سینیٹ میں آرمی چیف کی بریفنگ، ایک آزادانہ تجزیہ
آرمی چیف کی سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ ہر جگہ موضوع گفتگو ہے اور ہر کوئی اپنے نقطہ نظر سے اس کو معانی پہنا رہا ہے۔ میری عادت ہے کہ جب تصویر واضح نہ ہو اور کہیں ابہام نظر آ رہا ہو تو کسی ماہر اور تجربہ کار تجزیہ کار سے رجوع کرتا ہوں، آرمی چیف کی بریفنگ کو صحیح طور پر سمجھنے اور پرکھنے کے لئے میں نے لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفی سے رجوع کیا، ویسے بھی ان سے ملاقات کو کئی ماہ گزر چکے تھے اور لگتا تھا کہ ہم ایک دوسرے کی شکلیں ہی نہ بھول گئے ہوں، انہوں نے میرے پیغام پر جھٹ ملاقات کا وقت دے دیا، ابھی ان سے مل کر آ رہا ہوں اور جو کچھ ذہن میں نقش رہ گیا ہے وہ آپ سے شیئر کرتا ہوں۔
سوال: کیا آرمی چیف کا سینیٹ میں جانا بنتا تھا۔
جواب: میرے خیال میں نہیں، آرمی چیف کو اس اجلاس میں شرکت سے معذرت کر لینی چاہئے تھی، اس لئے کہ سینیٹ کو اگر خارجہ امور سمجھنے تھے تو و ہ و زیر خارجہ کو مدعو کر سکتے تھے اور سکیورٹی پر معلومات درکار تھیں تو وزیر دفاع اور سیکورٹی ایڈوائزر میسر آ سکتے تھے۔
سوال : تو پھر آرمی چیف گئے کیوں !
جواب: شاید اس لئے کہ یہ نہ کہا جائے کہ ا ٓرمی چیف اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیوں نہیں ہوسکتے جبکہ امریکہ میں مسلح افواج کے سربراہان کانگرس کی کمیٹیوں میں پیش ہوتے رہے ہیں۔
سوال: کیا آرمی چیف کی طرف سے جمہوریت کے حق میں کلمات سننے کے بعد یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ملک میں استحکام کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے ۔
جواب:میرے خیال میں نہیں ، آرمی چیف نے تو اپنا نقطہ نظر بیان کیا کہ وہ جمہوریت کے حق میں ہیں ، الیکشن بر وقت دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ۔ملک میں گورننس بہتر ہونے کی قطعی امید نہیں،سیاسی خلفشار جوں کا توں برقرار ہے، آرمی چیف کا موقف اپنی جگہ لائق ستائش ہے مگر حالات کی ویرانی کچھ اور کہانی بیان کر رہی ہے،۔
سوال: یہ کہانی کیا ہے۔
جواب: مجھے تو یہ حکومت اپنی ٹرم پوری کرتی دکھائی نہیں دیتی۔سخت انتشار کا عالم ہے، جوتیوںمیں دال بٹ رہی ہے، کوئی کل سیدھی نہیں۔یہ لوگ اپنا گریبان خود چاک کر رہے ہیں، آرمی چیف تو بری الذمہ ہو گئے، ان کی باتوں پر واہ واہ ہوتی رہے گی ، اس لئے اب فوج کو کوئی مطعون نہیں کر سکے گا کہ وہ خرابی پیدا کر رہی ہے۔
سوال: کیاا ٓپ سمجھتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے پر آرمی چیف سینیٹ کو مطمئن کر پائے ہیں۔
جواب: مطمئن سے کوئی بڑا لفظ تلاش کریں، انہوںنے بولتی بند کر دی ہے، آرمی چیف نے انہیں بتا دیا ہے کہ دھرنے والے لاہور سے چلے تھے تو انہوںنے پنجاب کے چیف منسٹر کو فون کیا تھا ، جو اٹینڈ نہیں کیا گیا، ایک گھنٹہ بعد شہباز شریف نے جوابی کال کی تو آرمی چیف نے دھرنے والوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کی درخواست کی ا ور اپنی تشویس سے چیف منسٹر کو آگاہ کیا۔ مگر چیف منسٹر نے کہا کہ ہم حالات کنٹرول کر لیں گے۔ اس کے بعد دھرنا جلوس فیض آباد چوک میںمورچہ زن ہو گیا تو پھر آرمی چیف نے وزیر اعظم کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا جس کا انہیں پھر یہی جواب ملا کہ ہم اسے کنٹرول کر لیں گے ، فکر کی کوئی بات نہیں جب ایک آرمی چیف دھرنے کو روکنے کی بار بار درخواستیں کر رہا ہے تو کیاا س سے یہ پوچھنا جائز تھا کہ وہ دھرنے کے پیچھے تھے۔ وہ پیچھے ہوتے تو فون پر فون کیوں کرتے۔ اس سے زیادہ وہ سینیٹ کو کیسے مطمئن کرتے۔ آرمی چیف کو اب کوئی دوش نہیں دیا جا سکتا، ان کا تو قوم ،حکومت اور سینیٹ کو شکر گزار ہونا چاہئے کہ ایک یقینی بحران اور ماڈل ٹاﺅن جیسی خونریزی سے نجات دلوائی۔
سوال: یہ ماڈل ٹاﺅن کاا ٓسیب کیا ہے، کہیں ایسا تو نہیں کہ فیض آباد میں سول حکومت کی بے عملی کی وجہ یہی ماڈل ٹاﺅن سانحہ کا خوف تھا کہ پھر وہی کچھ ہو گا۔ اور خونریزی کی ساری ذمے داری حکومت پر آئے گی اور لوگ اسی کو صلواتیں سنائیں گے۔
جواب؛ ماڈل ٹاﺅن اور فیض آباد کا کوئی موازنہ نہیں، ماڈل ٹاﺅن میں پولیس کا اصرار تھا کہ ہم نے ہر قیمت پر رکاوٹیں ہٹانی ہیں جبکہ ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کے پیرو کاروں کا موقف تھا کہ یہ رکاوٹیں عدالتی حکم اور اجازت سے نصب کی گئی ہیں، اب اگر عدالت اپنایہ حکم واپس لے تو انہیں بھی کوئی اعتراض نہ ہو گا مگر پولیس نے کسی عدالتی حکم کے بغیر ایکشن کیاا ور ہجوم سے ٹکرا گئی، اس تصادم میں صرف ہجوم والے شہید ہوئے، پولیس کے کسی شخص کو خراش تک نہیں آئی، دوسری طرف فیض آباد والوں کو کسی عدالت نے دھرنے کی اجازت نہیں دی تھی اور ملک کا آرمی چیف صوبے اور وفاق کی حکومتوں سے کہہ رہا تھا کہ انہیں کنٹرول کیا جائے مگر کسی حکومت نے ان کی نہیں سنی ، ناچار آرمی کو انتشار سے نجات دلانے کے لئے حرکت میں آنا پڑا۔
سوال:مگر قومی اسمبلی کے اسپیکر نے بھی تو ایک تشویش کاا ظہار کیا تھا کہ بہت کچھ ہو رہا ہے جو کہ نہیں ہونا چاہئے اور یہ سب کچھ سمجھ سے بالاتر ہے ، اس کی وجہ سے اسمبلیاں اپنی مدت پوری کرتی دکھائی نہیں دیتیں۔انہوںنے مثال کے طور پر کراچی کے سیاسی واقعات کا ذکر کیا۔
جواب : میں ان دنوںکراچی میں موجودتھا اور یہ میرے ذاتی علم میں ہے کہ رینجرز نے نیک نیتی سے کوشش کی تھی کہ مہاجروںکی دونوں پارٹیوں کو باہم شیر و شکر کر دیا جائے تاکہ کراچی کی بد امنی کی ایک وجہ تو ختم ہو اور رینجرز کو اپنی برسوں کی ناخوشگوار ڈیوٹی سے جان چھڑانے کا موقع مل سکے۔باقی رہی اسپیکر کی بات تو یہ ان کی اپنی ذہنی کیفیت کا ایک اظہار ہے ، انہیں بھی نظر آ رہا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کا رویہ کیا ہے، ان کی وفا داریاں کتنی پکی اور کتنی سچی ہیں۔ قانون سازی میں ارکان پارلیمنٹ کی دلچسپی کتنی ہے،یہ سب کچھ دیکھ کر بندہ وہی کہے گا جو اسپیکر کو کہنا پڑا۔ مگر یہ مت بھولئے کہ ہاﺅس کو چلانا اسپیکر کی اپنی ذمے داری ہے۔ قا نون سازی کے عمل میں رکاوٹیں دور کرنے کے لئے اسپیکر ہی بیچ بچاﺅ کراتا ہے۔
سوال:آرمی چیف کی بریفنگ کا سیاسی حصہ تو منظر عام پر آ گیا مگر کیاسیکورٹی امور پر بریفنگ کے بارے میں بھی کوئی معلومات آپ کے پاس ہیں۔
جواب: میں یہ جانتا ہوں کہ آرمی چیف ہر سوال کا جواب دینے کے لئے تیارہو کر گئے تھے ، انکے ہمراہ ڈی جی آئی ایس آئی، ڈی جی ایم ا ٓئی اور ڈی جی ملٹری آپریشنز بھی تھے، مﺅخرالذکر ہی نے سیکورٹی پر تفصیلی بریفنگ دی مگر کیا مجال کہ کسی سینیٹر نے سیکورٹی کے امور پر کوئی سوال کرنے کی زحمت کی ہو، حا لانکہ انہیں بتایا گیا کہ افغانستان سے کس طرح مداخلت ہو رہی ہے، بلوچستان کے حالات کون خراب کر رہا ہے، مگر ان میں سے کسی ایک ایشو پر کسی ایک سینیٹر نے کوئی سوال جواب نہیں کیا۔ مگر یہ طنز پرویز رشید نے ضرور کیا اور سنا ہے کہ ا س پر انہیں نواز شریف کی طرف سے ذاتی طور پر شاباش ملی ہے کہ ان دنوں کچھ ضمنی الیکشن ہوئے ہیں جن میں فوج کی حامی دینی پارٹیاں چند ہزار ووٹ لینے میں کامیاب ہو ئی ہیں تو کیوں نہ جی ایچ کیو میں دینی جماعتوں کی کور کھڑی کر لی جائے۔یہ طنز اس آرمی چیف پر کیا گیا جو چار سال تک خود نواز شریف کے وزیر خارجہ رہنے کے باوجود چین، روس، ایران، سعودی عرب، ترکی اور متحدہ عرب امارات سے ملک کے تعلقات بہتر بنانے کے لئے سر گرداںہے،اب ایک وزیر خارجہ موجود ہیں مگر کسی تپتی سرزمین پر پاﺅں رکھنے سے کتراتے ہیں۔
سوال: آپ حکومتی نااہلی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
جواب: نااہلی کا قصہ چھیڑیں تو کہیںختم ہونے میںنہ آئے، کل ہی وزیر اعظم نے قبائلی وفد سے ملاقات کی جس نے فاٹا کے انضمام کی مخالفت کی ا ور یوں ایک طے شدہ معاملہ پھر لٹک گیا،وزیر اعظم کو پتہ ہی نہ چلا کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے اور جو مشیران آئے ہیں ، وہ مولانا فضل الرحمن نے بھجوائے تھے،۔ ظاہر ہے انہوںنے وہی بات کرنا تھی جو انہیں طوطے کی طرح پڑھائی گئی تھی۔کیاا س طرح حکومتی فیصلے کئے جاتے ہیں۔کیااس طرح قوم کی تقدیر کے فیصلے کئے جاتے رہیں گے۔
سوال: آرمی چیف نے آپ جیسے ریٹائرڈ فوجی تجزیہ کاروں سے لاتعلقی کاا ظہار کیا ہے کہ آپ لوگ فوج کی نمائندگی نہیں کرتے۔
جواب: وہ ٹھیک کہتے ہیں،۔ ہم نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ ہم فوج کے نمائندے ہیں۔ نہ ہمیں کوئی سبق پڑھا سکتا ہے، ہم آزاد ذہن سے سوچتے ہیں اور اپنے ذہن کے مطابق بات کرتے ہیں۔
مگر آخر میں میرا بھی ایک سوال ہے ۔ جنرل صاحب نے کہا؛ کبھی ہو سکے تو وزیر اعظم سے یہ پوچھ کر بتا دیجئے کہ اگر انہیں کور کمانڈرز کے سامنے حکومتی پالیسیوں کی وضاحت کے لےے بلایا جائے تو کیا وہ اس کے لئے تیار ہوں گے، آرمی چیف نے تو ساری کڑوی کسیلی باتیں سن لیں، ان سب کا جواب بھی دیا۔ کیا وزیر اعظم بھی اس حوصلے کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔
میں یہ سوال حکومت کے سامنے رکھتا ہوں مگر مجھے قلق یہ ہے کہ وزیر اعظم نے تو ابھی تک جی ایچ کیو جانا بھی گوارا نہیں کیا، وہاں ایک یادگار شہداءبھی ہے، کم از کم اس پر ہی پھولوں کی ایک چادر ڈال آتے۔انہیںیہ توفیق بھی نہیں ہوئی۔
٭٭٭٭٭