کوئٹہ چرچ میں انسانیت سوز دہشت گردی
میں یہ سطور جان بوجھ کر قائد اعظم کے یوم پیدائش پر تحریر کر رہا ہوں، اس لئے کہ قیام پاکستان کے فوری بعد حضرت قائداعظم نے فرمایا تھا کہ آج نہ کوئی ہندو ہے، نہ مسیحی ، نہ سکھ ، نہ مسلمان، ہم سب آج سے پاکستانی ہیں۔ یہی ہماری شناخت ہے، مذہب، فرقے، زبان برادری علاقے کی تفریق کو پاکستان میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اسی پاکستان میں جہاں سب برابر کے شہری ہیں، کوئٹہ میں ایک مسیحی چرچ پر اس وقت دہشت گردوں نے حملہ کیا جب وہ عبادت میں مصروف تھے اور اپنی مذہبی رسومات بجا لا رہے تھے۔ پاکستان کا قانون اورآئین غیر مسلموں کو بھی مذہبی آزادی کی ضمانت دیتا ہے مگر وائے افسوس! جہاں مسلم اکثریت محفوظ نہ ہو، ان کی مسجدوں، ان کی امام بارگاہوں‘ ان کے بزرگوں کے مزاروں پر بھی خودکش حملے کئے جائیں ، وہاں غیرمسلموں کی عبادت گاہ کو نشانہ بنانا اگرچہ چنداں حیرت کا باعث نہیں مگر یہ سانحہ اس لحاظ سے قابل مذمت ہے کہ یہ مذموم حرکت صرف اس لئے کی گئی ہے کہ غیر مسلموں کے دل و دماغ میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جائے اور انہیں مسلم اکثریت سے نفرت کےلئے اکسایا جائے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو پاکستان میں انتشار کو ہوا دینے کے لئے پروان چڑھائی جارہی ہے۔ اسی ضمن میں لاہور کے علاقے یوحناآباد کے چرچ پر دہشت گردانہ حملہ بھی قابل مذمت ہے جہاں مسیحی بھائیوں کی لاشیں گریں اور ان کے پیارے اس دنیا سے رخصت ہوئے، ان کا کوئی گناہ نہ تھا، نہ کوئٹہ کے چرچ میں عبادت گزار مسیحیوں کا کوئی جرم تھا، بس ایک جرم تھا کہ وہ پاکستانی ہیں اور اسی جرم بے گناہی کی انہیں سزا دی گئی۔
کوئٹہ کا سانحہ ایک ایسے وقت رونما ہوا ہے جب امریکہ نے پاکستان پر ڈو مور کے لئے دباﺅ بڑھا رکھا ہے، امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے حکومتی اہلکار ایک ہی گردان کر رہے ہیں کہ پاکستان دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے اور اسے اپنی کوششیں تیز تر کرنی چاہئیں۔ پاکستان ان تقاضوں سے تنگ آچکا ہے اور اسے جواب میں کہنا پڑ گیا ہے کہ جناب نومور! ہم نے بہت کچھ کرلیا اور اب جو کرنا ہے، آپ نے کرنا ہے، افغانستان کی لڑائی ہم اپنی سرزمین پر نہیں لڑسکتے۔ یہ لڑائی امریکی اور اتحادی افواج ہی لڑیں جو افغانستان پر قابض ہیں اور پندرہ برس سے قابض ہیں، اب اگر یہ عالمی فورس نااہل ثابت ہوئی ہے تو اس کا دوش پاکستان کو کیوں دیا جائے۔
پاکستان کے دشمنوں نے اپنے دباﺅ کے ہتھکنڈے تبدیل کرلئے ہیں اور اب غیرمسلموں کو نشانہ بنا کر مسلم ا ور غیر مسلم کی تفریق بڑھانے کی سازش کی جارہی ہے۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی اقلیتیں پوری طرح پاکستانی معاشرے میں ضم ہوچکی ہیں اور معاشرے میں انتہائی فعال اور اہم کردار ادا کررہی ہیں، اب صرف مسیحی بھائیوں کی ان خدمات پر ہی نظر ڈال لیجئے جو انہوں نے پاک بھارت جنگوں میں انجام دی ہیں تو ہر پاکستانی کا سر فخرسے بلند ہوجاتا ہے سیسل چودھری پاک فضائیہ کے مسلمہ ہیرو تھے۔ عدلیہ کے شعبے میں دیکھیں تو جسٹس کارنیلیس اعلٰی ترین عہدے پر فائز رہے، پاکستان کا پہلا وزیر قانون ایک غیر مسلم تھا، جسٹس بھگوان داس کے کردار کو بھی کوئی فراموش نہیں کر سکتا، حقیقت یہ ہے کہ کوئی پاکستانی مذہبی آنکھ سے اقلیتوں کو نہیں دیکھتا بلکہ سبھی آپس میں بھائی بھائی اور مساوی شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کررہے ہیں۔ بھائی چارے اور مذہبی ہم آہنگی کی یہ مثالی صورتحال ہمارے دشمنوںکو گوارا نہیں‘ وہ ہماری صفوں میں تفریق پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہیں اور کوئٹہ کا سانحہ اسی سازش کی ایک کڑی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہوگی، مسیحی بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے، آج جب وہ کرسمس کی خوشیاں منارہے ہیں تو ساری پاکستانی قوم ان کی خوشیوں میں شریک ہے اور کیکوں کا تبادلہ ہو رہا ہے۔
ہمارا دشمن بظاہر ہمیں نظر نہیں آتا لیکن یہ کسی سے مخفی بھی نہیں ہے۔ امریکہ نے بھارت سے درخواست کی ہے کہ بحرہند کے خطے پر اس کی بالادستی برقرار رکھنے کے لئے اس کی مدد کی جائے اور افغانستان میں قیام امن کے لئے بھی بھارت اپنا کردار ادا کرے۔ اب امریکہ سے کوئی پوچھے کہ بحرہ ہند میں اور افغانستان میں بھارت کا کردار کیا ہوسکتا ہے سوائے اس کے کہ وہ تخریب کاری اور دہشت گردی سے قیامت برپا کرے، اس علاقے میں امن کے قیام کے لئے جو قربانیاں پاکستان نے دی ہیں اور خاص طور پر افواج پاکستان نے شہادتوں کے گلستان مہکائے ہیں، ان کے مقابلے میں امریکی اور اتحادی افواج کا مشترکہ کردار صفر ہے اس کے باوجود پاکستان کے خلاف مستقل پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے اور اسے غیرمستحکم کرنے کے لئے مسیحی بھائیوں کی عبادت گاہوں کو بھی ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی عوام ان چالوں کو بخوبی سمجھتے ہیں اور آپس میں کوئی دراڑ نہیں پڑنے دیں گے۔ وہ قائداعظم کی تعلیمات اور ان کے کردار پر عمل پیرا ہیں اور اپنے مذہب کی رو سے بھی اقلیتوں کے تحفظ کا عہد نبھا رہے ہیں۔
کوئٹہ کے چرچ میں دھماکہ ہوا، اس سے قبل بھی کوئٹہ کی سریاب روڈ پر سانحہ ہوا۔ حالیہ عرصے میں یہ واقعات شاید اس لئے بھی ہو رہے ہیں کہ وہاں ایک نئے کور کمانڈر تعینات ہوئے ہیں اور ان کا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے جنوبی وزیرستان کو دہشت گردوں سے پاک کیا تھا، ممکنہ طور پر وہاں کے بچے کھچے عناصر اب ماضی کا انتقام لینے کے درپے ہوں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت ہے اور اسے عدم استحکام کا شکار کرنے کے لئے یہ دھماکے کئے جا ر ہے ہوں مگر ایک بات طے ہے کہ بھارتی وزیراعظم مودی علی الاعلان کہہ چکے ہیں کہ وہ بلوچ عوام کو حقوق دلوائیں گے اور اس کے لئے بھارتی دہشت گرد تنظیم را سرگرم عمل ہے جس کا ایک ایجنٹ کلبھوشن رنگے ہاتھوں پکڑا بھی گیا ہے، اس لئے یہ تمام عوامل حکومت پاکستان، حکومت بلوچستان اور ملکی سکیورٹی ایجنسیوں کے پیش نظر ہیں اور ان کا مداوا کرنے کی تگ ودو ہورہی ہے، بہت سا کام ہوچکا، بلوچستان کا صوبہ پہلے سے زیادہ پرامن ہے، اس صوبے کی سڑکوں پر سفر کرتے اب کسی کو ڈر نہیں لگتا۔ انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب گوادر کا منصوبہ مکمل ہوگا اور سی پیک کے ساتھ جڑ کر ملکی ترقی کا سہرا اس کے سر سجے گا۔