قبل از وقت الیکشن کے حامی تحریک عدم اعتماد لے آئیں: شاہد خاقان
اسلام آباد (این این آئی + نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہاہے کہ سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے، انتشار و عدم استحکام سے ملک کو نقصان ہوا، شیروانیاں سلوا کر غیر منتخب حکومت کا حصہ بننے اور شب خون مارنے کی خواہش رکھنے والوں کو ناکامی ہو گی، سیاسی استحکام ہوگا تو ملک ترقی کرے گا،ہم نے عدالت کے فیصلے قبول کئے، مسلم لیگ (ن) کی حکومت صرف باتیں نہیں کرتی ، مشکلات گالیوں اور دھرنوں کے باوجود کام کرکے دکھایا، گزشتہ ساڑھے چار سالوں میں جتنے ترقیاتی کام ہوئے اتنے 66 سالوں میں نہیں ہوئے۔ 2030ء تک پاکستان کو بجلی کی پیداوار میں خود کفیل کردیا، ہزارہ موٹر وے کے افتتاح کا حق نواز شریف کاتھا، عوام اگلے عام انتخابات میں ہمیں ووٹ دیکر دوبارہ منتخب کرے گی۔وزیراعظم نے یہ بات ہزارہ موٹر وے کے برہان۔ شاہ مقصود سیکشن کے افتتاح کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ اس منصوبے کا کہیں وجود نہیں تھا نہ کسی نے اس کے بارے میں سنا تھا ،انہوں نے کہا کہ موٹروے بنانے کا فیصلہ نوازشریف نے کیا، پاکستان میں بہت کم ایسا ہوتاہے کہ ایک جماعت منصوبہ شروع کرے اور اسے مکمل بھی کرے۔ یہ اعزازصرف مسلم لیگ (ن) کو حاصل ہے۔ اب مانسہرہ تک کے لوگ اپنے گھروں میں رہ کر اسلام آباد میں کاروبار اور ملازمت کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ موٹر وے کی بدولت علاقے میں صنعتیں آئیں گی۔ کاروبار آئے گا۔ گلگت بلتستان بھی اس منصوبے سے فائدہ اٹھائے گا۔ 9 سال تک مشرف نے حکومت کی اور اس کے بعد 5سال تک پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ، کوئی ایک منصوبہ ان کادکھا دیں جبکہ نواز شریف نے اربوں روپے کے منصوبے شروع کئے اور انہوں نے صرف باتیں اور وعدے نہیں کئے بلکہ منصوبے مکمل کرکے دکھائے۔ کسی کی ہتک اور بے عزتی نہیں کی۔ شرافت اور خدمت کی سیاست کی اور کام کرکے دکھایا۔ ہم نے 580کلومیٹر موٹر وے بنائی اور اب 18سو کلومیٹر مزید موٹروے بھی ہم نے بنائی۔ پی ٹی آئی بتائے کہ اس نے عوام کے لئے کیا کیا ہے۔ ہم نے 2030ء تک پاکستان کو بجلی میں خود کفیل کردیا۔ آج ملک میں گیس موجود ہے ۔ ایک لاکھ ٹن یوریا ہم درآمدکرتے رہے آج یوریا ایکسپورٹ کررہے ہیں۔ ہم نے کام کرکے دکھایا۔ مشکلات کامقابلہ کیا۔ گالیاںاور دھرنے برداشت کئے۔ جھوٹ کاجواب سچ سے دیا۔ہمارے منصوبے اور کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت یکم جون تک اپنی مدت پورے کرے گی۔ جولائی میں الیکشن کے بعد بھی (ن) لیگ کی حکومت آئے گی۔ وزیرا عظم نے کہاکہ وہ عدالتوں کے بارے میں بات نہیں کرنا چاہتے لیکن سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہوتے۔ سیاسی استحکام ہوگا تو ملک ترقی کرے گا۔ 28 جولائی کو بڑا مرحلہ آیا لیکن ہم نے برداشت کیا۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ہمارا انحصار پولنگ سٹیشن اور عوام کے فیصلے پر ہے ۔ عوام جب پولنگ سٹیشن پر جائیں گے تو فیصلہ کریں گے کہ انہیں کام کرنے والے چاہئیں یا گالیاں دینے والے چاہئیں۔ خدمت کرنے والے یا باتیں کرنے والے چاہئیں۔ دریں اثنا وزیراعظم نے حسن ابدال کیڈٹ کالج میں یوم والدین کے حوالے سے سالانہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیڈٹ کالج سے فارغ التحصیل طلبا ترقی کی بلندیوں کوچھوئیں گے۔ ملک ترقی کی راہ پر گامزن اور جمہوریت متحرک ہے، مزید برآں نجی ٹی وی کو انٹرویومیں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ اخبارات پڑھ کر لگتا ہے حکومت کل جانے والی ہے انتخابات وقت پر ہوں گے حکومت مدت پوری کرے گی قبل از وقت انتخابات کی فیصلے کو عوام قبول نہیں کرے گی۔ عدالت کے باہر عدالت لگانے کو روکنا چاہئے۔ سیاست میں نواز شریف کا اپنا مقام ہے انتخابات میں حصہ نہ لے کر بھی وہ سیاست سے الگ نہیں ہوسکے۔1999 کے بعد مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کے خلاف چلی باقی تمام جماعتوں نے سمجھوتے کئے۔ سینٹ کے انتخابات سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی انصاف عدالتیں دے سکتی ہیں دھرنے میں پارٹی نے وزیراعظم کے لیے نامزد کیا تو سوچوں گا۔ آرمی چیف کا سینٹ میں آنا اچھا اقدام تھا، آئیڈیل صورتحال کوئی نہیں ہوتی۔ سول ملٹری تعلقات میں تنائو نہیں اختلاف رائے رہتا ہے فیض آباد دھرنے کے معاملے پر فوج سے مشاورت ہوئی یہ معاملہ اتفاق رائے سے حل کیا گیا انہوں نے کہا کہ خفیہ ہاتھ ہمیشہ غیر قانونی ہوتے ہیں صورتحال جو بھی ہو ہم نے اپنا کام کرنا ہے میں نہیں سمجھتا کہ آئین سے باہر کوئی چیز ملکی مسائل کو حل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابات وقت پر ہوں گے اور عوام ہی فیصلہ کریں گے فوج سے اچھے تعلقات میں ہر دو ہفتے میں نیشنل سیکیورٹی کے اجلاس ہوتے ہیں اور تمام مسائل پر بات ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ ملک کی سیکیورٹی صورتحال ماضی سے بہت بہتر ہے آرمی چیف کی اس بات سے مطمئن ہوں کہ فوج کا کام سیاست میں مداخلت کرنا نہیں ہے انہوں نے کہا کہ اراکین کو دھمکی آمیز کالز سے متعلق اطلاعات ملی تھیں۔ اراکین کو دھمکیاں دینا درست نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ جس نے قبل از وقت انتخابات کرانے ہوں وہ تحریک عدم اعتماد لے آئے قبل از وقت انتخابات کی اور کوئی صورت نہیں ہے۔ اگر میری سیاسی جماعت مجھے کہے تو پھر ایسا ہوسکتا ہے سیاسی جماعت میں ابھی تک اب کوئی موقف نہیں ہے 5 ماہ رہ گئے ہیں۔ میرے بھی تحفظات ہیں تاہم ہم نے عدالتی فیصلوں کو من و عن تسلیم کیا ہے عدالتیں بھی نظر رکھیں کہ فیصلوں کے کیا اثرات آتے ہیں دنیا کی عدالتیں صورتحال کو سامنے رکھ کر ہی فیصلے کرتی ہیں۔ میں وزارت عظمیٰ کا پہلے امیدوار تھا اور نہ ہی آئندہ ہوں گا۔ تاہم پارٹی فیصلہ کرے تو پھر غور کروں گا عدالتی فیصلے سے ملک کو نقصان ہوا پارٹی نے سیاسی میدان میں مقابلہ کیا اور حکومت اپنا کام کر رہی ہے انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کے کام کو دنیا نے تسلیم کیا ہے ان کی پارٹی کے لیے بڑی قربانیاں ہیں اور پارٹی کے دوسرے بڑے لیڈر ہیں شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کا فیصلہ پارٹی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مریم نواز کا پارٹی میں کردار ہے ان کے بارے فیصلہ بھی پارٹی ہی کرے گی کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں گے یا نہیں؟ انہوں نے کہا کہ طاہر القادری کے پاس پاکستانی شہریت ہے کہ نہیں اس کا علم نہیں تاہم انصاف عدالتوں سے ملتا ہے سڑکوں پر اور دھرنوں سے کبھی انصاف نہیں ملتا طاہر القادری جون اور جولائی میں انتخابات میں حصہ لیں عوام ان کے بارے میں فیصلہ کریں گے انہوں نے کہا کہ انتخابات یکم جون سے 15 جولائی کے درمیان ہوں گے ہمارا مقصد یہی ہے کہ ملک میں جمہوریت چلتی رہے۔سانحہ ماڈل ٹائون کی تحقیقات ہوئی ہیں حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں ختم نبوت کے معاملے پر پارلیمانی کمیٹی کے104 اجلاس ہوئے 3 سال کا پراسیس تھا پھر ترامیم ہوئیں۔ اس میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود ہر جماعت شامل ہے انہوں نے کہا کہ بل کا مقصد فارم کو چھیڑنا یا تبدیلی کرنا نہیں تھا غلطی کیوں ہوئی یہ حقائق قوم کے سامنے آنا چاہئیں ہم مسئلے کا حل چاہتے ہیں کوئی سیاست کرنا چاہتا ہے تو کرے۔