کڑوا سچ
یا تو کچھ ایسا لکھیں جو پڑھنے کے قابل ہو یا کچھ ایسا کریں جو لکھنے کے قابل ہو وہ ہستی جو اپنی ذات میں محبت، چاہت اور عقیدت کے کئی رشتے سمیٹے ہوئے مجھے قدم قدم پر اپنے عمل سے اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے اور جب کبھی میرے عمل میں کوئی کوتاہی کوئی لغزش دیکھتی یا محسوس کرتی ہے تو فوراً اس کی اصلاح کی طرف میری توجہ بھی دلاتی ہے۔ اس ہستی نے پچھلے ہفتے میرے کالم کی اشاعت پر اس قول کا حوالہ دیتے ہوئے مجھے یاد دلایا کہ دنیا میں وہی تحریریں زندہ رہتی ہیں جس میں پوری سچائی بیان ہو کیونکہ جہاں ادھورا سچ خود کہنے والے یا لکھنے والے کی ذاتی خواہشات یا بُغض کو بے نقاب کرتے ہوئے راقم کی شخصیت کو مسخ کرنے کا باعث بنتا ہے وہیں پر ادھورا سچ معاشرے میں سدھار کا راستہ بھی روکتا ہے۔ لہذا لکھنے والے پر یہ لازم ہوتا ہے کہ وہ پورا سچ لکھے۔ میرے پچھلے کالم "اک بار" کے اختتامی جملوں کا حوالہ دیتے ہوئے میری زندگی کے ہمسفر نے مجھے کہا کہ تم نے صحیح کہا کہ میرے پاکستان کا مستقبل بہت روشن نظر آتا ہے اگر اسے کمال آتا ترک، امام خمینی یا پھر اک بار قائداعظم جیسا لیڈر مل جائے۔ لیکن بقول اسکے پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں ایک اور کڑوا سچ بھی موجود ہے جسکا نام ذوالفقار علی بھٹو ہے۔ اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے وہ کہنے لگی کہ دنیا میں ماسوائے حضور نبی اکرم کوئی ایسی ذات نہیں جو کسی کمی ، نقص یا عیب سے محفوظ ہو اور اسکا ہر عمل تنقید یا مواخذے کی گرفت سے آزاد ہو۔ قائداعظم کی ذات کا حوالہ دیتے ہوئے اس نے کہا کہ اس ملک کے اسلام پسند ٹھیکیداروں نے اس شخص کو بھی کیسی کیسی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا اور کیسے کیسے القابات سے نہیں نوازا لیکن جب انکی مجموعی کارکردگی اور انکے ثمرات کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے تو پھر انکے نقادوں کے اخلاقی دیوالیہ پن پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ بھٹو کی ذات کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہنے لگی کہ بیشک بھٹو کے ذاتی کردار کے حوالے سے لاتعداد نقاد اس پر انگلیاں اٹھاتے ہیں لیکن یہ بھی دیکھو کہ اپنے ذاتی کردار کے حوالے سے ایک جلسہ عام میں وہ شخص آدھا سچ بولنے کی بجائے نتائج کی پرواہ کئے بغیر کیسے پورا سچ بول جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ آدھا سچ وقتی فائدہ تو دے دیتا ہے لیکن جب تاریخ حقیقت اشکار کرتی تو پھر ایسے ایسے القابات انسان کا مقدر بنتے ہیں کہ خُدا پناہ اپنے اصل مدعے کی طرف آتے ہوئے وہ کہنے لگی گو کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے بھٹو کے مخالف اس پر کڑی تنقید کرتے ہیں لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اس بارے تاریخ کیا کہتی اور لکھتی ہے کیونکہ تاریخ بغیر ثبوتوں کے نہ کچھ مانتی ہے اور نہ کچھ لکھتی ہے۔ وسعت نظری سے دیکھا جائے تو اسکی اس دلیل میں بڑا وزن بھی دکھائی دیتا ہے۔ تھوڑی سی گہرائی میں جائیں تو اس سلسلے میں حمودالرحمان کمیشن کی رپورٹ بہت بڑی سچائی دکھائی دیتی ہے جہاں حقیقتیں کچھ اور ہی رنگ دکھاتی ہیں۔ یہ تمام حقیقتیں اپنی جگہ اور تنقید سر آنکھوں پر لیکن بقول میری شریک حیات مفروضوں کی دنیا سے نکل کر حقائق کی دنیا کا سفر بھی کرنا چاہیئے۔ حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جب بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو پاکستان کس دوراہے پر کھڑا تھا اور کیا اپنے سے پہلے اور بعد میں آنے والے سربراہان کے مقابلے میں اپنے اقتدار کے دوران اسکی کوئی ایسی خدمات ہیں جنکو پاکستان کی تقدیر کے حوالے سے سنہرے الفاظ میں لکھا جا سکے۔ آئیے اس سلسلے میں اس وقت کے حالات کے تناظر میں اس کی کارکردگی کا تاریخی جائزہ لیں۔ بھٹو جس وقت جس ملک کا اقتدار سنبھالتا ہے اس وقت اس ملک کے ترانوے ہزار فوجی اور سترہ ہزار مربع میٹر کا علاقہ اسکے دشمن ملک کے قبضے میں ہوتا ہے وہ مخالف ملک سے مذاکرات کر کے نہ صرف اپنے قیدی چھڑواتا ہے اور اپنا علاقہ واگزار کرواتا ہے بلکہ خطے میں پائیدار عمل کیلئے شملہ معاہدے کی صورت میں ایک واضع روڈ میپ کی پہلی اینٹ بھی رکھتا ہے۔ اپنے قیام سے لیکر پچیس سال تک آئین سے محروم ملک کو ایک متفقہ آئین دیتا ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ لوگوں کی صحیح سیاسی تربیت نہ کر سکا لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ ملکی تاریخ میں پہلی بار لوگوں کو سیاسی شعور دینے کا سبب بنتا ہے۔ ملک میں پہلی بار شراب پر پابندی کا اعلان کرتا ہے۔ جمعہ کو ہفتہ وار تعطیل قرار دیتا ہے، قادینیت کا مسئلہ عدالت سے حل کرواتا ہے، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی نہ صرف داغ بیل ڈالتا ہے بلکہ دنیا کے تمام اسلامی ممالک کو تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ایسے پلیٹ فارم پر اسطرح کھڑا کر دیتا ہے کہ سامراجی قوتیں حیرت کی تصویر بنے ایک دوسرے کا منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ 1972ء سے لیکر 1977ء کے اس درمیانی عرصے میں ہونے والی پیشرفتوں کا جب آج کل صورتحال سے موازنہ کرتا ہوں تو پھر بغیر کسی بْغض کے تاریخی حوالوں سے یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ یہ بھٹو کی ذات کا ہی کرشمہ اور اس کی اپنائی ڈپلومیسی کا نتیجہ تھا کہ دو مختلف فرقوں کے معمار وہ سعودی عرب اور ایران جو اج ایک دوسرے کی جان کے دشمن نظر آتے ہیں کس طرح اس زمانے میں جب سردار داؤد افغانستان سے پاکستان دشمن کاروائیوں میں مصروف تھا اکھٹے ہو کر اسے نہ صرف ان کارروائیوں سے روکتے نظر آئے بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہی سردار داؤد پاکستان کا اتحادی بنتا نظر آیا۔ماضی کے ان جھروکوں میں جب تمام اسلامی مملکتوں کے سربراہان 1974ء میں لاہور میں اکھٹے ہوئے تھے جھانکتا ہوں تو وہ سچ جو اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا حقیقتاً ادھورا سچ لگنا شروع ہو جاتا ہے دل کرتا ہے کہ پورا سچ لکھوں اور بھٹو کے نام کا اضافہ کر کے پورے سچ کو مکمل کروں کیونکہ کہ یہی تاریخی اور پورا سچ ہے کہ مذہب کے نام پر اگر وہ شخص ان سامراجی فاشسٹ قوتوں کے انتقام کا نشانہ نہ بنتا تو شائد اج عالم اسلام کے مکین آپس میں اسطرح دست و گریبان نہ ہوتے جیسے اج ہیں اور رہا پاکستان تو وہ شائد دنیا کے نقشے میں کسی ایسے مقام پر فائز ہوتا جو بڑی طاقتوں کا مقدر ہوتا ہے۔ جہاں یہ سچ لکھ رہا ہوں وہاں اسکی روشنی میں اس سچ کے ساتھ دو اور کڑوے سچ قلمبند کرنا چاہونگا جو شائد بہت سی حقیقتیں واضع کرنے کے ساتھ فکری سوچیں بھی بیدار کر دیں۔ پہلا سچ بقول ابنِ رْشد، "جاہلوں! پر حکمرانی کرنا چاہتے ہو تو "مذہب" کا غلاف اوڑھ لو"۔ جبکہ اسی عالم اسی دانشور کا دوسرا قول ہے "جس معاشرے میں ایک طبقے نے مذہب کو کاروبار بنا کر کمائی کی۔ تشدد کو اس معاشرے میں بہت فروغ حاصل ہو گا۔" دونوں سچائیوں پر غور کریں کیا اپکا اجکا معاشرہ ان سچائیوں کا حقیقی عکاس نہیں۔ یہاں صرف اتنا کہونگا اب بھی بہتر مستقبل کی امید کرتے ہو تو کڑوے سچ برداشت کرنے کی ہمت پیدا کرو اور انکا سامنا کرو، مذہب اور سیاست کو علیحدہ علیحدہ کر دو، آسانیاں خود بخود پیدا ہو جائیں گی ورنہ سو جوتے بھی کھاؤ اور پیاز بھی کہ یہی تمہارا مقدر ہے۔