• news
  • image

بینظیرقتل: کھوج لگانے، کھرا مٹانے والے

بینظیربھٹو قتل کے حوالے سے ایک رپورٹ میڈیا میں گردش کر رہی ہے جس میں اسامہ بن لادن کو بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو مارنے کے بعد اسکے گھر سے ملنے والے کاغذات میں ایک میمو ملا ہے جو بینظیر بھٹو کے قتل کے صرف دو دن بعد بن لادن کو دیا گیا تھا جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی میں اسامہ بن لادن کے ساتھ عبیدہ المصری اور بیت اللہ محسود شامل تھے جو مارے جاچکے ہیں۔ اسکے علاوہ منصوبہ بندی کی پلاننگ، سہولت ، خودکش بمبار اور منصوبے پر عملدرآمد کرنیوالے 15 افراد شامل تھے جس میں سے 8 افراد ماردیئے گئے ہیں جبکہ 5 گرفتار اور 2 مطلوب ہیں۔اسے انکشاف کا نام دیا جارہا ہے۔ اس میں انکشاف والی کوئی بات نہیں۔ اسامہ بن لادن کو امریکہ نے ایبٹ آباد میں قتل کیا تو وزیر داخلہ رحمان ملک نے اس موقع پر یہی بات کی تھی۔ بینظیربھٹو قتل کیس اتنا الجھا ہوا نہیں ہے۔ قاتل بڑے منصوبہ ساز ہوتے ہیں مگر سسٹم آزاد فعال اور ماہر ہاتھوں میں ہو تو قاتل کو پاتال سے بھی نکال لایا جاتا ہے۔ اگر سسٹم ہی میں مجرمانہ ذہنیت کارفرما ہو تو؟

بینظیربھٹو کیس میں جہاں کھوج لگانے والے نظر آتے ہیں وہیں کھرا مٹانے والوں کو بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ بینظیربھٹو کا قتل سادہ سی پلاننگ سے نہیں ہوگیا۔ فائرنگ خودکش دھماکہ، فول پروف پلاننگ، مگر بہت سے سوالات، اب بھی جواب طلب ہیں۔ روٹ بدلنا‘ خالد شہنشاہ کا اشارے کرنا‘ بینظیر کا گاڑی کی چھت سے نکلنا‘ سیکرٹری داخلہ بریگیڈیئر جاوید اقبال کی عجلت میں پریس کانفرنس، آڈیو ٹیپ سنانا اور قتل کی وجہ گاڑی کے لیور کو قرار دینا‘ بینظیر کے سکیورٹی چیف اور ساتھیوں کا رفوچکر ہونا‘ پوسٹ مارٹم نہ ہونے دینا‘ ایسے بہت سے سوالات کا جواب نہیں مل سکا، کیوں؟ ہمارے ہاں اصل مسئلہ قاتل نہیں قاتلوں کے پیچھے مضبوط اور خفیہ ہاتھ ہیں۔ گاڈ فادر کی اصطلاح بڑی معروف ہوئی۔ اس پر ذرا سرسری نظر ڈال لیتے ہیں۔
ماریو پوزو کے ناول ’’گاڈ فادر‘‘ پر ایک نہیں کئی فلمیں بن چکی ہیں۔ یہ اٹلی سے امریکہ آنیوالے ایک خاندان کی کہانی ہے جس کا سربراہ ویٹو کارلیون جرم کی دنیا کا گاڈ فادر ہے۔ ویٹو کارلیون دوستوں کا دوست ہے لیکن جو اسکی ذات کا وفادار نہیں واجب القتل ٹھہرایا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے داماد کو بھی معاف نہیں کرتا۔ اس نے1934ء میں ایک دلچسپ منصوبہ بنایا‘ اس نے ایک یونیورسٹی پروفیسر اور ایک ریٹائر سیاستدان کی خدمات حاصل کیں‘ پروفیسر نے اٹلی کی مختلف یونیورسٹیوں کا دورہ کیا اورگاڈ فادر کو تمام باصلاحیت طالب علموں کی فہرستیں بنا دیں‘ بزرگ سیاستدان نے اسے ان تمام لوگوں کے نام اور پتے فراہم کردیئے جو مستقبل قریب میں بڑے سیاستدان ثابت ہوسکتے تھے‘ گاڈ فادر نے ان طالبعلموں اور سیاستدانوں کی مالی اور سماجی معاونت شروع کردی‘ اس نے ان تمام طالب علموں کو وظائف دیئے‘ انہیں امریکہ اور برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیوں میں تعلیم دلائی اور اسکے بعد انہیں اٹلی کے بڑے بڑے سرکاری‘ نیم سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں بھرتی کرادیا‘ اس نے چھوٹے چھوٹے سیاستدانوں کی پشت پناہی کی اور انہیں سیاست کے مرکزی دھارے میں داخل کرادیا‘ اس نے قانون دان جمع کیے اور ان میں سے بے شمار وکیلوں کو جج بنوا دیا‘ اس نے اپنے ریکٹ کے لوگوں کو سفیر‘ مشیر اور وزیر بنوایا‘ اس نے اپنے لوگوں کو صنعت کار‘ تاجر اور بروکر بنوایا اور اس نے اپنے لوگوں کوبینکار اور ماہر معیشت بنوایا‘ یہ تمام لوگ ابتدا میں اٹلی اور اسکے بعد پورے یورپ میں پھیل گئے اور انہوں نے آگے چل کر بے شمار ملکوں کی معیشت اور سیاست اپنے ہاتھ میںلے لی‘ گاڈ فادر دوم نے اپنے والد کے سلسلے کو امریکہ‘ لاطینی امریکہ اور مغربی یورپ تک پھیلا دیا‘ اس نے آدھی دنیا کو اپنے دائرے میں لے لیا‘ ایک وقت ایسا تھا جب گاڈ فادر کے حکم سے پورے یورپ کے قوانین بدل جاتے تھے‘ وہ شخص حقیقتاً دنیا پر حکومت کرتا تھا‘ دنیا میں جس شخص نے گاڈ فادر کیخلاف رپٹ لکھنی ہوتی تھی وہ گاڈ فادر کا ہرکارہ نکلتا‘ جس نے اس رپٹ پر دستخط کرنے ہوتے تھے‘ جس نے مہر لگانی ہوتی‘ جس نے اسکی گرفتاری کا حکم جاری کرنا ہوتا‘ جس نے چھاپہ مارنا ہوتا‘ جس نے اسے عدالت میں پیش کرناہوتا‘ جس وکیل نے اسکے خلاف الزامات لگانے ہوتے تھے‘ جس سیاست دان نے اس کیخلاف قانون بنانا ہوتا اور جس وزیر‘ جس وزیراعظم نے اس کیخلاف پریس کانفرنس کرنی ہوتی وہ بھی اسکے ’’پے رول‘‘ پر ہوتا تھا‘ وہ بھی اپنی ہر صبح کا آغاز گاڈفادر کے پائوں چھو کر کرتا۔
گاڈ فادر ہمارے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ فوجی حکمران بالخصوص اورعوامی حاکم بالعموم، مگر وہ اتنی طویل پلاننگ اور منصوبہ بندی کا تکلف نہیں کرتے۔ بنے بنائے اداروں اور اس قماش کے افراد کو لالچ، دھونس سے یا خوفزدہ کرکے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ بینظیربھٹو طالبان کے ہاتھوں قتل ہوئیں‘ اسامہ بن لادن پیچھے تھا یا بیت اللہ محسود تھا۔ ایک موقع پر بیت اللہ محسود کہا تھا کہ بینظیربھٹو کو بکری کی طرح ذبح کر دینگے۔ تاہم قتل کے بعد اس نے لاتعلقی ظاہر کی تھی حالانکہ ان لوگوں کی روایت ناکردہ قتل بھی قبول کرلینے کی ہے۔ اسامہ بن لادن یا بیت اللہ محسود نے بینظیربھٹو کو نام نہاد جذبہ ایمانی کے تحت مروا دیا یا کسی کا مہرہ بنے تو سوال پیدا ہوتا ہے ان کو پوری طرح سے سامنے کیوں نہیں لایا گیا؟ جو ان کو سامنے لانے سے گریزاں رہا ہے اصل قاتل ہونے کے اشارے اسی طرف ہی ہوں گے۔ کیا قاتل کبھی بے نقاب ہو سکیں گے۔ اس سوال کا جواب بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اقوامِ متحدہ کے کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منوزنے دیا ہے، جن کا تعلق چلی سے تھا، اس نے کہاتھا۔’’شاید کوئی بھی حکومت بینظیر قتل کیس کی الجھی ہوئی پہیلیوں میں سے سچ ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب نہیں ہوگی، یا پھر ایسا کرنا نہیں چاہے گی‘‘۔
مشرف اور آصف علی زرداری دونوں بینظیربھٹو کے قتل کا ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں۔ کون سچا اور کون جھوٹا اس کا فیصلہ تو عدالتوں نے کرنا ہے۔ ذرا آپ بھی ذہن پر زور دے کر سوچیں کہ ان میں سے گاڈ فادر کی سی حیثیت کس کی رہی ہے؟ یہاں بینظیر قتل کے ایک تفتیش کار طارق کھوسہ کے کالم کے اقتباس کر تذکرہ بھی برمحل ہوگا:’’میری زیرِ سرپرستی ایف آئی اے کو 6 اگست 2009 کو تحقیقات پنجاب پولیس سے اپنے ہاتھ میں لینے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ تحقیقات کا خفیہ نام 'آپریشن ٹروجن ہارس' رکھا گیا۔پی پی پی کی ترجمان شیری رحمان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی موت گولی لگنے سے ہوئی ہے۔ ان بیانات اور خالد شہنشاہ کے مشکوک رویے کی گہری جانچ کرنے کی ضرورت تھی۔ خالد شہنشاہ ایک سکیورٹی گارڈ تھے جنہیں ٹی وی فوٹیج میں بینظیر کے قتل سے کچھ منٹ قبل ان کے اسٹیج پر کھڑے ہو کر مشکوک اشارے کرتے دیکھا جا سکتا تھا۔ہم نے تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ داخلہ رحمان ملک سے مدد مانگی، جو کہ بینظیر بھٹو کے چیف سکیورٹی آفیسر تھے۔ میں نے انہیں 12 اگست 2009 کو انکے بااعتماد اسٹاف اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے کے ذریعے ایک خط ارسال کرتے ہوئے چند چیزیں طلب کیںجن میں خصوصی طور پرمندرجہ ذیل شامل تھیں۔
1: بینظیر بھٹو کی جانب سے 16 اکتوبر 2007 کو جنرل مشرف کو لکھے گئے خط کی نقل۔2: بینظیر بھٹو کی جانب سے مارک سیگل اور دیگر افراد کو بھیجی گئی ای میلز کی نقل، 2: بینظیر بھٹو کی وصیت کی نقل۔3: بینظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے درمیان طے پانے والے حتمی معاہدے کی نقل۔ مجھے میری اس درخواست کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
وفاقی وزیرِ داخلہ کی رہائش گاہ پر 25 نومبر 2009 کو ہوئی ایک اور اہم میٹنگ میں ایف آئی اے کے تفتیش کاروں نے تحقیقات میں پیشرفت کا جائزہ لیا، اور متعلقہ ایجنسیوں سے مرکزی مشکوک شخص عبادالرحمان کی خیبر ایجنسی سے گرفتاری کے بارے میں استفسار کیا۔ انہیں مزید ثبوت اکٹھے کرنے کے لیے مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کا دورہ کرنے کی بھی اجازت دی گئی تھی۔ افسران کو اہم ذرائع سے شواہد اکٹھے کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اور امریکا بھی بھیجا گیا، تاکہ اس سازش پر مزید روشنی ڈالی جا سکے۔تفتیش کاروں کے لیے واضح راستہ متعین کرنے کے چند دن بعد ہی میرا ایف آئی اے سے تبادلہ کر دیا گیا۔مشرف اور زرداری ایک دوسرے پر بینظیر بھٹو کے قتل کا الزام لگا رہے ہیں۔ کیوں نہ دونوں سے روایتی پولیس انداز میں تفتیش کرلی جائے۔

جہاں آراء وٹو

جہاں آراء وٹو

epaper

ای پیپر-دی نیشن