• news
  • image

’’بالا دستی‘‘

’’جمہوریت کو فوج سے خطرہ نہیں‘‘۔ آرمی چیف۔ ایک مرتبہ نہیں۔ سینکڑوں مواقع پر یقین دہانیاں کروائیں۔ کبھی بلا واسطہ کبھی بلواسطہ مگر یقین نہ کر کے دیا۔ پھر ’’لاپتہ‘‘ بیان تاریخی آمد کا باعث بن گیا ۔ پاکستانی تاریخ کا بے حد اہم دن۔ یقینا اہم دن۔ سیاستدانوں کو نہیں بُھولنا چاہیے کہ ہماری تاریخ کا وہ ’’دن‘‘ بھی حصہ ہیں جب صرف ایک ٹرک ’’اعلیٰ ایوانوں‘‘ کو گھر بجھوا دیتا تھا اب بجھوانے والوں کا ’’سپہ سالار‘‘ خود منتخب ایوان کو عزت بخشنے آپہنچا۔ مدلل بیان تھا۔ اب گیند سیاست کی کورٹ میں ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ گیند کو کک کِس طرف لگائی جائے گی؟ بے بنیاد الزام تراشی کی جھوٹی، من گھڑت داستانیں تحریر کرنے، چھاپنے والوں کو خود سے رجوع کر لینا چاہیے اِن الفاظ کے بعد کہ ’’پارلیمان ہی سب کچھ ہے‘‘۔ ماضی کے مدفن کو دہرانے کا فائدہ نہیں کیونکہ گزرے وقت میں ’’اہل سیاست‘‘ کا گلی سڑی روایات میں معتدبہ نمایاں حصہ۔ کردار ہے۔ اداروں کو رگیدنے اور نشانہ بنانے سے سوائے کمزوری‘ پچھتاوے کے کچھ ہاتھ نہیں آنے والا۔ حکومت کا جو کام ہے وہ سرانجام دے ۔ فرائض سے کوتاہی۔ غفلت کا مظاہرہ کیوں؟ جب دل بھر کر رشوت لینے۔ کمیشن کھانے۔ غیر ملکی کرنسی میں بیرون ممالک اکائونٹس کُھلوانے کی اجازت ہے۔ آزادی ہے۔ روک ٹوک نہیں تو پھر عوام کے مسائل حل کرنے میں کونسے پہاڑ حائل ہیں۔ حکومت کو ’’اہل سیاست‘‘ کو اُس براہ راست پیغام کی صداقت پر اعتبار کرنا پڑے گا کہ ’’فوج‘‘ کِسی بھی سازش میں شریک نہیں۔ 

مزید براںپالیسی بنانا حکومت کا کام ہے۔ عمل درآمد کی غیر مشروط رضامندی۔ آمادگی کے عزم کا بہرحال احترام کیا جانا چاہیے۔ احترام تو اُس مثبت اقدام کا بھی کیا جانا چاہیے کہ معزز چیف جسٹس نے از خود عوامی بھلائی کے مراکز کے دورے کا آغاز کیا۔ جب کہا جاتا ہے کہ حکومتیں ذِمہ داری پوری نہیں کر رہیں تو کوئی بے بنیاد الفاظ نہیں ہوتے۔ پس منظر میں لاکھوں کا ڈھیر پڑی وہ عوامی شکایات ہیں جو سماعت کے لیے لگ چُکی ہیں یا پھر شنوائی کی منتظر فہرست میں اپنا نمبر لگنے کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ سندھ۔ پنجاب میں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ اِس مد میں اربوں روپے پھینکے جا چُکے ہیں۔ اب کہاں پھینکے؟ یہ سب جانتے ہیں۔ سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے کہ کِسی نے تو بلکتے بچوں۔ تباہ حال قوم کی دادرسی کرنی تھی۔ جب کوئی اپنی ذِمہ داری نبھانے سے یکسر انکاری ہو جائے تو کِسی نے تو آگے قدم بڑھانا تھا۔ اب جب سلامتی دائو پر لگ چکی ہے تو پھر بھی اصل فرائض پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے وہی روایتی گھسی پٹی باتیں۔ الزامات کا طومار۔ من گھڑت کہانیاں۔ افسانے۔ یہ نہیں دیکھتے کہ مفت کے نام پر لُوٹ مار۔ جدھر بھی رُخ کرو۔ ذِمہ دار غیر حاضر جب حکومت ہی غیرحاضر ہو جائے تو اہلکاروں کی تو چاندی ہو جاتی ہے۔ ہر دھماکہ کے بعد چھتوں تک سکیورٹی۔ اِس سے قبل قصداً غفلت۔ ہر محکمہ۔ہر بھرتی میں اقربا پروری۔ سفارش۔ ذاتی پسند۔ تو عرصہ دراز سے دفن ہو چکی۔ اِس کی جگہ اب ذاتی وفاداری۔دربار سے وابستگی ترجیح اول قرار پاتی ہے۔ سڑکوں پر آئے دن احتجاج آخرکیوں؟ کیونکہ لوگوں کو اُن کی منتخب حکومت حقوق دینے سے انکاری ہے۔ ملازمین کو بر وقت تنخواہیں نہیں مل پاتیں۔ کسانوں کو صرف احتجاج کی صورت وقتی منظوری پر ٹرخا دینا عام چلن بن چُکا ہے۔ رشوت ہر بند دروازے کو کھول دینے پر قادر ہے چاہے ٹنوں لوہے کے وزن سے بنا ہو۔ سونے کے پانی سے لکھے الفاظ تھے کہ سیاسی کچرے سے جان چھوٹے تو باقی مقدمے بھی دیکھیں گے۔ فوج اور عدلیہ ہی فی الوقت قوم کی آخری امید ہیں ۔ صرف ایک نہیں دونوںقوم کے ’’بابے‘‘ ہیں اور ذہن میں بٹھالیں کوئی ’’بابوں‘‘ کو دُشنام نہیں دیتا۔ باز نہ آنے والا پھر اپنی زبان کے زخم خود چاٹتا ہے ۔
بالادستی کے الزام میں کوئی حقیقت نہیں۔ ہاں قانون کی بالادستی کے دعووں میں رتی بھر سچائی نہیں۔ عمران اور نواز شریف کے معاملات میں انصاف کے الگ الگ پیمانوں والی بات بھی 100 فیصد دروغ گوئی ہے ۔ کون کہتا ہے کہ قانون پر عمل نہیں ہوتا۔ ہوتا ہے جی ہوتا ہے لاہور میں 4 سالہ بچے پر جواء کھیلنے اور ہوائی فائرنگ کا مقدمہ درج۔ فیصل آباد میں دولھا کی گاڑی سے پھول توڑنے پر باراتی نے 7 سالہ بچہ قتل کر دیا۔ قارئین قانون کی بالادستی ہے اُن طبقات پر جو اختیار قوت۔ پیسے سے محروم ہیں حتیٰ کہ عزت سے بھی جبکہ کھربوں روپے کمانے والے جہازوں سے اُتر نہیں رہے اور وادیلا مچا رہے ہیں کہ قانون میں تفریق برداشت نہیں کریں گے۔ ہر شہر میں تقاریب اور جلسوں میں قانون کی دھجیاں اُڑانے کے مناظر دیکھتے رہتے ہیں۔ نوٹس کی خبر ضرور نشر ہوتی ہے مگر گرفت کا ٹِکر چلتے نہیں دیکھا کبھی کوئی دانہ پکڑا جائے تو وہی سفارش چُھڑوا لیتی ہے۔
سندھ ہائیکورٹ کے ریمارکس ملا خطہ فرمائیں ’’ملک لوٹ کر کھانے والے کہتے ہیں کچھ نہیں کیا‘‘۔ کرنا بھی کچھ نہیں صرف بالادستی مقصود ہے من مانے احکامات کی۔ پسندیدہ اقدامات کی۔ بالادستی تو بالکل واضح ہے غریبوں اور اُن کے بچوں کے معاملہ میں جبکہ ’’اشرافیہ‘‘ تو صرف ایک ہی تمنا رکھتی ہے کہ ہمیں نہ چھیڑو۔ ہم سے نہ پوچھو۔ پوچھنے پر اتنا غلغلہ۔ شور۔کبھی نہ ختم ہونے والے پروٹوکول کے باوجود۔ اگر واقعی پکڑے گئے تو پھر؟

epaper

ای پیپر-دی نیشن