2017اعلیٰ عدلیہ میں بڑے سیاسی رہنمائوں کیخلاف مقدمات کا سال رہا
لاہور(رپورٹ۔ایف ایچ شہزاد) 2017 اعلی عدلیہ میں بڑے سیاسی راہنمائوں کے خلاف مقدمات کا سال رہا۔پنجاب کی اعلی عدلیہ میں اصلاحات کا عمل جاری رہا۔نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نا اہلی،عمران خان کو اہل قرار دینا،سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل رپورٹ پبلک کرنے کا حکم،حدیبیہ کیس کی اپیل خارج ، پیمرا اور پی ٹی اے کے چئیرمینز کی تقرری کالعدم قرار دینا سال کے بڑے عدالتی فیصلے رہے۔2017میں بھی اعلی عدلیہ نے آئین کے آرٹیکل184(3)اورآرٹیکل199کے تحت بنیادی حقوق سے متعلق ہزاروں درخواستوں کی سماعت کی۔کئی اہم معاملات پر از خود نوٹس بھی لئے گئے۔سپریم کورٹ کے فل بنچ نے پانامہ کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو غیر ملکی کمپنی کا اقامہ رکھنے اور اس کی قابل وصول تنخواہ کا اثاثہ ڈیکلئیر نہ کرنے پر نا اہل قرار دے دیا۔جبکہ عدالت عظمی نے نظر ثانی کی اپیل بھی خارج کر دی۔دوسرے اہم ترین کیس میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے عمران خان کے خلاف حنیف عباسی کی درخواست خارج کرتے ہوئے انہیں اہل قرار دیا ۔ جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے حدیبیہ ریفرنس کی بحالی کیلئے دائر کی گئی نیب کی اپیل خارج کر دی۔ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سانحہ ماڈل ٹائون کی جوڈیشل رپورٹ پبلک کرنے کا حکم دیا۔ جس کے خلاف حکومت پنجاب نے فل بنچ کے رو برو اپیل دائر کی تاہم فل بنچ نے بھی رپورٹ پبلک کرنے کا سنگل بنچ کا حکم برقرار رکھا۔لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ کی طرف سے شریف خاندان کی شوگر ملز کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دیاجانا بھی اہم فیصلہ قرار دیا گیا۔لاہور ہائی کورٹ نے درجنوں حبس بے جا کی رٹ درخواستوں میں سینکڑوں مزدوروں کو رہا کرنے کا حکم دیا جن سے بھٹہ مالکان جبری مشقت لے رہے تھے۔تیس سے زائد جوڑوں نے بچوں کی حوالگی کیلئے عدالت سے رجوع کیا۔زیادہ مقدمات میں بچوں نے مائوں کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ عدالت نے سموگ سے متعلق جامع پالیسی بنانے،معذور بچوں پر تشدد روکنے کیلئے گارڈز کی تعیناتی،پولیس آرڈر کے مطابق نئے آئی جی پنجاب کی تعیناتی اور بزرگ پنشنترز کو پنشن کی ادائیگی کا حکم دیا گیا۔سرکاری محکموں کے سربراہوں میں سب سے زیادہ توہین عدالت کی درخواستیں آئی جی پنجاب کے خلاف دائر ہوئیں۔سرکاری محکموں میں سب سا زیادہ درخواستیں پولیس کے خلاف دائر کی گئیں جبکہ واپڈا دوسرے اور محکمہ مال تیسرے نمبر پر رہا۔عدالت عالیہ میں سیکورٹی کے انتظامات کو فول پروف بنایا گیا۔سپریم کورٹ بار کے انتخابات میں عاصمہ جہانگیر گروپ نے کامیابی حاصل کی جبکہ لاہور ہائی کورٹ بار کا الیکشن حامد خان گروپ نے جیتا۔ لاہور ہائی کورٹ میں ججز کی مجموعی تعداد50ہے اس طرح رواں سال کے اختتام تک10آسامیاں خالی رہیں۔ چیف جسٹس منصور علی شاہ نے سائلین کو بروقت انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانے سے متعلق اصلاحات کرکے نئی تاریخ رقم کردی، جسٹس سید منصور علی شاہ نے سال 2017کے آغاز میں ہی اس سال کو عدلیہ کے لیے اصلاحاتی سال قرار دیا۔پنجاب کے 36اضلاع میں مصالحتی عدالتیں قائم کردی گئیں اور یوں فیملی،سول،فوجداری اور دیوانی کیسز بھی مصالحتی عدالتوں کو بھجوائے جانے لگے جس میں سے 70فیصد کیسز باہمی رضامندی دی سے نمٹادئیے گئے ان عدالتوں کے بڑھتی پذیرائی کے باعث چیف جسٹس منصور علی شاہ نے ان عدالتوں کی تعداد بھی بڑھانے کا فیصلہ کرلیا۔وکلاء کا کہنا ہے عدلیہ کو اصلاحات کی ضرورت تھی جسے چیف جسٹس منصور علی شاہ نے مکمل کردیا۔