بے نظیر بھٹو کی 10ویں برسی کے موقع پر
محترمہ بے نظیر بھٹو کی آج 10ویں برسی ہے۔ بے نظیر بھٹو سے میری پہلی ملاقات ان دنوں ہوئی جب وہ آنسہ (مِس) تھیں۔ یہ ملاقات فخر زمان کی رہائش گاہ (ماڈل ٹائون لاہور) میں ہوئی جو اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کے ثقافتی ونگ کے کنوینر تھے۔ بے نظیر بھٹو کے اعزاز میں اس استقبالیے میں تقریباً پونے دوسو کے قریب ادیبوں، شاعروں ، دانشوروں، صحافیوں، سیاست دانوں اور ماہر ین تعلیم نے شرکت کی۔ فخر زمان نے بے نظیر بھٹو کا حاضرین سے فرداً فرداً تعارف کرایا۔ بے نظیر بھٹو نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی جلد ہی ایک کلچرل پالیسی کا اعلان کرے گی جس کا مقصد عوامی کلچر کا فروغ اور کلچر سے متعلق مختلف اداروں مثلاً ریڈیو، ٹی وی، تھیٹر اور فنون لطیفہ کے اداروں کی کارکردگی کو بہتر اور موثر بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ٹی وی کے دو چینل بنائے جائیں گے، ایک چینل صرف پاکستانی زبانوں کے پروگراموں کے لئے مخصوص کیا جائیگا۔ ریڈیو ، ٹی وی سے وابستہ ادیبوں،شاعروں اور فنکاروں کے معاوضے بڑھائے جائیں گے۔ بے نظیر بھٹو نے سماج میںادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے کردار کے بارے میں کہا کہ وہ سماجی حقیقتوں سے روگردانی نہیں کرسکتے۔ سچا ادیب، شاعر اور فنکار وہ ہے جو عوام کے دکھوں کا شدید احساس رکھتا ہو اور جو پاکستان کی بقا کی خاطر، عوام کی خوشی کی خاطر، رجعت پسندانہ اور آمرانہ طاقتوں سے کھل کر جنگ کرے۔ انہوں نے کہا عوام کی حکمرانی کیلئے دانشوروں کو مکمل جدوجہد کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ کمرشل فلموں کے ساتھ ساتھ آرٹ فلمیں بھی بننی چاہئیں، جن کا ہماری سماجی حقیقتوں سے تعلق ہو اور جو عوام کے دکھوں اور غموں کی صحیح عکاسی کرسکیں۔ استقبالیے میں حبیب جالب، ظہیر کاشمیری، احمد راہی، الطاف احمد قریشی، احمد بشیر، ایس ایم مسعود، نعیم طاہر، ایلس فیض، پروین عاطف، زبیر رانا، اختر قزلباش، حسین نقی، عبدالحی، نائیک اوردیگر نے بے نظیر بھٹو سے ثقافت کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سے میری دوسری ملاقات 1989میں ہوئی جب وہ وزیراعظم تھیں۔ سید افضل حیدر نے لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بابا فریدؒ بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی۔ اس کانفرنس کی صدارت وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے کی تھی۔ کانفرنس کی انتظامی کمیٹی کا میں رکن تھا۔ فخر زمان ان دنوں پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر تھے۔ انہوں نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ چوہدری اعتزاز احسن وزیر داخلہ تھے۔ ان سے گپ شپ رہی، محترمہ بے نظیر بھٹو نے صدارتی خطاب میں کہا کہ آج اس دور میں حضرت بابا فریدؒ جیسے صوفیا ہی کی ضرورت ہے ایسے صوفیا کی جو اپنے اخلاص، عمل اور پیار سے لوگوں کے لئے مثال بن سکتے ہیں حقیقی درویش اور صوفی وہ ہوتا ہے جو تخت و تاج کا طلب گار نہ ہو۔ جسے کرسی اور حکومت کی چاہت نہیں ہوتی۔ بابا فرید کی تمام زندگی انسانیت کی خدمت اور انسانیت سے محبت کی زندگی ہے انہوں نے مجبور انسانوں کو محبت اور پیارکا درس دیا۔ وہ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے والے صوفی ہیں۔ آئیں عہد کریں کہ ہم بھی انسانیت کی خدمت کریںگے اور بابا فریدؒ کے نقش قدم پر چلیں گے۔ بے نظیر بھٹو نے یہ بھی کہا کہ ’’میں حیران ہوں، پنجابی کیوں پنجابی نہیں بولتے اور پڑھتے‘‘ بے نظیر بھٹو کی تقریر کے بعد میں نے انہیں اپنا پنجابی شعری مجموعہ ’’جیون پل صراط‘‘ پیش کیا اور پنجابی میں گفتگو کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی پنجابی زبان میں میرا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں اس کو پڑھنے کی کوشش کروں گی۔ حبیب جالب نے بے نظیر بھٹو کے بارے میں یہ شعر کہا تھا …؎
ڈرتے ہیں بندو قوں والے
ایک نہتی لڑکی سے
بے نظیر بھٹو نے لندن میں جلاوطنی اختیار کرلی۔ جہاں ان کا بار بی کان کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں قیام تھا۔ 10اپریل 1986ء میں ان کے استقبال کیلئے لاکھوں لوگ جمع ہوگئے۔ بے نظیر بھٹو نے مینار پاکستان میں ایک عظیم الشان جلسہ عام سے خطاب کیا۔ اس جلسے میں بے نظیر بھٹو نے ڈاکٹر خالد جاوید جان کی مشہور نظم ’’ میں باغی ہوں‘‘ پڑھی تھی۔ ڈاکٹر خالد جاوید جان کا کہا تھا کہ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں اس جلسے میں جاکر اپنی نظم کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی زبانی سننے کے تاریخی لمحات کا حصہ نہ بن سکا۔ استقبالی ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ مینار پاکستان تک نہ پہنچ سکا اس سے اگلے دن انہوں نے یہ نظیم دھوبی گھاٹ فیصل آباد کے جلسے میں بھی پڑھی۔ ڈاکٹر جان کا کہنا تھا کہ 27نومبر 1992ء کو محترمہ بینظیر بھٹو نے میری کتاب میں باغی ہوئے کی تقریب میں شرکت کی جو لاہور جم خانہ کے سامنے واقع ایک ہوٹل میں ہوئی۔ اس موقع پر بے نظیر بھٹو نے کہا کہ یہ میری پسندیدہ نظم ہے کیونکہ اس میں پاکستان کے تمام سماجی اور سیاسی مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے ملک غلام نبی (مرحوم) کا شمار قائداعظمؒ کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔ انہیں حسین شہید سہروردی کی محبت اور پیار بھی ملا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف انہیں قابل اعتماد جانا بلکہ اپنا مونس اور رفیق بھی سمجھا۔ انہیں وزیر تعلیم مقرر کیا گیا۔ ملک غلام نبی کی یاددشتوں پر مبنی کتاب ’’قصہ ایک صدی کا‘‘ 2004ء میں شائع ہوئی۔ ملک غلام نبی کا انتقال 16اکتوبر 2009ء میں ہوا۔ ملک صاحب نے محترمہ نظیر بھٹو کی شخصیت اور ان کے ادوار حکومت کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا’’مجھے شدید کرب کا احساس ہے کہ جناب ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات کی خوشگوار یادیں، ان کی شفقتیں، غرض جتنا بھی یاد کروں، اتنا کم ہے۔ وہ اپنا مشن مکمل نہیں کرسکے۔ ظالموں نے انہیں اس کی اتنی مہلت ہی نہیں دی۔ ان کی شہادت کے بعد ان کے مشن کی تکمیل کے حوالے سے جو امید کی کرن نظر آئی وہ بے نظیر بھٹو کی ذات تھی۔ بھٹو صاحب نے خود بھی اپنی زندگی ہی میں بے نظیر بھٹو کے مستقبل کے بارے میں اچھی توقعات کا اظہار کیا تھا۔ ان کی قابلیت اور خداداد صلاحیتوں کے متعلق کسی کو بھی انکار نہیں۔ جناب بھٹو شہید کی پھانسی کا قرض عوام نے 1988ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کی الیکشن میں اکثریت میں کامیابی کی شکل میں ادا کردیا جب بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ وزیراعظم کی مسند پر جلوہ افروز ہوئیں تو عوام کو ان سے کئی امیدیں وابستہ تھیں۔ بھٹو کی بیٹی ہونے کی وجہ سے لوگوں کی سماعت میں اب بھی روٹی، کپڑا اور مکان کا خوش کن نعرہ گونج رہا تھا۔ وہ پرُ امید تھے کہ ملک میں غریب لوگوں کی خوشحالی کے اقدامات کئے جائیں گے جن سے بے بس غریبوں کے حالات زندگی بہتر ہوجائیں گے۔ نہ جانے وہ کیا عوامل اور اسباب تھے جن کی بنیاد پر وہ غریب عوام کی توقعات پر پورا نہ اترسکیں۔ اپوزیشن نے بے نظیر بھٹو کے شوہر پر مختلف الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ کراچی میں مزار قائداعظم کے قریب شاہراہ قائدین پر اپوزیشن جماعتوں کا ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا جس میں مقررین نے آصف علی زرداری کو تنقید کا نشانہ بنایا، بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد میں نے نظم لکھی جوآپ کی نذر ہے۔
بھٹو کی وہ بیٹی
اس نے اندھیاروں میں سورج بوئے
مرنے سے وہ کب ڈرتی تھی
وہ تو موت سے آنکھ ملاکر ہنستی تھی
اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر
خطرات میں کود جاتی تھی
جبر کے طوفان روک لیتی
دھرتی کی وہ بیٹی
دھرتی پر قربان ہوئی
اس کی اس شہادت اوپر
مائوں نے اپنے اشکوں سے
اپنے ساتھ بھگوئے ڈوپٹے
موت سے بڑھ کر اسے یقین تھا
نئی صبح کا ایک دن سورج چمکے گا
ظالم دور کی یہ زندگی بھی
اپنی موت مرے گی
بھوک اورتنگ دستی، محتاجی
دیس پہ کب تک راج کرے گی۔
٭٭٭