چار سو روپے ہوتے تو 19 سال پہلے آزاد ہو جاتی، مقدمہ قتل میں بری ہونیوالی رانی بی بی
چنیوٹ (بی بی سی) چنیوٹ کی خاتون رانی بی بی کے پاس محض 4 سو روپے نہ ہونے کے باعث 19 سال جیل میں گزر گئے۔ رانی بی بی نے بتایا کہ ’میں کہتی رہی کہ ہم بے قصور ہیں لیکن نہ تو قانون کو کوئی فرق پڑا نہ جج نے کچھ سنا۔ جیل میں آئے تو اپیل کی درخواست کے لیے پولیس والے نے چار سو روپے مانگے۔ ہم اتنے مجبور اور غریب تھے کہ یہ چار سو روپے بھی نہ تھے۔‘ یہ سنہ 1998 کا واقعہ ہے، جب رانی بی بی پر ان کے شوہر کو قتل کرنے کا الزام لگا۔ ان کے والد، والدہ، بھائی اور ایک کزن بھی گرفتار کر لیے گئے۔ پھر عدالت نے اس خاندان کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ رانی بی بی پنجاب کے شہر چنیوٹ کے قریب ایک گاؤں میں کرائے کے مکان میں رہتی ہیں۔ ان کے مطابق گرفتاری کے وقت ان کی عمر تقریباً 15 برس تھی۔ 'میرے والد پر بہت تشدد کیا گیا، پھر پانچ سال بعد وہ جیل میں ہی مر گئے، میرا بھائی جوانی میں جیل گیا اور اب بوڑھا اور بیمار ہو کر نکلا ہے۔‘ قتل کے الزام میں سالوں قید رہنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے رانی بی بی کو ناکافی ثبوت اور ناقص شواہد کی بنیاد پر باعزت برّی کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'میری زندگی، میرا خاندان برباد کر دیا، آج یہ کہتے ہیں کہ عدالت نے باعزت برّی کیا ہے؟ اس ملک کی حکومت، یہاں کی عدالتیں اور پولیس، کوئی بھی میرے ساتھ نہیں تھا۔ عدالتوں اور پولیس نے مجھے دھتکارا، اب برادری بھی دھتکارتی ہے کہ یہ عورت اپنے شوہر کے قتل کے الزام میں جیل میں تھی۔‘ لاہور ہائی کورٹ نے رانی بی بی کی سزا کے خلاف اپیل نہ کرنے کو جیل انتظامیہ کی بدنیتی قرار دیا ہے اور اس سزا پر افسوس کا اظہار کیا ہے مگر اس سنگین غلطی کا ازالہ کرنے کے لیے ریاست کے پاس کوئی قانون موجود ہی نہیں۔ پنجاب کا دور دراز گاؤں ہو یا وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، انصاف کے لیے عدالت کا در کھٹکھٹانے والے اپنی عمر کی پونجی ایسے ہی گنوا دیتے ہیں۔ راولپنڈی کے 73 سالہ محمد صدیق 45 سال سے پہلے اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے یعنی سی ڈی اے اور پھر عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی زمین سنہ 1961 میں ’سی ڈی اے نے حاصل تو کر لی، لیکن متبادل زمین آج تک نہیں دی'۔ خیال رہے کہ ملک کی عام عدالتوں میں 17 لاکھ سے زائد مقدمات التوا کا شکار ہیں جبکہ خصوصی عدالتوں میں مزید دو لاکھ مقدمات بھی تاخیر کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک مقدمے کا فیصلہ آنے میں اوسطاً 15 سے 20 سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق ایڈیشنل جج شاہ خاور کہتے ہیں کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں بہ شمار سقم ہیں۔ ’انگریز دور میں بنے ان قوانین کے طویل ضابطے اور ان کی جدید دور سے عدم مطابقت، جبکہ نظام عدل میں احتساب نہ ہونا بھی انصاف کی فراہمی میں حائل ہے'۔