پارلیمنٹ کی بالا تری میں فوج کا کردار
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے گزشتہ منگل کو سینٹ میں بریفنگ کے دوران جمہوریت کے حوالے سے جن خیالات کا اظہار کیا وہ بہت خوش آئند ہیں۔ شاید ہی ملک میں کوئی ایسا فرد ہو جس نے اس بریفنگ کو پسند نہ کیا ہو۔ یہ آرمی چیف کا بڑا بروقت اور دانشمندانہ اقدام تھا کیونکہ پچھلے کچھ مہینوں سے ملک مسلسل چہ مگوئیوں اور شکوک و شبہات کی زد میں تھا۔ جانے انجانے میں سب لوگ وزیراعظم کی نااہلی سے لے کر عمران خان کی بریت تک مختلف اداروں کو ملوث کر رہے تھے۔
فوج اور حکومت کا آمنے سامنے آجانا نہ ملکی مفاد میں ہے اور نہ ہی جمہوریت کے حوالے سے بہتر ہے۔ ماضی میں حکومت اور فوج کے درمیان جو بھی حالات رہے ہوں لیکن قمر جاوید باجوہ کی اس بریفنگ کے بعد یہ بات صاف طور پر کہی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں جمہوریت کا تسلسل برقرار رہے گا۔ تمام ادارے اپنی آئینی حدود کے مطابق کام کریں گے اور ریاست کو مضبوط تر بنائیں گے۔ یہ بریفنگ صرف سینٹ کے کمرے میں خوشیاں لے کر نہیں آئی بلکہ پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں کے لئے ایک امید کا سورج بن کر طلوع ہوئی۔ پارلیمنٹ ہائوس میں آرمی چیف کی آمد اور بریفنگ کو دنیا بھر میں بہت مثبت انداز میں دیکھا جا رہا ہے اور وہی لوگ جو مختلف بدگمانیاں پھیلانے میں مصروف تھے ان کی زبانیں بند ہوگئی ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ میں حاضری دے کر آرمی چیف نے عملی طور پر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ اس ادارے کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کے سامنے خود کو جواب دہ سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ سنیٹرز کے چبھتے ہوئے سوالات کا بھی انہوں نے بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیا جس طرح فیض آباد کے دھرنے کے پس پشت عناصر کا تعلق بھی فوج سے جوڑا جا رہا تھا حتیٰ کہ دھرنے کے شرکاء کو مہیا کئے جانے والے کھانے کے بارے میں سنیٹر مشاہد اللہ کے سوال پر آرمی چیف نے واضح کیا کہ فوج نہ تو اس دھرنے میں ملوث تھی اور نہ ہی سہولت کار‘ اگر کوئی یہ ثابت کر دے تو وہ مستعفی ہو جائیں گے۔ میرا خیال ہے کہ اچھا ہوا سنیٹر صاحب نے یہ سوال پوچھ لیا کیونکہ یہ سوال بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں گردش کر رہا تھا اور سوشل میڈیا پر بھی اس کی گونج سنائی دے رہی تھی۔
ان سوالات کے دوران آرمی چیف کا یہ کہنا بھی فکر کی دعوت دیتا ہے کہ سیاست دان فوج کو سیاست میں مداخلت کا موقع نہ دیں۔ ماضی میں ہمیشہ سیاست دانوں نے فوج کو مداخلت کے لئے آواز دی ہے اور ایک پارٹی کے خلاف دوسری پارٹی نے مارشل لاء کی راہ ہموار کی ہے اس لئے مارشل لاء کا تمام تر الزام ادارے پر نہیں تھوپا جا سکتا۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ سیاست دان ملکی خود مختاری اور ملکی حفاظت پر توجہ دیں تا کہ فوج کو مداخلت نہ کرنی پڑے تاہم ان کے اس بیان پر کہ فوج کا کام صرف سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے نے ہر خاص و عام کو ان کا گرویدہ کر دیا ہے۔ آرمی چیف نے بالکل ایک ہیرو کی طرح سینٹ میں انٹری دی، اپنے منطقی خطاب اور سوال و جواب سے سنیٹرز کو متاثر کیا اور فوج کے مورال کو بلند کیا۔ صدارتی نظام اور ٹیکنوکریٹ حکومت کی پشت پناہی اور حمایت سے مکمل انکار کرتے ہوئے انہوں نے جمہوریت کو ملک کی بہتری سے مشروط کیا۔
بہت سارے لوگ انتخابات کے حوالے سے بھی افواہوں کی فیکٹری بنے ہوئے تھے اور اس حوالے سے مختلف توجیہات پیش کی جا رہی تھیں لیکن اسی دن سینٹ نے آئینی بل کی منظوری دے کر انتخابات کے رستے میں حائل رکاوٹیں دور کر دی ہیں۔ حلقہ بندیوں سے متعلقہ بل کی حمایت میں 84 اراکین نے ووٹ دیئے جبکہ صرف ایک رکن نے مخالفت کی۔ ان دو بڑی خوشخبریوں نے ملک کی روشن تقدیر پر مہر ثبت کردی ہے۔ حالیہ مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کی جائیں گی۔ اس ترمیم سے مردم شماری کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ کچھ دن قومی زندگی کے حوالے سے خوش قسمت ہوتے ہیں، یہ دن بھی یادگار رہے گا۔ آرمی چیف نے ملکی مفاد کے لئے دھرنا ختم کرانے میں جو کردار ادا کیا اس سے ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ آئندہ دھرنے والے ملک و قوم کی قسمت سے کھیلنے سے گریز کریں گے۔
دھرنا حکومت یا کسی سیاسی جماعت کے خلاف نہیں ہوتا بلکہ ملک کے خلاف ہوتا ہے، عوام کے خلاف ہوتا ہے، کاروبار کو نقصان پہنچتا ہے، لوگوں کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے، ٹریفک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں، آمدورفت ناممکن ہو جاتی ہے گویا زندگی تعطل اور جمود کا شکار بنا دی جاتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ میں اس حوالے سے بھی کوئی بل لایا جائے اور لوگوں کے ایک گروہ کو پورے ملک کے عوام کے چین سے کھیلنے کی اجازت نہ دی جائے۔ احتجاج کا حق جمہوریت کا حسن ہے تو اس رعایت کو خوش اسلوبی سے سرانجام دیا جائے۔ ہر شہر میں کوئی ایک میدان ہائیڈ پارک کی طرح مخصوص کر دیا جائے جہاں جاکر لوگ اپنے غم و غصے اور اختلافِ رائے کا حق استعمال کرسکیں لیکن سڑکوں کو بند کرنے کی کسی کو اجازت نہ ہو۔ انتخابات میں بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ پنجاب کے ترقیاتی کام دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب جو ایک پاپولر رہنما کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں بھرپور طریقے سے ملک کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے کے قابل ہوں گے‘ فیصلہ عوام نے کرنا ہے۔ ان کے سامنے کام بھی ہیں اور خالی نعرے بھی۔ انتخابات میں نعرے خاموش ہو جاتے ہیں اور کام نظر آنے لگتے ہیں اس لئے جو جماعتیں صرف زبانی جمع خرچ پر وقت ضائع کر رہی ہیں وہ بھی کاموں پر توجہ دیں کہ مقابلے کی کوئی فضا تو بنے۔