مضبوط دفاع۔ دیوار چین یا سیاسی میچورٹی
نہ جانے یہ خطے کی مٹی کے اثرات ہیں یا سیاسی میچورٹی میں صدیوں کی کمی کیونکہ ہم سیاست کے بڑے فیصلے اور تجزیئے بھی منطق کی بجائے جذبات پر کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پاکستان کے حوالے سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کچھ ایسے اقدامات نظر آئے جن کے اثرات کو خاطر میں نہ لانا یا جذباتی ردعمل دینا کسی اور بڑی غلطی کا سبب ہوسکتا ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا۔ اس میں انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کرنا ہوگی۔ واشنگٹن پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ ہم ایسا پاکستان چاہتے ہیں جو افغانستان کو عدم استحکام کا شکار نہ کرے‘‘۔ ٹرمپ کے اِس بیان کو ڈی کوڈ کرنے سے پہلے اُن کے لہجے پر نظر ڈالی جائے تو وہ بگ باس کا لہجہ تھا۔ یوں لگتا تھا کہ ٹرمپ اپنے کسی ماتحت کو حکم دے رہے ہیں۔ اگر یہ سوچا جائے کہ بدتہذیبی اور رعونت ٹرمپ کے مزاج کا خاصہ ہے اور اِس بیان کو بھی اُن کے مزاج کے حوالے سے دیکھ لینا کافی ہوگا تو یہ ٹرمپ سے زیادہ ہماری خام خیالی ہوگی کیونکہ پالیسی بیان کا لب و لہجہ شخصی مزاج کی خامیوں سے ہٹ کر بہت سوچ سمجھ کر تحریر کیا جاتا ہے۔ امریکی صدر کا آفیشل پالیسی بیان عملی اقدامات سے جڑا ہوتا ہے۔ اس دلیل کے ثبوت کے لئے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کا وہ بیان بھی پیش ہے جو انہوں نے امریکی صدر کے مذکورہ پالیسی بیان سے چند دن پہلے دیا۔ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ ’’اگر پاکستان نے اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے اثر کو نہ روکا تو پاکستان اپنا کوئی علاقہ کھو سکتا ہے‘‘۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ کے نزدیک پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردوں کی تشریح پاکستان کی تشریح سے مختلف ہے۔ بیشک ہم ڈرکر امریکہ کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑے نہیں ہوسکتے لیکن اس پر ضرور غور کرنا ہوگا کہ چنگھاڑتے ٹرمپ کے قدموں کو اپنی طرف بڑھنے سے کیسے روکا جائے؟ ملک کے عملی دفاع کی ذمہ داری پاک فوج پر ہے جو اِسے بخوبی نبھا رہی ہے لیکن عوام میں دفاع کا مورال بلند کرنے کی ذمہ داری سیاسی رہنمائوں پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔ عوام میں کسی بھی غیرملکی جارحیت کا جواب دینے کے حوالے سے جو خوداعتمادی موجود ہے اُس کی وجہ صرف پاک فوج ہے۔ سیاست دان ملکی دفاع کے حوالے سے اِکا دُکا بیانات کے بعد پھر سے اقتدار کی کھینچاتانی میں لگ جاتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت خطے میں امریکہ کا مضبوط کندھا بن رہا ہے۔ بھارت کے سیاست دان دھرنوں، ہڑتالوں اور احتجاجوں کے بغیر سیاست کررہے ہیں۔ اس بات کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ جس ملک میں سیاست ہموار فلائٹ پر ہوگی وہاں کی فوج اپنا کام پوری توجہ سے کرسکے گی۔ ہمارے ہاں پچھلے چند برسوں کے سیاسی ماحول میں بے حد بدامنی کے باوجود پاک فوج کا بہترین پیشہ ورانہ نتائج دینا اُن کی غیرمعمولی صلاحیتوں کا مظہر ہے لیکن ایسے سیاسی حالات کو مسلسل جاری رکھ کر بھرپور دفاع کی آرزو کرنا کھیلنے کے لئے چاند مانگنے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے دوسرا اقدام وزیر داخلہ احسن اقبال کا وہ انکشاف ہے جس کے مطابق آئندہ پاکستان میں چینی کرنسی کا بھی وہی سٹیٹس ہوگا جو امریکی ڈالر کا ہے۔ چین پاکستان میں سی پیک اور دوسرے پراجیکٹس میں بہت بڑی انویسٹمنٹ کررہا ہے۔ چینی کرنسی کا پاکستان میں متعارف ہونا فائنانشل لائن پر ایک بہت بڑی شفٹ ہوگا۔ یعنی پاکستان امریکی ڈالر سے چینی کرنسی کی طرف جائے گا۔ یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ امریکہ اپنی کرنسی کے لئے اس حد تک حساس ہے کہ اُس نے پوری عرب دنیا سے یہ معاہدہ کررکھا ہے کہ تیل کی تمام تر خریدو فروخت امریکی ڈالر میں ہی ہوگی۔ سابق عراقی صدر صدام حسین پر امریکی مفادات سے غداری کے جو الزامات تھے اُن میں ایک یہ بھی تھا کہ صدام حسین نے امریکی ڈالر کی جگہ اپنی کرنسی میں ٹریڈنگ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ہمیں امریکی پنجوں سے نجات حاصل کرنی چاہئے لیکن آزادی کی اس کوشش میں کسی دوسرے کی گرفت میں جانا کیا دانشمندی ہوگی؟ پاکستان کا خطہ چین کے لئے ایک گیٹ وے ہے جس کے ذریعے وہ پوری دنیا پر معاشی حکمرانی کرے گا۔ کیا پاکستان اِس گیٹ وے کی اہمیت کو جتلاتے ہوئے چین سے ایسے معاہدے نہیں کرسکتا جو مکمل طور پر پاکستان کے لئے ہوں؟ جن میں سے ایک چین سے پاکستان کی تمام ٹریڈنگ چینی کرنسی کی بجائے پاکستانی کرنسی میں ہو۔ اس طرح پاکستانی روپے کی قدر میں بے پناہ مضبوطی ہوسکتی ہے۔ چین اپنی کرنسی کی ٹریڈنگ کی شرط پاکستانی حدود سے باہر دوسرے ممالک کے ساتھ رکھ کر بھی اپنی کرنسی کو ڈالر کے مقابلے میں لاسکتا ہے۔ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے تیسرا اہم قدم گزشتہ دنوں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سینیٹ کو اِن کیمرہ بریفنگ ہے۔ ملکی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے سیاسی قیادت کو پوری طرح آن بورڈ لیا ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’سیاست دان دفاع اور خارجہ پالیسیاں بنائیں، پاک فوج اُن پر عمل کرے گی‘‘۔ جنرل باجوہ اس سے زیادہ جمہوریت اور پارلیمنٹ پراعتماد کیسے ظاہر کرتے؟ پاکستان کے حوالے سے مذکورہ تینوں حساس معاملات یعنی ٹرمپ کی پالیسی، چینی کرنسی کی پاکستان میں آمد اور جنرل باجوہ کا جمہوریت اور پارلیمنٹ پر اعتماد ہماری سیاسی قیادت کے نازک ترین امتحانات ہیں جن میں غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ ’’قبل مسیح کے چینی لوگوں نے اپنی حفاظت کے لئے دیوارِ چین بنائی۔ ان کا خیال تھا کہ اب وہ دشمن کے حملوں سے محفوظ ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دیوارِ چین بننے کے بعد بھی چین پر حملے ہوئے اور اسے تباہ وبرباد کیا گیا۔ محققین حیران تھے کہ دشمن دیوارِ چین پر چڑھ کر شہر میں اتر نہیں سکتے تھے پھر وہ شہر پر حملہ آور کیسے ہوئے؟ معاملے کی چھان بین سے پتہ چلا کہ دشمن نے دیوارِ چین کو کراس کرنے کی بجائے شہر کے اندر سیاسی افراتفری پھیلائی اور ناعاقبت اندیش رہنما دشمن کے لئے اِن ڈائریکٹ سہولت کار ثابت ہوئے۔ گویا چاند سے نظر آنے والی دیوارِ چین بھی چین کو محفوظ نہ رکھ سکی جب تک کہ چینی لوگوں نے اپنے اندر کے ناعاقبت اندیش مفاد پرست سیاسی رہنمائوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کیا‘‘۔ تاریخی حقائق گواہ ہیں کہ پاکستان 1971ء میں بھی سیاسی مفادات کی کھینچا تانی کا شکار ہوا مگر سیاست دان اس کی مکمل ذمہ داری فوج اور انٹرنیشنل سازش پر ڈال کر خودکو معصوم قرار دے چکے ہیں۔