لیڈری کا شوق نہیں، اقتدار میں رہنے والے خرابی کے ذمہ دار ہیں: چیف جسٹس
کراچی ( وقائع نگار + دی نیشن رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار پر مشتمل ڈویژن بینچ کی عدالت میں سندہ بھر میں پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب سے متعلق سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا بوتل میں پانی بھرکرکون بیچ رہا ہے، ٹینکرز مافیا کب ختم ہوگا، ٹینکرز مافیا کون ختم نہیں کرنے دے رہا، اس کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، مجھ پر میوہسپتال جانے پر بھی اعتراض کیا گیا۔ مجھے لیڈری کا کوئی شوق نہیں، جو اقتدار میں رہے وہی خرابیوں کے ذمہ دار ہیں۔ کوئی تنقید کرتا ہے تو کرتا رہے، معاملہ حل کریں گے چاہے رات کو بھی عدالت لگانا پڑے۔ انہوں نے چیف سیکرٹری سندھ پراظہار برہمی کرتے ہوئے استفسارکیا بتائیں شہریوں کوصاف پانی کب تک ملے گا ٹائم فریم دیں،آپ کو یہ کام الیکشن سے پہلے اوردو ماہ میں کرنا ہے میری ریٹائرمنٹ کے بعد والے منصوبے نہ بتائیں ایم ڈی واٹر بورڈ نے عدالت کو پریزنٹیشن دی، توعدالت نے سرزنش کی، کہا پانی سے بیماریاں پھیل رہی ہیں،کیا آپ مفلوج قوم پیدا کرنا چاہتے ہیں خون میں جراثیم شامل کرنا چاہتے ہیں؟ آپ اپنی ذمہ داری ہماری ہدایات کے بغیر کریں کوئی رکاوٹ ہو توہمیں بتائیں سپریم کورٹ نے چیف سیکرٹری سندھ کے تبادلے پرحکم امتناع برقراررکھتے ہوئے حکم دیا کہ عدالت کی اجازت کے بغیر تبادلہ نہ کیا جائے، جبکہ دیگر سیکرٹریز اور افسروں کے تبادلوں پر عائد پابندی بھی ختم کر دی گئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کا کہنا تھا مجھے لیڈری کرنے کا کوئی شوق نہیں‘ مجھ پر جس نے تنقید کرنی ہے کرلے‘ آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، کراچی کو گندگی کا ڈھیر بنا دیا گیا، کوتاہی برتنے والوں کو نہیں بخشیں گے، بغیر جواب دیئے چیف سیکرٹری اور ایم ڈی واٹر بورڈ کو نہیں جانے دینگے، صاف پانی فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے، اپنے اختیارات جانتے ہیں آئین پر عملدرآمد کرائیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 5رکنی بینچ نے سماعت کی۔ حکومت پر واضح کرنا چاہتے ہیںکہ ہمارے پاس توہین عدالت کی کارروائی کا اختیار بھی ہے، واٹر کمیشن نے مسائل کی نشاندہی کی اور اسباب بھی بتائے، سندھ حکومت نے واٹر کمشن رپورٹ پر اعتراض نہیں اٹھایا، وزیراعلیٰ سندھ کو بھی اس لیے بلایاتھا کہ ٹائم فریم دیں، دریائوں اور نہروں میں زہریلا پانی ڈالا جارہا ہے، پنجاب میں بھی معاملے کو اٹھایا ہے، حل کرکے رہیں گے۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ سماعت کو18 دن ہوگئے آپ نے کیا کام کیا؟ معاملے کے حل کا ٹائم فریم لکھ کردیں، مجھے لاہور میں کہا گیا کراچی کا کچھ نہیں بننے والا، جہاز میں بھی مجھے کہا گیا کہ کراچی کے مسائل حل نہیں ہوں گے، کراچی کا مسئلہ ہم حل کرکے دکھائیں، چیف جسٹس نے کہا کہ 2ماہ کے اندر کام کرکے دکھائیں، فائلز چھوڑ دیں یہ بتائیں کونسا کام پہلے ہوگا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ پانی کی قلت سے واٹر مافیا مضبوط ہوتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کام کرنا چاہیں تو مخیر حضرات بھی مل جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کینجھر جھیل سے صاف پانی آنے کی ضمانت دے سکتے ہیں پانی سے صرف مٹی نکالنا فلٹریشن نہیں، کیا یہ پانی پاک اور پینے کے قابل ہوتا ہے؟ ایم ڈی بورڈ ہاشم رضا نے کہا کراچی کے 30فیصد علاقے واٹر بورڈ کے سسٹم میں شامل نہیں، ڈی ایچ اے اور کنٹونمنٹ کی ذمہ داری ہے مگر وہاں ٹینکرز چلتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا واٹر ٹینکرز اور ہائیڈرنٹس ختم کیوں نہیں کرسکتے، کیا آپ کا بندہ ماہانہ پیسے وصول نہیں کرتا، پانی دیتے مگر ٹینکرز چلا کر کمائی کا دھندہ چل رہا ہے، جن لوگوں نے کوتاہی برتی انھیں نہیں بخشا جائے گا۔ ٹینکر مافیا پانی بیچتا ہے اور کمائی ہورہی ہے، جہاں واٹر بورڈ لائن نہیں مفت پانی پہنچائیں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ دن لگے یا رات لگے کام کرکہ دکھائیں، بھینسوں کا فضلہ نہروں میں چھوڑا جارہا ہے، ہیپاٹائٹس سی بڑھ رہا ہے، کبھی آپ نے غور کیا، ہماری ہدایت سے پہلے آپ لوگ سورہے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا مجھے آپ کی سنجیدگی آپ کی باتوں سے نظر آرہی، سنجیدگی کا کام سے پتہ چلے گا، چیف سیکرٹری کو اور کوئی کام کرنے نہیں دوں گا، جب تک مجھے بتایا نہ جائے کہ کام کب ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا اعتراضات ہوئے چیف جسٹس میو ہسپتال کیوں گئے۔ ہسپتال کا دورہ انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے کیا، صاف کہنا چاہتا ہوں، مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں، میو ہسپتال میں وینٹی لیٹر کی سہولت موجود نہیں تھی۔ آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، پانی اور صحت کی فراہمی کیلئے جو کرنا پڑا کریں گے، ہم چاہتے ہیں اپنے بچوں کو ایک اچھا ملک دے کر جائیں، صرف بچوں کو پجارو گاڑی خرید کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا، موجودہ کیفیت کا ذمہ دار ہر وہ شخص ہے جو برسراقتدار رہا، کوئی مزدور اور غریب شہری ملک کی صورتحال کا ذمہ دار نہیں ہم کسی ایم ڈی واٹر بورڈ اور کسی سیکرٹری کو نہیں جانتے، وزیراعلیٰ اور کابینہ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں، اور نتائج چاہتے ہیں۔ کراچی میں 45 لاکھ ملین گیلن گنداپانی سمندرمیں جا رہا ہے۔ کراچی میں پانی بیچا جارہا ہے اور ٹینکر مافیا کو مضبوط کیا جارہا ہے، یہ سب کمائی کا دھندا ہے، واٹر بورڈ کے لوگ ماہ وار پیسے وصول کرتے ہیں آپ لوگ پانی دیتے نہیں، لوگ خریدنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے اے جی سندھ سے استفسار کیا کہ بتائیں، کراچی میں واٹر ٹینکر مافیا کب سے اور کیسے چل رہا ہے، بتایا جائے واٹر ٹینکر مافیا کے خلاف کیا کارروائی کی۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میرے گھر کے نلکے میں پانی آئے تو کیا بے قوف ہوں جو 3 ہزار کا ٹینکر منگواؤں گا، ذمہ داری ادا نہ کرسکوں تو اس عہدے پر رہنا ضمیر کیخلاف ہوگا، آ پ سوچیں کہ نتائج نہیں دے سکتے تو عہدے پر کیسے رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں لوگوں کو صاف ستھرا پانی ملے۔ ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس کا کہنا تھا عوام کا تحفظ کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس ثاقب نثار نے ملک بھر کی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے فرانزک آڈٹ کے معاملے پر از خود نوٹس لے لیا۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کو معاملہ کی سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے از خود نوٹس جسٹس دوست محمد خان کی جانب سے لکھے گئے نوٹ پر لیا۔ جسٹس دوست محمد نے ایف آئی اے کو ہاؤسنگ سوسائٹیز کے فرانزک آڈٹ کا حکم دیا تھا۔ ڈی جی ایف آئی اے نے رپورٹ میں عدالتی حکم پر عمل درآمد سے متعلق بے بسی کا اظہار کیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا ہاؤسنگ سوسائٹیز کے فرانزک آڈٹ کے لئے وفاقی و صوبائی حکام تعاون نہیں کر رہے۔ عدالت حکام کو تعاون کرنے کی ہدایات جاری کرے۔ چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے سندھ کے ہسپتالوں کی ابتر صورتحال کا بھی نوٹس لے لیا۔ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس میں چیف جسٹس نے کہا کہ کئی ڈاکٹر بلڈ پریشر بھی چیک نہیں کرسکتے۔ اعتراض کیا گیا کہ میں میوہسپتال کیوں گیا تھا، مجھے لیڈری کا شوق نہیں عوام کا تحفظ کرنا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ سرتاج عزیز ایک اچھے اور قابل احترام شخص ہیں۔ ان سے توقع رکھتے ہیں کہ ماتحت وزارت کی کارکردگی کو بہتر بنائیں گے اور عدالت کو مطلوب رپورٹس اگلی سماعت تک فراہم کردی جائیں گی۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس کراچی رجسٹری میں مقدمے کی سماعت کے دوران ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ضروری ہدایات دیتے ہوئے دیئے۔ سندھ کے سیکرٹری صحت ڈاکٹر فضل اللہ پیجوہو ناسازی طبیعت کے باوجود سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان پر مشتمل بنچ کے روبرو مقدمے کی سماعت کے لئے پیش ہوئے او رسپریم کورٹ کی ہدایات پر پر من و عن عمل درآمد یقینی بنانے اور آئندہ سماعت سے پہلے اپنے حلف نامے کے ساتھ میڈیکل کالجز اور منسلک اسپتالوں کے حوالے سے کارکردگی رپورٹ پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ وقفے کے دوران سیکریٹری صحت ڈاکٹر فضل اللہ پیجوہو کی طبیعت خراب ہوگئی۔ وہ شوگر کے مریض ہیں وہ دو مرتبہ لڑکھڑا بھی گئے۔ انہوں نے خود کو سنبھالا اور وقفے کے بعد دوبارہ کمرہ عدالت میں آگئے اور جب چیف جسٹس نے ان کا نام لے کر بلایا تو پھر انہوں نے اپنا موقف پیش کیا۔