گجرات میں جیت…اچھے دن کس کے شروع؟
چند روز پہلے بھارتی صوبے گجرات کے انتخابی نتائج آئے اس بارے میں تفصیلی تجزیے سے قبل غالباً یہ مناسب ہو گا کہ انڈین گجرات کی ساخت پر ایک طائرانہ نگاہ ڈال لی جائے۔ وطن عزیز میں شاید زیادہ لوگوں کے علم میں یہ بات نہ ہو کہ قیام پاکستان سے قبل موجودہ مہاراشٹر، بمبئی پریزیڈنسی کے نام سے موسوم تھا اور 1947 کے بعد گجرات کوبمبئی پریزیڈنسی میں شامل کر لیا گیا تھا۔ قیام بھارت کے بعد بھارت کے اکثر علاقوں میں صوبوں کی لسانی بنیادوں پر تقسیم کا مطالبہ بتدریج زور پکڑتا گیا۔ اس ضمن میں1953 میں اس مقصد کے لئے صوبوں کی نئی سرے سے حد بندی کے لئے کمیشن بنایا گیا اور اس کی بنیاد پر 14 صوبے اور نو وفاقی علاقے تشکیل دیے گئے۔اس تقسیم کے تحت گجرات بمبئی صوبے میں شامل تھا۔
اس کے بعد 1960 میں ممبئی صوبے کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا اور یوں گجرات نام سے نیا صوبہ معرض وجود میں آیا۔گجرات میں پہلی بار 1960 میں صوبائی اسمبلی انتخابات کرائے گئے جن میں 132 نشستوں میں سے 112 پر کانگرس جیتی۔گجرات کے پہلے وزیر اعلیٰ کے طور پر ’’جیو راج نارائن مہتا‘‘ ایک مئی1960 سے 18 ستمبر 1963 تک خدمات انجام دیتے رہے۔ 1960 سے لے کر 1975 تک کانگرس ہی گجرات میں حکومت میں رہی۔ جیو راج نارائن کے بعد بلونت رائے مہتا دوسرے وزیر اعلیٰ بنے اور وہ 19 ستمبر 1965 تک تا دم مرگ اس منصب پر فائز رہے۔ پھر ’’جتندر ڈیسائی‘‘ نے وزیراعلیٰ کا منصب سنبھالا۔ واضح رہے کہ اسی دوران گجرات میں پہلی بار بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات ہوئے۔
ان کے بعد گھنشیام اوجھا نے گجرات کی حکومت سنبھالی مگر کانگرس نے انھیں ہٹا کر ’’چمن بھائی پٹیل‘‘ کو اس عہدے پر فائز کر دیا۔ لیکن انھیں بھی تقریباً 200 دنوں بعد احتجاجی تحریک کے نتیجے میں گھر جانا پڑا۔ گجرات اسمبلی تحلیل ہوئی اور پھر انتخابات میں بھارتی جن سنگھ (موجودہ بی جے پی) چند دوسری جماعتوں کے اتحاد سے برسراقتدار آ گئی۔ یوں ’’بابو بھائی پٹیل‘‘ گجرات کے پہلے غیر کانگرسی وزیراعلیٰ تھے۔ بعد ازاں اندرا کی نافذ کردہ ایمرجنسی کے بعد ’’مادھو سنگھ سولنکی‘‘ گجرات کے سیاسی افق پر نمایاں ہوئے۔ 1980 میں جنتا پارٹی کی سرکار گرنے کے بعد ’’مادھو سنگھ سولنکی‘‘ وزیراعلیٰ بنے۔ گجرات میں ایک بار پھر فسادات بھڑکے اور انھیں 1985 میں استعفیٰ دینا پڑا۔ مادھو سنگھ سولنکی ہی کی قیادت میں کانگرس نے گجرات میں 1985 کے انتخابات میں 149 سیٹیں حاصل کیں جو ابھی تک گجرات اسمبلی میں سب سے زیادہ حاصل کی گئی سیٹوں کا ریکارڈ ہے۔
اس کے بعد 1990 کا گجرات الیکشن جنتا دل اور بی جے پی مل کر لڑے۔ جنتا دل کی قیادت چمن بھائی پٹیل جبکہ بی جے پی کی باگیں کیشو بھائی کے ہاتھ میں تھیں۔ یوں 1990 میں کانگرس کی ہار ہوئی اور جنتا دل اور بی جے پی کی مخلوط حکومت بنی۔ بعد ازاں بابری مسجد کی شہادت کے معاملے پر بی جے پی اور جنتا دل کے راستے الگ ہو گئے ۔
اس کے بعد 1995 کے چنائو میں 182 میں سے 121 سیٹیں لے کر بی جے پی مکمل طور پر اقتدار کی مالک بن گئی اور کیشو بھائی وزیر اعلیٰ بنے لیکن 2001 میں آنے والے گجرات میں بدترین زلزلے اور کیشو بھائی کی گرتی مقبولیت کے نتیجے میں گجرات کی سیاست نریندر مودی وارد ہوئے۔ اور پھر 2002 کے اوائل میںگجرات میں جس بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات ہوئے وہ بھارتی تاریخ کا ایک اور سیاہ باب ہے۔
2014 میں مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد آنندی بہن پٹیل گجرات کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ بنیں لیکن ان کا عرصہ پورا ہونے سے پیشتر ہی ’’وجے روپانی‘‘ کو یہ منصب سونپ دیا گیا۔ اس کے بعد چند دن پہلے 18 دسمبر کے انتخابی نتائج میں گجرات میں بی جے نے 99 اور کانگرس نے 77 سیٹیں حاصل کیں جبکہ دیگر جماعتوں کو 6 نشستیں ملیں۔ اکثر مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ گجرات کے نتائج سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ گجرات میں BJP کی واپسی کا سفر اور راہول گاندھی کی قیادت میں کانگرس کے اچھے دن شروع ہو چکے ہیں جس کے اثرات پاکستان کی داخلی سیاست کو بھی مزید متاثر کر سکتے ہیں کیونکہ عملی طور پر کانگرس نے BJP کی پیروی کرتے ہوئے ’’سافٹ ہندوتوا‘‘ کی پالیسی اپنا لی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ وطن عزیز کے متعلقہ حلقے اس صورتحال کے تناظر میں موثر حکمت عملی اپنائیں گے۔