• news

نجی میڈیکل کا لجز میں داخلے روک دئیے، ایسے جرمانے ہونگے مالکان کو گھر بیچنا پڑ جائینگے: چیف جسٹس

لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے نجی میڈیکل کالجز کو داخلہ پالیسی، فیسوں، کالجز کے سٹرکچر، لیب، بنک اکائونٹس اور طلبا کو فراہم کی جانیوالی سہولیات سے متعلق تحریری رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے اس حوالے سے تمام میڈیکل کالجز کو سات روز کے اندر بیان حلفی بھی جمع کرانے کا حکم دیدیا ہے۔ عدالت نے نجی میڈیکل کالجزمیں مزید داخلوں پر پابندی عائد کردی۔ عدالتی کارروائی میں اثر انداز ہونے پر گورنر پنجاب کے بیٹے آصف رجوانہ کو آج طلب کر لیا۔ عدالت نے سفارشی فون کرنے پرفیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلرڈاکٹر فرید ظفر کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہوئے عہدے سے معطل کر دیا۔عدالتی حکم پر بارہ نجی میڈیکل کالج کے مالکان اور نمائندے پیش ہوئے۔ عدالتی حکم کے باوجود شریف میڈیکل اینڈڈینٹل ہسپتال سمیت بعض نجی میڈیکل کالج کے مالکان کے پیش نہ ہونے پر سخت اظہار برہمی کیا گیا اور انہیں آج عدالت میں طلب کر لیا۔ نجی میڈیکل کالجز کے خلاف سپریم کورٹ پیش ہونے والی خاتون وکیل کو سفارشی فون کرنے پر عدالت برہم ہوگئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں گنجائش موجود ہوئی تو گورنر پنجاب کو بھی طلب کیا جائے گا۔ہم دیکھیں گے گورنر پنجاب کے بیٹے نے اتنی جرات کیسے کی۔ عدالت نے رہائشی علاقے میں حمید لطیف ہسپتال کی تعمیر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ڈی جی ایل ڈی اے کو منظور شدہ نقشہ کی تفصیلات لے کر آج پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے علم ہوا کہ ہر نجی کالج اپنا میرٹ بنا رہا ہے۔ پہلے تو میڈیکل کے طالب علم ایک ہی جگہ ہسپتال میں مریض دیکھتے تھے۔ کیا آپ اب بسوں میں طلبہ کو لیجا کر مریض دکھاتے ہیں؟اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس قوم کو کچھ واپس کریں،ہم قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ 6 لاکھ 42 ہزار فیس وصول کی جارہی ہے اور اب معلوم ہو رہا ہے کہ 9 لاکھ سے زائد وصول کئے جارہے ہیں۔ عدالت صحت کے شعبے میں پیدا ہونے والے خلاء کو پورا کرے گی، عدالت جائزہ لے گی کہ پی ایم ڈی سی کو برقرار بھی رکھا جائے یا نہیں۔ عدالت نے پورے پاکستان میں میڈیکل کالج فیسوں کے زیر سماعت کیسزکو سپریم کورٹ ٹرانسفر کرنے کا حکم دیا اور قرار دیا کہ آج کے بعد فیس وصولی کا طریقہ جو سپریم کورٹ طے کرے گی وہی وصول کی جائے گی۔وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز ڈاکٹرفیصل مسعودنے عدالت کو بتایا کہ میرٹ کی مرکزی پالیسی نافذ نہ کرنا نظام کی کمزوری ہے۔ طلبہ کو پیسے کے بل بوتے پر تولا جاتا ہے۔نظام کی خامی ہے کہ ریگولیٹر کا چنائو وہ کرتے ہیں جنہوں نے ریگولیٹ ہونا ہوتا ہے۔ اتھارٹی کو مکمل اختیار دینا ہو گا۔ لاہور یونیورسٹی ریگولیٹری اداروں کے ماتحت نہیں۔چارٹرڈ یونیورسٹی خود ہی داخلے دیتے ہیں۔ خود ہی پیپر تیار کرتے ہیں اور خود ہی امتحان لیتے ہیں، خود ہی ڈگری جاری کرتی ہے۔ عدالت نے کہا کہ مسٹر ایڈووکیٹ جنرل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر جو کچھ بتا رہے ہیں اپنے خادم اعلی کو بتائیں۔ تمام نجی میڈیکل کالجز برے نہیں مگر وہ نمایاں ہیں۔ پی ایم ڈی سی کے صدر نے عدالت کو بتایا کہ بعض نجی میڈیکل کالجز کی جانب سے انسپکشن تک نہیں کرنے دی جاتی۔ ہمارے پچاس فیصدوکلاء نجی میڈیکل کالجز کے ساتھ ملے ہیں،انہیں کیس ہارنے کے پیسے ملتے ہیں۔ سی کیٹگری کے کالجز نے بالکل نہیں سدھرنا۔ جس پر عدالت نے نئے میڈیکل کالجز کی الحاق کے لئے آنے والی درخواستوں پر کارروائی روک دی۔ رجسٹرار لاہور ہائیکورٹ نے بتایا کہ نجی میڈیکل کالجز کے بارہ مقدمات عدالت عالیہ میں زیر سماعت ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چھٹیوں پر جانے والے سیشن ججز کو گھروں سے بلا کرضلعی عدلیہ میں زیر سماعت تمام مقدمات اور ان کی سمری عدالت میں پیش کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آگاہ ہیں نجی میڈیکل کالجز نے پانچ پانچ کروڑ روپے دے کر الحاق کیا۔ ہر کالج اور یونیورسٹی نے اپنا میرٹ کس قانون کے تحت بنایا۔میڈیکل کی تعلیم پر جو لوگ طلباء کو لوٹتے ہیں وہ شکل سے ہی قصائی دکھائی دیتے ہیں۔اگر دو چار میڈیکل کالجز بند کرنا پڑیں گے تو کریں گے۔قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کالج مالکان کو بھاری جرمانے کئے جائیں گے۔اتنے بھاری جرمانے کئے جائیں گے کہ ان کو گھر بیچنا پڑیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ حد ہے کہ ہماری ڈگریوں کی کوئی تصدیق کرنے کوتیار نہیں۔تعلیم پر پیسے کا سحر طاری نہ کیا جائے۔ عدالت نے مزید کاروائی آج تک ملتوی کر دی۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کی جانب سے غیر معیاری پرایئویٹ لا ء کالجز کا الحاق کرنے پریونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کوحلف ناموں سمیت طلب کر لیا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سماعت کی۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ان یونیورسٹیوں نے کتنے کالجز سے الحاق کیا ہے۔ اور قانون کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کیا گیا۔ جو لاء کالجز رولز پر پورا اترتے ہیں ان کی تفصیلات پیش کی جائیں۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے تعلیم، علم اور نالج ضروری ہے۔ یہ جمہوری ملک ہے عوام لیڈرز کاخودچنائو کریں۔ ہم قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ میں اس کام میں لگ کر خیر دین اور محمد دین کے کیس بھول گیا ہوں۔ایسا نہیں ہے ہفتے اور اتوار کو بھی عدالت لگا کر چھ ماہ میں سب کچھ ٹھیک کریں گے۔ عدالت نے کیس کی سماعت بیس جنوری تک ملتوی کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت کیس کی فائلز بھی سپریم کورٹ منگوا لیں۔

ای پیپر-دی نیشن