• news
  • image

بینظیر مینار سیاست کی شہادت

بینظیر بھٹو! اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں۔ آصف زرداری سے شادی کے باوجود انہوں نے اپنے نام کو اپنے محترم والد کے ساتھ لکھنا پسند کیا۔ بینظیر کی سیاست میں آمد مجبوری تھی تب وہ دبلی پتلی لڑکی تھیں اور باپ پھانسی پر لٹکنے جارہا تھا۔ سخت مارشل لاء کی وجہ سے وہ زیادہ بڑی ہلچل پیدا نہ کرسکیں‘ پھانسی کے بعد جیل اور جلاوطنی کے مصائب ان کا مقدر بن گئے۔جہاد افغانستان کے نام پر جنرل ضیاالحق نے امریکہ کی قربت حاصل کرلی۔ یوں سات برس تک بینظیر سیاست میں اثرورسوخ کا بڑا مظاہرہ نہ کرسکیں۔ 1985ء میں غیرجماعتی انتخابات ہوئے‘ حالات تبدیل ہونے لگے اور عالمی دبائو کے تحت جنرل ضیاالحق بینظیر کی جلاوطنی کو طویل کرنے میں ناکام ہوگئے۔اپریل 1986ء میں بینظیر لاہور ایئرپورٹ پر اتریں تو عوام کے جم غفیر نے ان کا والہانہ اور فقیدالمثال استقبال کیا۔ آمریت ہار گئی اور ایک نوجوان خاتون جیت گئی۔ بینظیر نے پورے ملک کا دورہ کیا وہ ایک نظم ’’باغی‘‘ جلسوں میں جوش و خروش سے پڑ ھتی تھیں۔ اپنے جلسوں میں آمریت کو نشانہ بناتیں‘ عوام کی بڑی تعداد ہر جگہ ان کا استقبال کرتی۔ ایک نیا سورج طلوع ہورہا تھا۔17 اگست 1988ء کو ضیاالحق طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوگئے… امریکہ کے زیراثر پاکستان میں جمہوریت Restore کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔بینظیر کے سیاسی مقابلے کیلئے فوج کے دماغ حمید گل مرحوم نے فیصلہ کیا کہ بینظیر کیخلاف نوازشریف کو مقابل کیا جائے … ایک سخت انتخابی مقابلے کے بعد بینظیر الیکشن میں کامیاب ہو کر پاکستان کی وزیراعظم بن گئیں … یہ جمہوریت کی فتح اور آمریت کی شکست تھی۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد بینظیر اقتدار پر فائز ہوگئیں۔ بظاہر بینظیر حادثاتی طور پر لیڈر بنیں مگر وہ بہت پڑھی لکھی اور ذہین خاتون تھیں۔ وہ ایک بلند قامت سیاست دان تھیں۔ ابتداء میں ہی ان کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہوا کہ تمام پرانے لوگ جو بھٹو صاحب کے اقتدار سے فیضاب ہوئے چھوڑ کر چلے گئے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی‘ ممتاز بھٹو‘ حفیظ پیرزادہ‘ رفیع رضا‘ مبشر حسن‘ میر علی احمد تالپور گروپ‘ غلام مصطفی کھر… یہ الگ بات ہے کہ یہ لوگ ادھر ادھر بھٹکتے رہے اور بینظیر سے ترک تعلق ان کے کام نہ آیا‘ نہ بعد میں کبھی سیاست میں قابل ذکر کردار ادا کرسکے۔اب سیاست‘ بینظیر کا شعبہ تھا اور وہ شب و روز اس میں دلچسپی لیتی تھیں۔ 1988ء سے 1999ء تک کے دور میں دوبار بینظیر وزیراعظم بنیں اور دوبارنوازشریف‘ بلاشبہ یہ دس برس کا عرصہ چند غلطیوں کے باوجود جمہوری دور تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں کوئی ایک شخصیت‘ رموز سیاست‘ ذہانت اور دانشمندی میں بینظیرکی ہم پلہ نہیں ۔ وہ سیاسی انتقام کی قائل نہیں تھیں۔ وہ بلاشبہ عظیم لیڈر تھیں … وہ بہت خوبصورت انگریزی بولتی تھیں‘ تحریر کے الفاظ چھوٹے تھے۔ پاکستان میں کب کسی معروف اور مقبول سیاست دان کی قدر ہوئی ہے۔ خود ان کی جماعت کے فاروق لغاری نے بحیثیت صدر بینظیر کی دوسری حکومت کو 58/2/B کے تحت معزول کردیا اور نوازشریف الیکشن کے ذریعے برسراقتدار آگئے۔ بینظیر کے دور حکومت میں جناب آصف زرداری ان کی حکومت کیلئے نیک نامی کا باعث نہ بن سکے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بینظیر کے بعد انہوں نے عہدہ صدارتی حاصل کرلیا یہ بھی بینظیر کا ثمر تھا‘ شہادت کے بعد ووٹ ان کے حامیوں پر غرض اور قرض بن گیا۔

27 دسمبر کی ایک شام راولپنڈی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کے بعد بینظیر لیاقت باغ سے واپس تشریف لے جارہی تھیں کہ انہیں شہید کردیا گیا۔ وہ گاڑی میں کھڑی ہوگئی تھیں۔ جو لوگ گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے ان کا کچھ نہیں بگڑا۔ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتا کہ بینظیر کس کی فرمائش پر گاڑی میں کھڑی ہوئیں؟ پاکستان کے عوام کیلئے یہ شام شام غریباں بن گئی۔ گاڑی میں کھڑے ہونے کی نہ وہ یہ غلطی کرتیں نہ موت کے حوالے ہوتیں مگر حیرت ہے اس سوال پر بہت کم غور ہوا ہے۔ جناب آصف زرداری نے اپنے دور صدارت اور پی پی کے دور حکومت میں سکاٹ لینڈ یارڈ سے تفتیش کرائی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ بینظیر سیاست کا مینار تھیں جسے منہدم کردیا گیا۔ بینظیر بلاشبہ شہید جمہوریت ہیں۔ وہ تب حوصلہ مند تھیں۔ اس سے پہلے ان کی کراچی آمد پر کارساز پر بم دھماکے ہوئے۔ کئی جانیں گئیں مگر دوسرے ہی روز بہت بہادری سے انہوں نے پریس کانفرنس منعقد کی اور زخمیوں کی عیادت کیلئے ہسپتال تشریف لے گئیں … ان کی شہادت سے پاکستان کا بہت نقصان ہوا۔ سیاست استحکام‘ عدم استحکام میں تبدیل ہوگیا۔ دنیا بھر میں عالمی سطح پر مقبول ترین بینظیر کے خون ناحق کی وجہ سے ملک کی بدنامی ہوئی۔ ایک بڑی لیڈر کی موت سے سیاست میں بہت بڑا خلاء پیدا ہوگیا۔بینظیر کے قتل سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ پی پی کی حکومت ان کے شوہر محترم آصف زرداری کی صدارت کے باوجود جو پانچ برس پر محیط تھی بینظیر کے قتل کا معمہ حل نہ ہوسکا یہ ’’خون ناحق‘‘ کیوں بہایا گیا آج بھی جنت الفردوس سے شہید بینظیر سوال کررہی ہے …؎
میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
قدرت کی عدالت بھی اپنے فیصلے صادر کرتی ہے۔
بینظیر پاکستان کی سیاست کی مایہ ناز اور قدر آور سیاستدان تھیں۔ یہ ستم ظریفی کی انتہاء ہے کہ ان کے خون ناحق کو بیدردی سے نظرانداز کیا گیا ہے۔ ان کی شہادت کے حوالے سے کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ اعتزاز احسن جیسے قانون دان صرف اس نکتے پر زور دیتے رہے کہ سڑک کو دھونے میں جلدی کیا تھی؟ اس سوال کی اہمیت ہے کہ بینظیر گاڑی میںکھڑی ہونے کی غلطی نہ کرتیں تو تب بھی ہلاک ہوجاتیں؟ اگر اس بات میں صداقت ہے تو بینظیر کو کس نے کہا کہ وہ گاڑی میں کھڑی ہوجائیں اور ہاتھ ہلا کر نعروں کا جوا ب دیں۔ اس سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا حالانکہ بینظیر کے خون ناحق میں سب سے زیادہ اہمیت اسی سوال کی ہے… پر پوچھے گا کون؟ کیا ان کے دوپٹہ میں گولی کا سوراخ تھا‘ دوپٹہ ہے کہاں؟ بلیک بیری فون کہاں غائب رہا…؟
جناب آصف زرداری کے حق میں بینظیر کی وصیت کے حوالے سے بھی سوالات ہوئے ہیں … بینظیر کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کرایا گیا؟ یہ بھی ایک سوال ہے جن قبائلی افراد پر قتل کا الزام لگایا گیا انہوں نے اس وقت تردید کی تھی… قاتل کون ہے‘ پنجاب پولیس تفتیش کرتی تو مسئلہ جلد حل کرسکتی تھی۔ بینظیر کی شہادت سے ہم نے پاکستان کی بے حد ذہین فہم و فراست کی حامل اور قد آور سیاستدان کو کھو دیا… بینظیر پر حملہ، پاکستان پر حملہ تھا، مگر ’’ہم عوام‘‘ ایک بہت بڑی لیڈر، ایک عظیم سیاسی قائد کو خراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ کیا کر سکتے ہیں۔ ان کی شہادت کو کئی برس ہو گئے مگر وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ہر کوئی مر کر امر نہیں ہو سکتا… یہ رتبہ صرف شہیدوںکوملتا ہے …؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشند

epaper

ای پیپر-دی نیشن