دو دہائیوں بعد بھی …
ایک خبر نظر سے گزری : باچا خان یو نیورسٹی چار سدہ میں مرد سٹوڈنٹس کو خواتین سٹوڈنٹس سے دور رہنے کا نوٹیفیکشن ۔۔۔ یہ خبر پڑھتے ہی مجھے اپنا بی کام والا زمانہ یاد آگیا۔۔ یہ تو پشاور یو نیورسٹی کی بات ہے۔ہم تو ، پاکستان کے سب سے بڑے کامرس کالج، ہیلی کالج لاہورکی طالبعلم تھیں۔ ضیا الحق کی باقیات دنداناتی پھر رہی تھیں، جن کا ایمان تھا کہ ،جان جائے تو جائے مگر آن نہ جائے اور پاکستان میںآن کے آنے جانے کی ساری زمہ داری عورتوں پر ہوتی ہے۔
ڈیڑھ دو ہزار لڑکے ، مگرہیلی کالج کی عزت کا سارابوجھ نازک سے50 لڑکیوں کے سیکشن پر تھا ۔ لڑکے آزادی سے گراونڈز میں کر کٹ کھیلتے اورلڑکیوں کو اپنی سہولت کے حساب سے تاڑتے ۔اس کے برعکس لڑکیوں کو حکم تھا کہ جب بھی وہ اپنی زنانہ کلاس سے باہر نکلیں،اپنی نظر یں اور آوازیں نیچی رکھیں ، کینٹین کا بڑا حصہ بھی ان لڑکوںکی ملکیت تھا ، اور لڑکیوں کے حصے کی کینٹین، ایک چھوٹا سا کھڈا تھی جس میں گھس کر انہیں آوازیں بھی نیچی رکھنے کا حکم تھا۔ مگرجب بھی کینٹین میں ہمارا گروپ جاتا، کینٹین کے بابا جی سر نکال کر ہمیں تنبیہ کر تے۔ کچھ وہ عمر لاابالی ہوتی ہے کچھ ہمارے خمیر میں بے پروائی اور شرارت ضرورت سے زیادہ تھی۔ اس لئے پرواہ نہ کر تے۔
ایک اور دکھ جو ہماری جان کو لاحق رہتا تھا۔ کینٹین کے بعدلائبیریری میں بھی ہمارا حصہ مختصر سا تھا۔ جہاںکتابوں کی شیلفیں نہیںتھیں بس بیٹھنے کے لئے کرسیاں اور میز کے درمیان میں ایک چھوٹی سی تکونی پلیٹ پڑی ہو تی جس پر SILENCE لکھا ہو تا تھا، ہم جاتے ہی اس پلیٹ کو اوندھے منہ رکھ کر ہنسنا، بولنا شروع کر دیتی تھیں اور جب لائبریرین غصے کی حالت میں اندر آتا اور ہمیں دیکھے بغیر تکونی پلیٹ کی طرف انگلی کا اشارہ کر تا اور پوچھتا: کیا "silence" لکھا نظر نہیں آتا۔ ہم بڑے اعتماد سے کہتیں "نہیں"۔ وہ ہمیں دیکھانے کے لئے جب ادھر دیکھتا تو اوندھے پڑےSILENCE کو دیکھ کر دانت کچکا کر رہ جاتا، مگر پہلے سے بھی زیادہ بارعب آواز نکال کر کہتا: "کیا تم لوگ چاہتی ہو کہ جمعیت تک تمہاری شکایت چلی جائے ۔۔۔"ْ؟ اس نام سے کچھ کمزور دل لڑکیاں سہم جاتیں اور کچھ ہمارے جیسی لاپرواہ اطمینان سے کہتیں۔ "یہ بھی ہو جائے ۔۔۔"۔
کچھ مزید قصے !!
تین چار لڑکیوں کے ایک گروپ نے کالج کی لائبریری کے گھٹے ہو ئے ماحول سے گھبرا کر، پنجاب یو نیورسٹی نیو کیمپیس کی مین لائبریری میں کالج ٹائم کے بعد اپنے سے سینئر ایک لڑکے سے ٹیوشن پڑھنے کی ٹھانی۔ وہ 18,19سال کی اس کچی عمر میں سمجھیں کہ شائد نیو کیمپس میں جہاں ہم سے ذرا بڑی عمر کے لوگ پڑھتے ہیں، ماحول ایسا سخت نہ ہو گا۔ مگر پکڑ وہاں بھی ہو گئی اور پو ری یو نیورسٹی کی عزت کے رکھوالے لیڈر ان کے سروں پر پہنچ گئے اور ان کی بُری طرح سرزنش ہوئی۔ یہ کہانی مجھے اگلے دن صبح کالج آتے ہی پتہ چلی۔ جو لڑکیاں وہاں مو جود تھیں، ان میں سے کچھ اس بلا وجہ بے عزتی پر ناراض تھیں اور کچھ سہمی ہو ئیں۔ بہرحال فیصلہ ہوا خوف ایک طرف، احتجاج تو بنتا ہے۔ کہیں سے چاک لیا اور کچھ جذباتی نعرے جیسے: "ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے ۔۔" گرتی ہو ئی دیوار کو ایک دھکا اور دو ۔۔ جن کا کوئی سر بنتا تھا نہ پیر، سب پرنسپل کے آفس کی دیوار پر لکھ دئیے، ایسے کاموں میں، میرے اندر بجلی سی بھر جا تی تھی، لہٰذا ، لائبریری گروپ کا پارٹ نہ ہو تے ہو ئے بھی، میں ہی اس ساری وال چاکنگ میں آگے آگے رہی۔چپڑاسی نے ہمیں منع کر نے کی کوشش کی، اس کا نام سہیل تھا، شائد ۔۔ ہم باز نہ آئیں۔ احتجاج آفس کی دیوار پر لکھ کر چلی گئیں یہ سوچ کر کہ پرنسپل کم از کم پڑھیں گے تو سہی۔ مگر یہ کیا تھوڑی دیر بعد وہاں سے گزر ہوا تو دیکھا، سہیل صاحب سب نعروں کے اوپر گیلا کپڑا پھیر چکے ہیں۔ بہت غصہ آیا، کم از کم پرنسپل کے آنے تک تو لکھا رہنے دیتا۔ اس سے لڑنے کے لئے اسے ڈھونڈا، وہ پر نسپل کے دفتر کے اندر ہی پا یا گیا، ایک خیال چھماکے سے آیا کہ کیا اس سے بحث کریں کیوں نا اسے کمر ے میں ہی بند کر کے باہر سے کنڈی لگا دی جائے۔ اس کے پیچھے سوچ یہ تھی کہ پر نسپل ہی آ کر اسے کھولیں گے مگر اس سے پہلے دیوار پر لکھے ہمارے احتجاجی نعرے بھی پڑھ لیں گے۔ نعرے پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے لکھے گئے۔ یہ سب کارروائی کر کے ہم سب سکون سے، جیسے دل کا کوئی بہت بڑا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو، جیسے ہم نے نا انصافی اور زیادتی کا بدلہ لے لیا ہو ، جا کر کلاس پڑھنے لگ گئیں۔اگلے دن وہی سہیل صاحب، جوش اور غصے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ہمارے سروں پر موجود تھے، ٹیچر کو کہا کہ یہ لسٹ ہے ان لڑکیوں کی جنہیں پرنسپل نے بلایا ہے، لسٹ میں تقریباً آدھی کلاس کے نام تھے۔ سب مجرموں کو دس منٹ کے اندر پرنسپل کے آفس حاضر ہو نے کا حکم ملا۔ ہم سب باغی قرار دی جا چکی تھیں۔ ہم سب ہاتھ باندھے پر نسپل کے سامنے جا کھڑی ہوئیں۔ چارج شیٹ پڑھی جانے لگی اور ہم سب کے سر جھکتے گئے۔ پہلا جر م: چھڑی کے ساتھ کالج گرائونڈز میں لگے درختوں سے امرود اتارنے کا تھا۔دوسرا جر م:کالج ختم ہو نے کے بعد فیلڈز میں پیٹھو گول گرم کھیلنے کا تھا۔
تیسرا جرم : لڑکوں کو آتے جاتے انتہائی دیدہ دلیری سے فقرے مارے جانے کا تھا۔ چوتھا جرم :کچھ لڑکیوں کا کالج لائبریری کے مردانہ حصے میں کھڑے ہو کر لڑکوں سے باتیں کرنے کا تھا ۔
اور سب سے بڑا جرم لائیبریری میں لڑکے لڑکیاں اکھٹے پڑھتے رنگے ہاتھوں پکڑ ے جانے کا تھا اور اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے انہوں نے بھرپور ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا تھا۔
جرم : پر نسپل کے چپڑاسی کو آفس میں بند کیا گیا۔
جرم: پرنسپل آفس کے باہر وال چاکنگ کی گئی ۔۔
ہر جر م کے اعلان کے بعد ہمارے سر مزید جھک جاتے۔ مگر ہم ہر جرم سے صاف مکر گئیں۔ گواہی کے لئے سہیل کو اور صفائی والے بابا جی کو بلایا گیا۔ سوائے لائبریری میں کھڑے ہو کر لڑکوں سے باتیں کرنے کے، ہر دوسری حرکت امرود توڑنے سے لے کر، سہیل کو آفس میں بند کرنے تک، گو اہوں کی انگلی میری طرف اٹھی۔ "روبی نے کیا "۔ پرنسپل دل سے لبرل تھے، مذہبی جماعت کے خوف سے مجبورہو کر ہمیں لائن حاضر کر چکے تھے مگر ہمارے ساتھ نرمی کا رویہ تھا۔ لسٹ دیکھ کر بولے روبی نے کافی کچھ کیا ہے مگر اس کا نام لسٹ میں نہیں ہے اور جن کے نام لسٹ میں تھے، وہ بچاری کسی انتہائی چھوٹے موٹے جر م میں ملوث تھیں۔ میرے جرائم بہت سنگین تھے مگر روبی نام مشہور تھا، روبینہ نام کو کوئی جانتا نہیں تھا شائداس وجہ سے بچ گئی۔ یا جمعیت کے کسی بھائی کو اس بہن پر ترس آگیا ہو۔ اور یہ وہ بھائی تھے جو اچھی سی بہنیں دیکھ کر شادی کیلئے پرپوز بھی کر دیا کرتے تھے۔ پر نسپل نے سب کو مجموعی طور پر وارننگ دی کی آئندہ اس قسم کی حرکتیں ہوئیں تو مجھے مجبوراً آپ کے والدین کو بلا نا پڑے گا۔ اس دھمکی نے تو معصوم لڑکیوں کی جان ہی نکال دی۔ ایک کی دلدوز دھاڑیں مجھے آج بھی یاد ہیں۔ وہ نواز شریف کی طرح یہی پو چھتی جا رہی تھی میں نے کیا کیا ہے۔ مجھے کیوں بلا یا؟ کیو نکہ وہ بچاری ان سب معاملوں سے بہت دور تھی، اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ جتنا اونچی وہ تب رو رہی تھی، اتنا ہی اونچی وہ ہنستی تھی۔
آج کینیڈا میں بیٹھے اپنی بیٹی کو اعتماد سے تعلیم لیتے، لڑکوں سے بات چیت کرتے، آدھی رات کو بس لے کر سکون سے گھر آتے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ کیا میری بیٹی اس تعلیمی ماحول کا تصور بھی کر سکتی ہے جس میں سے ہم گزر کر آئی ہیں ؟مگر افسوس دو دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی پشاور یونیورسٹی کی لڑکیوں کی قسمت وہی رہی جسے ہم تھے تو ہنس کے سہہ گئے، وہ کیا کر یں گی؟