاس کا شعر …؎
حوصلہ اے جرأت اظہار پھر
آزمائش ہے تری اک بار پھر!!